آٹزم بڑی انوکھی بیماری ہے ۔لغوی
معنی خود فکری ، خیال پرستی ، خود تسکینی ،اپنے تصورات میں ڈوبے رہنا
،بیرونی حقائق سے لاتعلقی ظاہرکرنا ہیں۔اس مرض میں مبتلا بچہ عام بچوں کی
نسبت بول چال میں سستی ،دیگر افراد سے تعلقات میں دشواری ،ذہانت میں کمزوری
جیسے عوامل کا شکار ہوتا ہے ۔یہ بیماری لڑکوں میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔اور
بہت کم لڑکیاں اس کا شکار ہوتی ہیں ۔اس کا صرف اس وقت پتہ چلتا ہے جب بچہ
کم از کم دو سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے ۔مندرجہ ذیل علامات اگر بچے کی عمر
کے پہلے سال سے تین سال کی عمر تک ظاہر ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اسے آٹزم ہے
۔بچہ اگر ایک سال کی عمر کو پہنچ کرمختلف آوازیں نہ نکالے ۔کسی چیزکی طرف
اشارہ نہ کرے ، چیزوں کو پکڑنا شروع نہ کرے ۔اگر 16 ماہ کی عمر تک کوئی ایک
لفظ بھی ادا نہ کرے ۔
آٹزم کا مریض بچہ سماجی میل جول میں واضح طور پر عام بچوں سے پیچھے رہ جاتا
ہے ۔ان کو دوست بنانا نہیں آتا ۔اکیلے رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔خطرے کا
احساس نہیں ہوتا۔درد یا تکلیف میں کمی یا ذیادتی کا احساس کرتا ۔اسے کبھی’’
تھکاوٹ‘‘ محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ایسے بچے ایک ہی جیسے مشاغل کو روزمرہ کرنے
سے بور نہیں ہوتے ۔آٹزم میں مبتلا بچے جب نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں تو
انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ اداس کیوں ہوتے ہیں ؟کیوں خوش ہوتے ہیں؟دکھ
کیا ہوتا ہے ؟خوشی کیا ہے ؟
آٹزم کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ۔ کوئی بھی سائنس دان یا
ڈاکٹر ابھی تک اس دماغی نقص کا پتہ نہیں لگا سکاہے ۔دنیا کے بہت سے ممالک
میں اس بیماری کی وجوہات جاننے کی کوششیں کی گئیں لیکن تا حال حتمی وجوہات
کا تعین نہیں کیا جا سکا۔اکثر والدین بچے کی بیماری کو بھوت پریت ، آسیب یا
جن پری وغیرہ کا سایہ مانتے ہیں اور ڈاکٹروں یا ماہرامراض نفسیات سے مشورہ
کرنے کی بجائے پیروں فقیروں کے درباروں میں حاضری دیتے ہیں۔بعض تو اسے مرض
ہی نہیں سمجھتے ۔اسے نفسیاتی خرابی خیال کرتے ہیں ۔حالانکہ نفسیاتی خرابی
بھی تو ایک مرض ہے ۔
حال ہی میں آٹزم پر ایک تحقیق کے مطابق، آٹزم ایک موروثی خطرہ ہے جو نسل در
نسل منتقل ہوتا رہتا ہے ۔لیکن یہ بھی کوئی حتمی تحقیق نہیں ہے ۔ادویات کے
ساتھ ساتھ آٹسٹ بچوں سے اچھا برتاؤکر کے ماہر نفسیات، اساتذہ، والدین اور
دوسرے رشتے دار متاثرہ بچے کی مدد کرسکتے ہیں۔آٹسٹ بچوں سے سادہ آسان الفاظ
میں ،ٹھہر ٹھہر کر بات کرنا ،چھوٹے چھوٹے فقروں میں بات کرنا ،ان کو سوالات
پر ابھارنے اور ان سوالات کا جواب دینے سے ایسے بچوں کیساتھ تعاون کیا جا
سکتا ہے ۔بچے کے ساتھ محبت، گرم جوشی، اورپیارکا رویہ رکھنے سے ان کی حوصلہ
افزائی کرنا ، انہیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینا، ان کی ہمّت بندھانا، انہیں
بوجھ کی بجائے رحمت اور ذمہ داری سمجھنا چاہئے۔دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا
ہے کہ درحقیقت ایسے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں ۔ان
میں کوئی ایسی صلاحیت موجود ہوتی ہے جو دوسروں بچوں میں نہیں ہوتی ۔آ ٹزم
کا شکار افراد کو دوسروں سے گفتگو کرنے اور تعلق بنانے میں مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں2 اپریل کو دماغی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے
مرض آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے ۔دنیا بھر میں ہر 160 بچوں میں سے
ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے ۔کراچی میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کی تربیت کا
ادارہ’’سینٹر فار آٹزم چلڈرن کراچی’’ کے نام سے قائم ہے ۔ایک اندازے کے
مطابق پاکستان میں ساڑھے تین لاکھ بچے آٹزم سے متاثر ہیں۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق آٹزم یعنی خود فکری کا شکار افراد عام لوگوں کے
مقابلے میں کم جیتے ہیں ،جبکہ اموات کی اہم وجوہا ت خود کشی اور مرگی ہیں
۔سویڈن کے خیراتی ادارے آٹسٹیکا کی جانب سے کی جانے والی تحقیق نے اسے
پوشیدہ شدید بحران سے تعبیر کیا ہے ۔سونگھنے سے آٹزم کا پتا چل سکتا ہے
۔سائنسی جریدے برٹش جرنل آف سائیکیٹری میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق
آٹزم کا شکار افراد کی عمر 16سال سے کم ہوتی ہے ،ایک اندازے کے مطابق
برطانیہ کی آبادی کا ایک فیصد یعنی سات لاکھ افراد آٹزم کا شکا ر ہیں ،خیا
ل رہے کہ کہ آٹزم کا شکار بالغ افراد کو دوسروں سے گفتگو کرنے اور تعلق
بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،سویڈن میں کی گئی تحقیق میں
27ہزار آٹزم کا شکار بالغ افراد اور27لاکھ عام آبادی کو شامل کیا گیا
،کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی اس تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ افراد جو آٹزم اور اس
سے متعلق دیگر استعدادی معذوریوں کا شکار ہوتے ہیں ،ان کی اوسطاََعمر39 سال
ہوتی ہے ، یعنی ان کی اموات عام آبادی سے 30سال قبل ہو جاتی ہیں ،ان افراد
میں موت کی بڑی وجہ مرگی تھی ،آٹزم کا شکار تین چوتھائی افراد کم از کم ایک
متعلقہ دماغی بیماری میں مبتلاََہوتے ہیں جبکہ 40 فیصد افراد 2
مزیدبیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ،اب تک آٹزم اور مرگی کا باہمی تعلق دریافت
نہیں کرسکے ہیں ۔
سویڈن کی تحیقق کے مطابق آٹزم کا شکار وہ افراد جن میں دیگر معزوریاں نہیں
تھیں ان کی اوسطاََعمر 12سال سے کم یعنی 70سال کی بجائے 58سال تھی ۔جن میں
دل کی بیماری کے بعد اموات کی عام وجہ خود کشی پائی گئی ۔ماضی میں کی گئی
تحیققات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں خود کشی
کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں ۔جبکہ خودکشی کی جانب راغب ہونے والے محض نصف فیصد
افراد ڈپریشن کا شکار تھے ۔سال 2015ء میں آن لائن شائع ہونے والی تحقیق کی
مصنفہ ڈاکٹرٹیٹجاہیرویکوسکی تحقیق کے نتائج کے بارے میں کہتی ہیں کہ ،یہ
افسوسناک اور دل دکھانے والے ہیں ،ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں مزید
آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔آٹسٹکا کے چیف ایگزیکٹیو جان سئپیرز نے بی بی
سی کو بتایا کہ آٹزم کا شکار بالغ افراد میں ا موات کی شرح ،پوشیدہ شدید
بحران ہے ۔آٹزم کا شکار ایک چوتھائی افراد یا تو بہت کم الفاظ بول سکتے ہیں
یا پھر بالکل نہیں بول سکتے جبکہ اعدادوشمار کے مطابق صرف 15 فیصدافراد کل
وقتی ملازمت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ |