وہ علامہ اقبال، مولانا شبلی نعمانی، رابندر ناتھ ٹائیگور
کے ہمعصر اور رفیق کارتھے۔ انقلاب اور آزادی کے اس علمبردار کو شاعر کشمیر
کہا جاتا ہے۔ زندگی کو ایک مسلسل جدوجہد قرار دینے، تمام مسائل کا مردانہ
وار مقابلہ کرنے کی تلقین کرنے والے اس انقلابی شاعر سے کشمیر سے باہر کی
دنیابے خبر رہی ہے۔جن کے کلام کو حقیقت میں انسانیت کے نام قابل قدر پیغام
سمجھا گیا۔جس میں حرص، طمع ، خود غرضی پر وار کئے گئے۔ اتفاق، رواداری،
اخوت، ہمدردی، محبت اور انصاف سے زندگی گزارنے پر زور دیا گیا۔ آج ان کی
وفات کو 64سال ہو رہے ہیں۔ کشمیرنے انہیں کبھی فراموش نہ کیا۔ 9اپریل
1952کوپیرزادہ غلام احمد مہجور کا یوم وفات ہے۔ وہ حبہ خاتون کے پہلو میں
مدفن ہیں۔ مہجور ان کا تخلص ہے۔کشمیری شعر و ادب ان کے بغیر نامکمل ہے۔
کیوں کہ وہ اس کا لازمی حصہ ہیں۔ ہر ادیب اور شاعر کی گردو پیش پر گہری نظر
ہوتی ہے۔ وہ سماج کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسی طرح مہجور نے
بھی کشمیری عوام کی ترجمانی کی۔ انھوں نے اپنے تجربات اور احساسات کو
بہترین الفاظ کا جامہ پہنا یا۔ ایک قلم کار صرف رونما ہونے والے واقعات کو
ہی بیان نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بھی روشناس کرتا ہے کہ ان واقعات کے نتیجہ
میں کیا متوقع نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ یعنی اس کا ویژن یا بصارت غیر
معمولی ہوتی ہے۔ تاریخ اور فلسفہ کے ساتھ ادب کا مطالعہ تشنہ گان علم کی
زیادہ تشفی کرسکتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان نے بلا شبہ ایسے شعراء اور قلمکار
پیدا کئے ہیں جنھوں نے اپنے گہرے شعور ، تجربات اور پاکیزہ و قیمتی خیالات
کو نظم یا نثر کی صورت میں پیش کیااور اس زبان و ادب کے لئے بیش قیمت
سرمایہ فراہم کیا ۔
کشمیری زبان باقی زبانوں سے ہر گزپیچھے نہیں ہے۔ اس زبان میں نامی گرامی
شعراء کا انمول اور بے مثال کلام موجود ہے۔ جس میں لل دیدکے ’’واکھ‘‘، شیخ
العالم ؒ کے’’ شروک‘‘، حبہ خاتون کی ’’ویداکھ‘‘ ، رسول میر شاہ آبادی کی’’
وژن‘‘، محمود گامی ، ولی اﷲ متو، مقبول شاہ کرالہ واری، اعما عبد اﷲ کی ’’مثنویاں‘‘،
رحمان ڈار، شمس فقیر، صمد میر، ماسٹر زند کول، احد زرگر کی صوفیانہ کلام،
پرکاش رام کری گامی، کرشن جو رازدان اور پرمانند کی بھگتی شاعری قابل زکر
ہیں۔ مہجور ان میں خاس مقام رکھتے ہیں۔ اسی لئے انہیں کشمیر کا ورڈز ورتھ
بھی کہا گیا۔
مہجور کی کشمیری زبان و ادب کے لئے نمایاں خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں
کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مہجور کے دور کے حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو
بھی ان کی شاعری کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ کسی بھی علاقے کی زبان
کے ادب، ادب پاروں یا کسی ادبی شخصیت کی تخلیق کا تنقیدی جائزہ لینے سے قبل
اس دور کے حالات و واقعات کی جانکاری حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے جس دور میں
وہ ادب تخلیق کیا گیا ہو کیوں کہ کسی دور کا ادب اس دور کی بہترین تاریخ
ہوتا ہے۔ مہجور کی نظر باریک بینی سے زندگی کے ہر شعبے کا جائزہ لیتی ہے
اور آس پاس کے حالات و واقعات سے متاثر ہو کر ہی ایک ادیب یا شاعر اپنی قلم
کو جنبش دیتا ہے۔ مہجور کشمیری شاعروں کے اس نئے دور سے تعلق رکھتے ہیں جو
اکیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دور دنیا بھر میں کچھ اہم اور بڑی
تبدیلیوں کا دور مانا جاتا ہے۔ اس دور میں دنیامیں زندگی کے مختلف شعبوں سے
تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے فرد اور سماج دونو ں کے
بارے میں انسانی سوچ میں تبدیلی لائی ۔ کشمیری زبان میں مہجور سے قبل
روایتی شاعری لکھی جاتی تھی۔ اس لئے وطن دوستی ، قوم پرستی یا قومی بیداری
کی حامل کشمیری شاعری کا گر مہجور کو روح رواں کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا۔
آپ پیشے سے پٹواری تھے۔ اس لئے آپ کو ریاست کے دور دراز علاقہ جات تک میں
جا کر مختلف لوگوں سے ملنے اور ان کے مسائل دیکھنے کا موقع ملا۔ سماجی بھید
بھاؤ، نسلی امتیاز، باہمی نارواداری کو محسوس کیا اور شاعری سے کشمیریوں کو
باہمی اخوت اور بھائی چارے سے رہنے کی تلقین کی۔
مہجور نے اپنی شاعری میں سادہ اور عام فہم الفاظ استعمال کئے۔ تا کہ ہر خاص
و عام اسے سمجھ سکے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ رسول میر شاہ آبادی کی
تقلید کرتے ہیں مگر ان کے کلام کا بغور جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ
ایک روحانی شاعر بھی تھے اور ایک معلم اور مدرس بھی ۔ انھوں نے اپنی شاعری
میں اپنے انمول ارشادات اور نصیحتوں سے قارئین کو نوازا ہے۔ ایسی زبان
استعمال کی ہے کہ ہر کوئی یہاں تک کہ ناخواندہ بھی اسی بہ آسانی سمجھ سکتا
ہے۔
ان کی شاعری میں کشمیر کے دیدہ زیب قدرتی مناظر، سرسبز و شاداب جنگلوں، برف
پوش پہاڑوں ، وسیع و عریض کوہساروں اور ہرے بھرے میدانوں کی زبردست عکاسی
کی گئی ہے۔ وہ اپنی اس سرزمین کی عظمت کے گرویدہ تھے۔ اسے ہر وقت پھلتا
پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مہجور کی شاعری موصوعاتی شاعری ہے
مگر ان کا انداز بیان سلیس اور خوبصورت انداز والا ہے۔ جس کی بنیاد انسانی
ہمدردی پر رکھی گئی ہے۔
مہجور نے خیالات کو بڑے دلکش انداز سے قارئین تک پہنچایاہے۔ اور اپنے افکار
و نظریات کی موثر عکاسی کی ہے۔ ان کی شاعری میں موضوع کے اعتبار سے سوچ کی
گہرائی نظر آتی ہے۔ جس سے ان کی منظر نگاری یا عشقیہ اشعار میں بھی فکر و
فلسفہ نظر آتا ہے۔ مہجور نے بہت کم عرصہ میں کشمیر سے باہر بھی اپنی
صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔
جنوبی کشمیر کے متری گام پلوامہ سے نکل کر وہ کشمیری شعر و ادب کے سرتاج بن
گئے۔ ان کی ملاقاتیں یا روابط مولوی عبد اﷲ شاہ بسمل، عفت لدھیانوی، دیوندر
ستیارتھی، بلراج ساہنی سے بھی رہیں۔ انھوں نے دیوندر ستیارتھی کے کہنے پر
کشمیری زبان میں نظم لکھنے کی شروعات کی۔ لو کچار، دل، وتستا، گریس کور، گل،
ترانہ وطن ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ مہجور کے اشعار پڑھنے والوں کو اپنے ماضی
کے یادگار واقعات اور شخصیات کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کا پیغام ملتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی نے جن شخصیات نے اپنی
صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں ، ان کو ہی ایک آدمی اپنا آئیڈل بنائے اور
اپنا تشخص برقرار رکھے۔
مہجور نے1905سے کئی برسوں تک پہلے فارسی، پھر اردو میں شعر و شاعری کی۔ بزم
ادب لدھیانہ اور دیگر مقامات پر مشاعروں میں شرکت کی۔ اردو میں آپ کی اردو
شاعری پر مشتمل ایک تصنیف حات رحیم کے نام سے لاہور سے 1922میں شائع ہوئی
ہے۔ تذکرہ شعرائے کشمیر، آئینہ اتحاد، سفر نامہ لداخ بھی ان کی اردو قلمی
کاوشیں ہیں۔ تا ہم مہجور نے 1924میں کشمیری شاعری شروع کی۔ کشمیری زبان میں
آپ کی پہلی ہی غزل نے آپ کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ کشمیر کے شہر
و دیہات میں ہر جگہ اور ہر محفل میں آپ کا کلام گایا جانے لگا۔ یہاں تک کہ
برے برے شعراء آپ کا ایک بہترین نیچرل شاعر کہنے لگے۔ اس کے کلام میں سب سے
بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں نہ تو کسی کی ہجو ملتی ہے اور نہ ہی کسی کی تعریف۔
اس میں مذہب یا سیاست کا بھی کوئی دخل نہیں۔ بلکہ خاص ادبی رنگ میں
رنگاہواہے۔ عبد الاحد آزاد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مہجور کے کلام کی
بڑی خصوصیت اس کی برجستگی ہے۔ یہ شاعری اس قدر فصیح ، برجستہ اور دلنشین ہے
کہ ان کے اشعار امثال و اقوال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ |