پاکستان سمیت دنیا بھر میں 7اپریل کو عالمی یوم صحت
(World Health Day ) منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں میں صحت و
صفائی کے حوالے سے شعور کی بیدار کرنا ہوتا ہے۔اس دن مختلف واک، تقاریب اور
بیماریوں سے بچنے اور ان کے بہتر علاج کے طریقوں سے آگاہی کے لیے لیکچرز کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ صحت مند زندگی انسان کے لیے انمول نعمت ہے،
دنیا کی آسائشیں اورآرام ایک طرف لیکن صحت نہ ہو تو زندگی خوشیوں سے خالی
ہوجاتی ہے۔ انسان جب تک صحت مند وتندرست رہتا ہے اپنی زندگی کے خوشگوار
لمحات سے محفوظ ہوتا ہے، اگر خدانخواستہ وہ بیمار ہوجائے تو ساری خوشیاں
اور زندگی کی آسانیاں خاک میں مل جاتی ہیں کیونکہ بیماری کا اثر اس کی پوری
زندگی پر پڑتا ہے، روز مرہ کے معمولات متاثر ہوجاتے ہیں، کام کاج تسلی بخش
طور پر سرانجام نہیں پاتے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ صحت کی
خرابی سے انسان کی زندگی اس کی بیماری کی حدتک محدود ہوجاتی ہے، ایسے میں
مریض خود کو زمانے سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہے ، ہمت پست ہوجاتی ہے، ولولہ
باقی نہیں رہتا، زندگی کا لطف، اس کی توانائی اور عزائم ساتھ چھوڑ جاتے ہیں
۔ اگر طالب علم ہے تو حصول علم میں دشواری پیش آتی ہے، اگر نوجوان ہے تو
ترقی کے میدان میں قدم بڑھانا مشکل ہوجاتا ہے ، اگر بوڑھا ہے تو اس کی
زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ’ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘
اس کی قدر اور پورا احساس صحت مند لوگوں کو نہیں ہوتا، جو بیمار ہوجاتے ہیں
یا کسی حادثہ کا شکار بن کر بستر پر درواز ہوجاتے ہیں وہی تندرستی کی اہمیت
کو سمجھتے ہیں۔
اس لئے اچھی صحت کا راز کیا ہے اور انسان تندرست رہے اس کا نسخہ کیمیا کیا
ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے اور تجربہ کاروں نے جو باتیں بتائی ہیں ان
پر عمل پیرا ہوجانا چاہئے۔ ہر انسان کے جسم سے بیماریوں سے لڑنے کی ایک
فطری طاقت ہوتی ہے جس کو قوت مدافعت کہتے ہیں اس کے ذریعہ انسانی جسم مختلف
امراض سے لڑتا ہے، یہ قوت بچوں اور بوڑھوں میں کمزور ہوتی ہے لہذا ان کی
صحت پر زیادہ توجہ دینا چاہئے۔ اسی طرح عام انسانوں میں بھی امراض سے
مقابلہ کرنے کی قوت کم وبیش ہوتی رہتی ہے ، جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ سردی کے
موسم میں بعض لوگ ذرا سی بے احتیاطی سے نزلہ وزکام کا شکار ہوجاتے ہیں اور
کچھ لوگ صحت مند رہتے ہیں۔ ایسے سبھی لوگوں کو پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے
اچھی صحت کیا ہے؟ جو آدمی ظاہری طور پر صحت مند وتوانا نظر آئے عام طور پر
اسے اچھی صحت والا سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اچھی صحت کا مطلب ہے بیماریوں سے
بچے رہنا۔ اگر کوئی دیکھنے میں بظاہر بھاری تن وتوانا دکھائی دے تو ضروری
نہیں کہ وہ صحت مند بھی ہو، اس کے مقابلہ میں کوئی ظاہری طور پر دبلا پتلا
نظر آئے لیکن پوری طرح چاق و چوبند ہوتو ایسا شخص صحت مند قرار دیا جائے
گا۔ اس لئے سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اپنی صحت بنانے کے لئے اشتہاری
دواؤں کے جال سے ہم بچیں، لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ٹی وی اور
اخبارات کے ذریعہ مختلف کمپنیاں اپنی ادویہ کی تشہیر کرتی ہیں، لیکن ایسی
دواؤں سے فائدہ نہیں ہوتا، لہذا بیمار کو چاہئے کہ وہ اپنے علاج کے لئے کسی
قابل معالج سے رجوع کرے اور اشتہاری دواؤں کے پھیر ے میں نہ آئے، نہ اپنی
مرضی سے خود کا علاج شروع کردے ، کیونکہ ایسے کسی بھی عمل سے فائدہ کے
بجائے گہرا نقصان ہوسکتا ہے پھر ہر انسان کا جسمانی مزاج الگ الگ ہوتا ہے
اور سب کے لئے ایک دواکارگر نہیں ہوسکتی، اخبارات میں صحت کے کالم بھی شائع
ہوتے ہیں جن میں ڈاکٹر بیماری حال پڑھ کر دوا تجویز کردیتے ہیں یہ طریقہ
بھی طبی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے کیونکہ کوئی معقول ڈاکٹر مریض کو دیکھے
بغیر یا اس کے مرض کے بارے میں جانچ کیے بغیر اور رپورٹیں دیکھے بغیر علاج
تجویز نہیں کرتا ، صحت مندرہنے کے لئے ایسے سبھی اخباری علاجوں سے پرہیز
کرنا ضروری ہے۔
ایک اور بات یاد رکھیں کہ انسانی صحت اس کی سوچ سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے
اگر انسانی سوچ وفکر مثبت رہے گی یا وہ منفی رجحان سے اپنے آپ کو بچائے
رکھے گا تو اس کا مزاج بھی مستحکم رہے گا۔ وہ اخلاقی خرابیوں سے بچے گا ،
غصہ ، اشتعال، جذباتیت، بغض، لالچ اور غرور سے بھی دامن بچائے گا۔ تمام
انسانوں کی صحت میں سوچ وفکر کا تعلق ضرور ہے۔ بری سوچ اور عادتیں آدمی کی
محفوظ توانائی کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں نئی توانائی پیدا ہونے
میں رکاوٹ بنتی ہیں اور ان کا براہ راست اثر آدمی کے اعصابی نظام پر مرتب
ہوتا ہے۔ تندرستی کو برقرار رکھنے کے لئے جہاں ہمیں غذا وقت پر لینے کی
عادت ڈالنا چاہئے، وہیں متوازن غذا لینے کی اہمیت بھی سمجھنی چاہئے ۔ کسی
دانا کا قول ہے کہ ’’انسان اپنے دانتوں سے خود کی قبر کھودتا ہے‘‘۔ کھانے
پینے میں احتیاط برت کر انسان اس قول کو غلط ثابت کرسکتا ہے کیونکہ اطبا ء
کے بقول تمام بیماریاں معدے کی خرابی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور معدہ ثقیل
غذاؤں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ انسانی صحت کا چہل قدمی سے بھی گہرا
رشتہ ہے آج مصروف ترین زندگی میں سے تھوڑا وقت نکال کر ہر انسان چہل قدمی
کرکے اپنے جسم کو متناسب رکھ سکتا ہے، واکنگ یا چہل قدمی ایک ورزش بھی ہے
اور یہ آسان عمل ہے جسے ہر عمر کے فرد بآسانی انجام دے سکتے ہیں۔ یوں تو
ورزش کو انسانی زندگی کا ایک اہم جزو ہونا چاہئے، ایک تندرست جسم کے لئے
تھوڑی بہت ورزش لازم ہے لیکن خواتین اس میں زیادہ سستی برتتی ہیں۔ لیکن
ماہرین فٹنس کیلئے کی جانے والی چہل قدمی کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اس
سے تھکن کم ہوجاتی ہے او ربیش از بیش فوائد حاصل ہوتے ہیں ، بوڑھے جوان سب
کو ہی اپنے جسموں کو صحت مند رکھنے کیلئے چہل قدمی ضرور کرنا چاہئے۔ یہ
ذہنی دباؤ کو کم کرکے اضافی چربی کو گھلانے میں مدد دیتی ہے، تحقیق سے یہ
بھی ثابت ہوا ہے کہ صحت مند انسان کا تیز چلنا اس کے دل اور پھیپھڑوں کے
لئے نہایت مفید اور امراض قلب کے لئے تریاق کا درجہ رکھتا ہے۔
یاد رکھئے! صحت وتندرستی اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اور یہ
انسان کی بنیادی ضرورت بھی ہے، ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند انسان ہی
معاشرہ کی بھلائی کیلئے بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ اس کے
برعکس ایک بیمار اور کاہل انسان سے کسی تعمیری فکر یا سرگرمی کی توقع نہیں
کی جاسکتی۔ پہلے لوگ اپنی صحت کے بارے میں کافی حساس اور محتاط رہتے تھے
جبکہ آج کا انسان اپنی مصروفیات اور گوناگوں مشاغل کے باعث صحت جیسے اہم
مسئلے سے لاپرواہی برت رہے ہیں، پھر آلودہ فضا، ناقص خوراک اور ڈپیریشن نے
بھی بہت اثر ڈالا ہے، ان سب کے باوجود انسان چاہے تو اپنی صحت کے بارے میں
فکر مند ہوکر اور حفظان صحت کا لحاظ رکھ کر ایک صحت مند گھرانے اور معاشرہ
کی بنیاد رکھ سکتا ہے، صحت ایک ایسی دولت ہے جو صرف توجہ اور احتیاط چاہتی
ہے۔ پائیدار صحت کے لیے صفائی کا اہتمام رکھنا بھی فرض عین ہے۔بیماری میں
مبتلا ہونے کے بعد علاج میں سستی برتنامرض کے بڑھنے اور بگڑنے کا سبب بنتا
ہے ، جبکہ بروقت علاج سے مرض سے جلدی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔ |