حکومت تو چلی جاتی لیکن عدلیہ
کبھی بحال نہ ہوتی: وزیراعظم
یہ تو تھا بیان ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب کا جو انہوں نے
غیر ملکی دورے کے دوران دیا۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ اگر میں ایگزیکٹیو
آرڈر نہ کرتا تو ججز کبھی بحال نہ ہوتے یہ میرے آرڈر سے بحال ہوئے ہیں نہ
کہ لانگ مارچ سے۔۔
پیپلز پارٹی کے مرحوم رہنما جناب ذولفقار علی بھٹو کے بعد سے لے کر اب تک
پیپلز پارٹی کی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں
محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت بھی جاتی رہی۔ پی پی پی ہمیشہ ڈھٹائی سے یہ
بات کہتی رہی ہے کہ اس کے راہنماؤں پر کرپشن کے بے بنیاد الزامات لگتے رہے
ہیں؟۔ اگر یہ الزامات بے بنیاد ہی ہیں تو پھر عدالتوں میں پیش ہونے میں کیا
حرج ہے۔ لیکن ہر دفعہ پیپلز پارٹی اپنا مؤقف تبدیل کرتی رہی۔ کبھی ملکی
عدالتوں پر نا اہلی کا لزام لگا تو کبھی بینظیر بھٹو کے مزار کا ٹرائل نہیں
ہونے دیں گے پھر اپنے ہی بیان کو عدالت میں وزیر قانون واپس بھی لے لیا۔
ایک دن جناب وزیراعظم ججز بحالی آرڈر کی پارلیمنٹ سے توثیق کی بات کرتے ہیں
تو دوسرے ہی دن چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری سے ملاقات کر
کے اپنے بیان سے معذوری ظاہر کرتے ہیں۔ کیا وزیراعظم اپنے حالیہ بیان سے
بھی دستبردار تو نہیں ہونے والے۔ اس سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کیا
پیغام جائے گا کہ ہمارے رہنما آئے روز اپنے بیان واپس لیتے رہتے ہیں۔ میں
نے لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اگر بیان دے کر واپس ہی لینا ہوتا ہے تو
پھر بیان دینے کا کیا فائدہ؟
9 مارچ 2007 کا وہ دن کہ جس روز جنرل مشرف نے چیف جسٹس صاحب کو معزول کیا،
20 جولائی2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بحال ہوئے تو مشرف نے ان سے
جان چھڑانے کے لیے 2 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی لگا دی۔۔۔ جنوری 2008
میں تمام پارٹیوں کی انتخابی مہم زور و شور پر تھی تو PPP کا یہ منشور تھا
کہ ججز بحال ہونگے قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یہ نعرہ بھی ماضی کے نعروں کی
طرح بس نعرہ ہی ثابت ہوا۔ بینظیر بھٹو صاحبہ فرماتی تھیں کہ میں چیف جسٹس
کے گھر پرچم لہراؤں گی۔ وہ زندہ نہ رہیں لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی مرحومہ
رہنما کا یہ بیان بھی پس پشت ڈال دیا۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان کی صدا بلند
ہوتی تھی تو کبھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ
تو سرے سے یہ ختم ہو گیا۔ کیونکہ کھانے پینے کی اشیا پیپلز پارٹی کے دور
حکومت میں سب سے زیادہ مہنگی ہوئی۔
1973 کے آئیں میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ملک میں آزاد عدلیہ ہوگی۔
اور وہ بغیر کی رکاوٹ کے آزادانہ فیصلے کرے گی۔ کوئی مسودہ یا قانون قرآن و
سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ عہد خلافت میں تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ عدالت میں پیش ہوئے تو پھر صدر پاکستان کو کس چیز پر استثنا حاصل ہے۔
کیا وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ اسلام میں ایک اونٹنی کا دودھ بیچ کر
گزارہ کرنے والے سے لے کر خلیفہ تک کے لیے ایک قانون تھا تو اب ملک پاکستان
جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ہر شہری کے لیے یکساں قانون کیوں
نہیں ہے؟
ایسے حالات میں وہ واقعہ یاد آتا ہے کہ عہد رسالت میں بنو مخزوم کی عورت نے
چوری کی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کاٹنے کی سزا دی تو
قبیلے والے سفارش کرنے آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
پہلی قومیں اسی لیے تباہ کر دی گیں کہ جب کوئی بڑا چوری کرتا تو اس کو سزا
نہ ہوتی اور جب کوئی غریب آدمی معمولی سا بھی جرم کرتا تو اسکو سزا دی جاتی۔۔،
مزید فرمایا۔۔ "اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسکے بھی ہاتھ
کٹوا دیتا"۔
کیا ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر ہیں کہ ہمیں استثنا
ملا رہے اور ہم عیاشیاں کرتے رہیں۔ اب یقین رکھو ایک دن PPP اپنے اس بیان
سے بھی انکار کرے گی کہ صدر کو استثنا حاصل نہیں ہے لیکن اس وقت جب ڈکٹیٹر
حکومت کر رہا ہوگا۔
وزیراعظم صاحب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے ہم تو ملک میں حقیقی جمہوریت کے دعوے
دار ہیں اور حقیقی جمہوریت آزاد عدلیہ کے بغیر کیسے آسکتی ہے۔ آپ فرما رہے
ہیں کہ عدلیہ کبھی بحال نہ ہوتی اگر میں ایگزیکٹیو آرڈر نہ کرتا۔ اسی عدلیہ
نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کی بھی چھٹی کرا دی تھی جسکو ملک کی تمام بڑی سیاسی
جماعتیں 8 سال میں بھگانے میں ناکام رہیں تھیں۔
وزیراعظم صاحب یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے! کہ اگر آپ ججز بحال نہ کرتے تو
مستقبل میں آپکی حکومت بھی کبھی نہ آتی۔ کیونکہ عدلہ کے نام پر ہی آپ نے
ووٹ لیے تھے۔ ویسے وزیراعظم کے اس بیان کو بھی حقیقی مت سمجھیے گا یہ بھی
پچھلے بیانات کی طرح بدل سکتا ہے۔ |