موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا
ہے۔ہر روز دنیا میں لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ان جانے والوں
میں سے بعض کی موت کی خبرگلی محلے سے باہر نہیں جاتی مگر اہلِ علم وادب کی
وفات کی خبر ہر خاص وعام تک ضرور پہنچ جاتی ہے کیونکہ ان کے پڑھنے والے
تمام دنیا میں پھیلے ہوتے ہیں۔گذشتہ سالوں کی طرح سال ۲۰۱۵ء میں بھی بہت
سے اہلِ علم وادب ہم سے بچھڑ گئے تاہم وہ اپنے چھوڑے ہوئے علمی اثاثے کی
وجہ سے ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گے۔سال ۲۰۱۵ء میں ہمیں داغِ مفارقت دے جانے
والے اہلِ قلم درج ذیل ہیں:۔
داؤد رضوان آپ اردو زبان کے نوجوان شاعر تھے۔۱۲،اکتوبر ۱۹۶۴ء کولاہور میں
پیدا ہوئے۔بعد ازاں راول پنڈی میں سکونت اختیار کی۔۲۵ فروری کو صادق
آباد،راول پنڈی میں وفات پائی۔آپ کی نظموں کا مجموعہ’’سناٹا بولتا ہے‘‘
۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔
احمد ہمدانی آپ اردو زبان کے ممتاز شاعر اورنقادتھے۔نشرح فاؤنڈیشن کے شعبہ
تحقیق وادب کے سربراہ تھے۔آپ کے کئی شعری مجموعے اورتنقیدی مضامین شائع
ہوئے۔۲۷ فروری کو۷۸ سال کی عمر میں کراچی میں وفات پائی۔
ادا جعفری آپ اردو کی نامور شاعرہ تھیں۔۲۲،اگست ۱۹۲۴ءکو بدایون(بھارت) میں
پیدا ہوئیں۔آپ کے والد کانام مولوی بدرالحسن تھا۔جب ادا جعفری تین سال کی
تھیں تو والد کا انتقال ہو گیا چنانچہ آپ کی پرورش آپ کی والدہ نے کی۔ادا
جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔بارہ سال کی عمر میں ادابدایونی کے قلمی
نام سے شاعری کا آغاز کیا۔شروع میں اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح
لی۔۲۹ جنوری۱۹۴۷ء بیورو کریٹ نورالحسن جعفری سے شادی ہوئی تو آپ نے اپنا
قلمی نام ادا جعفری رکھ لیا۔۱۹۴۸ء میں پاکستان منتقل ہوئیں۔ ۱۲،مارچ ۲۰۱۵ء
کو کراچی میں وفات پائی۔آپ کی ادبی خدمات کے عوض آپ کوآدم جی ایوارڈ،کمالِ
فن ایوارڈؤ،تمغۂ امتیاز(۱۹۸۱ء) اور صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے
نوازا گیا۔آپ کے شعری مجموعوں میں’’ میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘(۱۹۵۰ء)،’’شہر
درد‘‘(۱۹۶۷ء) ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘(۱۹۷۲ء)اور ’’سازِ سخن بہانہ
ہے‘‘(۱۹۸۲ء)شامل ہیں۔آپ کی کلیات ’’موسم موسم‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔آپ کی
نثری تخلیقات میں’’غزل نما‘‘(تحقیق وتنقید۔۱۹۹۱ء)اورخود نوشت سوانح
عمری’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘ (۱۹۹۴ء) شامل
ہیں۔
ماجد صدیقی آپ اردو ،پنجابی اور انگریزی زبان کے معروف شاعر تھے۔اصل نام
عاشق حسین تھا۔اپنے استاد صدیق ماجد کی نسبت
سے ماجدصدیقی کہلائے۔یکم جون ۱۹۳۸ء کو نور پور (چکوال)میں
پیداہوئے۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کی اور میٹرک کے بعد گورنمنٹ
کالج چکوال میں داخلہ لیا۔۱۹۶۲ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اردو کرنے
کے بعدعملی زندگی کا آغاز درس
وتدریس سے کیا۔فیصل آباد میں دو سال ،اٹک ایک سال،تلہ گنگ چھ سال
اورگورنمنٹ کالج اصغر مال روڈ راولپنڈی میں تئیس سال تک
اُردوپڑھاتے رہے۔ ۱۹،مارچ کو راول پنڈی میں وفات پائی اور ۲۰ مارچ کو راول
پنڈی میں ہی دفن ہوئے۔آپ کی چیدہ چیدہ کتب میں
اچیچ(۱۹۸۰ء)،ادھ اسمان(۱۹۸۳ء)سخناب(۱۹۸۴ء)غزل سرا(۱۹۸۷ء)خواب تتلیوں
جیسے(۱۹۸۹ء)اے بسا آزرو(۱۹۸۹ء)
دیوار ِگریہ(۱۹۹۱ء)سرونور(مجموعہ نعت)انگناں اترا چاند(۲۰۰۲)دہر
آشوب(۲۰۰۲)سرخ لبوں کی آگ(۲۰۰۲) ڈھلدی شام دا دکھ
(۲۰۰۲ء)کنگلی زرد خزاں(۲۰۰۶)ماجد
نشان(کلیات:۲۰۰۷)’’آغاز‘‘(غزلیں)،’’قطرے میں دجلہ‘‘(بولیاں)،’’رات دی
رات‘‘ (فیض صاحب کی شاعری کاپنجابی ترجمہ)’’کروٹ کروٹ خوشبو‘‘،’’شاد باد
منزل مراد‘‘،’’ہواکا تخت‘‘(غزلیں)،’’تمازتیں‘‘(غزلیں) ’’حرف
ناطق‘‘(نظمیں)،’’یہ انسان‘‘( نظمیں)،’’صورت احوال آنکہ‘‘(مصنف کا
حیاتیہ)،’’دیگر احوال آنکہ‘‘(حیاتیہ حصہ دوم) ’’وتھاں ناپدے
ہتھ‘‘(شاعری)،’’سونہاں لیندی اکھ‘‘،’’میں کنّے پانی وچ آں‘‘،’’گنگے دیاں
رمزاں‘‘،’’پرچھاویں‘‘(ترجمے)،’’لہو دی
اگ‘‘(کہانیاں)،،The soul of wit(نظمیں)The Flavour(فیض صاحب کی نظموں کا
ترجمہ)شامل ہیں۔
شاہدہ احمد آپ اردو زبان کی معروف ناول وافسانہ نگار اور براڈ کاسٹرتھیں۔
۲۰ ستمبر ۱۹۴۹ء کو الہ آباد (بھارت) میں پیداہوئیں۔آپ نے عمر کا بیشتر حصہ
برطانیہ میں گزارا جہاں وہ بی بی سی لندن سے بطور براڈ کاسٹر منسلک رہیں
تاہم ابھی کچھ عرصے سے کراچی میں مقیم تھیں۔آپ کا ناول’’سپنے تیری یادوں
کے‘‘اور دو افسانوی مجموعے’’ ہجرتوں کے بھنور‘‘ اور’’ بھنور میں چراغ‘‘شائع
ہو چکے ہیں۔آپ نے ۷،اپریل کو کراچی میں وفات پائی۔آپ ’’سمن زار‘‘نامی ادبی
تنظیم کی ناظم بھی رہیں۔آپ ’’آدرش‘‘ کے نام سے معذور افراد کے لئے ایک
رسالہ بھی نکالتی رہیں۔
انجم محمود اسد آپ اردو زبان کے افسانہ نگار تھے اور آپ کا تعلق راول پنڈی
سے تھا۔آپ حلقہ ارباب ذوق راول پنڈی کے جوائنٹ سیکرٹری بھی رہے۔آپ نے
۲۳،اپریل کو وفات پائی۔
میجرجنرل (ر)احتشام ضمیر آپ عساکرِ پاکستان کے اعلی افسر ہونے کے ساتھ ساتھ
ایک قلم کار بھی تھے۔آپ معروف شاعر اور مزاح نگار سید ضمیر جعفری کے فرزند
تھے ۔آپ فوج میں کمانڈ اور سٹاف کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔فوج سے فراغت کے
بعدآپ نے ’’متاع ِ ضمیر‘‘ کے نام سے کالم نگاری شروع کی جسے قبولِ عام حاصل
ہوا۔وہ ایک انگریزی کتاب’’Working with Army‘‘ بھی لکھ رہے تھے۔آپ اپنی
رہائش گاہ واقع بحریہ ٹاؤن راول پنڈی میں گیس لیکیج کے باعث آگ لگنے سے
جھلس گئے۔جسم کا ۳۸ فیصد سے زائد حصہ جھلس جانے پر آپ ۱۰،دن سی ایم ایچ
کھاریاں کے ’’برن سنٹر‘‘ میں زیر علاج رہنے کے بعد ۴ مئی کو وفات پا گئے۔
اعزاز احمد آذر آپ اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر،ادیب،کالم نگاراور
براڈ کاسٹر تھے۔۲۵ ؍دسمبر۱۹۴۲ءکوبٹالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔پنجاب یونی
ورسٹی سے اردو اور سیا سیات میں ایم کیا۔بعدازاں دورانِ ملازمت ایم اے
پنجابی بھی کیا۔ آپ کی کتب میں دھیان کی سیڑھیاں(شاعری:۱۹۸۸ء)موسم سی
برساتاں دا(پنجا بی شاعری:۱۹۹۴ء)محبت مشغلہ تھی(نظمیں۱۹۹۷ء) کب صبح ملن
ہوگی(اردو ماہیے:۱۹۹۷ء)آنچل پہ لکھی غزل عصرِ حاضر کی(۲۰۰۴)اوردھوپ کا رنگ
گلابی ہو(شاعری:۲۰۰۴ء) شامل ہیں۔آپ نے ۱۷،مئی کو لاہور میں وفات پائی۔
حیات نظامی آپ ایک معروف قلم کار تھے۔۵جنوری ۱۹۵۳ء کو پیدا ہوئے۔آپ کی کتب
میں ترنم،عندلیب شادانی شخصیت وفن،عشق آباد(شعری مجموعہ۔۲۰۰۳ء)،جانبِ
در،(شعری مجموعہ)نیا مکان (افسانے)اور شوخِ سرخرو شامل ہیں۔ آپ نے ۲۶ مئی
کو کراچی میں وفات پائی۔
حسن جاوید آپ ایک اچھے شاعر وادیب تھے۔نارووال میں پیداہوئے۔کافی وقت
روزنامہ جنگ کوئٹہ میں ملازمت کرتے رہے۔۳۰ مئی کو انتقال کیا اور نارووال
میں دفن ہوئے۔
ڈاکٹر آفتاب اصغر آپ معروف فارسی دان،ماہر اقبالیات ،محقق اور تاریخ دان
تھے۔آپ نے تہران یونی ورسٹی سے ایم فل اور تاریخ نویسی میں پی ایچ ڈی کی
ڈگری لی۔آپ اورینٹل کالج جامعہ پنجاب میں شعبۂ فارسی کے سربراہ تھے۔ آپ کے
تحقیقی کام میں فارسی تاریخ نویسی،ارمغان کشمیر،تاریخ مبارک شاہی،تفہیم
القرآن کا فارسی ترجمہ،حقیقت نماز اورحقیقت جہاد کا فارسی ترجمہ شامل ہے۔آپ
نے دو دہائیوں کی محنت کے بعد چھٹی سے بارہویں جماعت کا فارسی نصاب ترتیب
دیا۔آپ کی اہلیہ ڈاکٹر خالدہ آفتاب بھی لاہور کالج برائے خواتین کی شعبۂ
فارسی کی سربراہ رہیں۔ڈاکٹر آفتاب اصغر نے۳۰ مئی کو انتقال کیا۔
قدیر غوثی آپ صاحب طرز افسانہ نگاروڈراما نگار تھے۔آپ نے حیدرآباد کی ادبی
فضا کو ہمیشہ گرمائے رکھا۔آپ کا افسانوی مجموعہ’’خواب کہانی‘‘کے نام سے
شائع ہوا۔ریڈیائی ڈراموں پر وفاقی حکومت کی طرف سے آپ کوسند امتیاز بھی عطا
کی گئی۔آپ نے ۳،جون کو وفات پائی۔
واحد بشیر آپ معروف ادیب اور ادبی میگزین’’ارتقا‘‘کے شریک مدیر تھے۔آپ ترقی
پسند تحریک سے وابستہ تھے اور آپ نے مزدوروں کے حقوق کے لئے بھی جدوجہد
کی۔آپ نے ۲۲جون کو کراچی میں وفات پائی۔
شاہدہ تبسم آپ اردو زبان کی نامور شاعرہ وافسانہ نگار تھیں۔آپ آغا مسعود
حسین کے میگزین’’ ایکسپورٹ ٹرینڈ‘‘سے وابستہ رہیں اورسہ ماہی کولاژ کی نائب
مدیرہ کے فرائض بھی انجام دیتی رہیں۔۲۴جون کو کراچی میں دل کا دورہ پڑنے سے
فوت ہوئیں۔ آپ نے کچھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کئے۔
سید مبارک شاہ آپ اردو زبان کے معروف نظم گو شاعر تھے۔یکم جنوری ۱۹۶۱ء کو
پیداہوئے۔طویل عرصے سے بیمار تھے۔۲۷ جون کی صبح سی ایم ایچ راول پنڈی میں
انتقال کرگئے۔۲۷ جون رات دس بجے قبرستان الف شاہ ،لالہ زار ،راول پنڈی کینٹ
میں دفن ہوئے۔آپ کی شعری کتب میں جنگل گمان کے،ہم اپنی ذات کے کافراورمدار
نارسائی میں اورنثری کتب میں برگد کی دھوپ میں،شامل ہیں۔
نورزمان ناوک آپ اردو اور پنجابی کے شاعر تھے۔آپ کا تعلق تلہ گنگ،ضلع چکوال
سے تھا۔یکم دسمبر ۱۹۴۸ء کوٹمن میں پیدا ہوئے۔تین سال کی عمر میں والد کے
ساتھ ملتان چلے گئے۔اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ ملتان سے میٹرک کیا۔ولایت
حسین کالج سے ایف اے کیا۔ملتان شہر میں مختلف کاروبار کئے مگر گزراوقات نہ
ہو سکی تو ۲۰۰۲ء میں آبائی شہر تلہ گنگ آ گئے۔آپ کی پنجابی نظموں کا
مجموعہ’’ دو گھٹ پانی ‘‘کے نام سے ۱۹۸۴ء میں اثبات پبلی کیشنز راول پنڈی
نے شائع کیا۔آپ نے۲۸ جون کو وفات پائی اور اگلے روزتلہ گنگ میں دفن ہوئے۔
عبداﷲ حسین آپ اردو زبان کے معروف ناول نگار وافسانہ نویس تھے۔
۱۴،اگست۱۹۳۱ء کو گجرات میں پیدا ہوئے۔سیمنٹ سازی کے شعبے میں کیمسٹ کے طور
پر کام کرتے رہے۔آپ کے ناول’’اداس نسلیں‘‘ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔اس ناول
کے علاوہ آپ نے نشیب،واپسی کا سفر،بانجھ،باگھ،رات،قید،نادار لوگ ،سات رنگ
اورفریب جیسی تحریریں یاد گار چھوڑی ہیں۔آپ نے ۴جولائی کو وفات پائی۔
رحمت اﷲ شوہاز آپ بلوچی زبان کے شاعر تھے۔آپ کا تعلق بلوچستان کے علاقے
بلیدہ ،ضلع کیچ سے تھا۔آپ انٹر کالج بلیدہ میں لائبریرین کے فرائض بھی
انجام دیتے رہے۔۱۹،جولائی کوجب آپ معمول کی چہل قدمی کے لئے گھر سے نکلے تو
دو نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے آپ کو موت کے گھاٹ اتار
دیا۔
پروفیسرڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک آپ پشتوزبان کے مقبول شاعر،ادیب اور محقق تھے
تاہم آپ نے انگریزی اور اردو زبان میں بھی تحقیقی کام کیا۔آپ پشاور یونی
ورسٹی کی پشتو اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی رہے۔آپ کا تعلق ضلع نوشہرہ کے گاؤں
ڈاک اسمعیل خیل سے تھا۔آپ نے ٹیلی ویژن پر کئی پشتو ادبی پروگراموں کی
میزبانی بھی کی۔آپ نے پشتو ڈکشنری کو جدید خطوط پر ترتیب دینے کے سلسلہ میں
بہت کام کیا۔آپ کو ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔آپ ۲۰،جولائی کو سوات سے
پشاور آ رہے تھے کہ مالاکنڈ کے قریب آپ کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت
ہوا۔آپ کی کتب میں ’’دپختو ادبی تحریکونہ’’،’’زیست روزگار وفقیر جمیل
بیگ‘‘،’’مناقبِ فقیر‘‘،’’پختوڑبہ‘‘،’’دپختو نوئے املا‘‘،’’سنگ
زار‘‘،’’درحمان پہ شعر‘‘،’’توڑی چہ رنڑا کوی‘‘اور ’’روہی متلونہ‘‘ قابل ذکر
ہیں۔آپ نے ایک کتاب Heritighe of Peshawer کے نام سے بھی تخلیق کی۔
حسرت کاسگنجوی آپ کا اصل نام عبدالحق خان تھا۔آپ اردو زبان کے معروف شاعر
اور نقاد تھے۔۱۲،نومبر ۱۹۳۶ء کو بھارت میں پیدا ہوئے۔آپ کی کتب میں ادب
اور اقدار،ادبی ورثہ:تجزیہ وانتقاد،پرکھ،جادۂ رحمت کا مسافر،ارشادات
وافادات،بہاریں اداس ہیں(۱۹۷۲ء)،کھرے سکے،زخم بنے پھول(۱۹۹۴ء)،آدھا سورج
آدھا سایہ(۱۹۷۸ء)،زہر جیسی کڑوی(۲۰۰۰ء)،خار زادوں میں(۱۹۸۰ء)،محوِ تماشا
ہوں(۱۹۸۵ء)،بیسویں صدی میں اردو ادب(۱۹۹۴ء)مطالعۂ اقبال بانگ دراتحقیقی
اور تنقیدی نظر سے((۱۹۹۴ء) اورادب:علمی اور فکری زاویے (۱۹۹۴ء)شامل
ہیں۔آپ نے ۳۰جولائی کو حیدر آباد میں وفات پائی۔
دانیال طریر آپ اردو زبان کے نوجوان شاعر اور ادیب تھے۔اصل نام مسعود
دانیال تھا۔۲۴جولائی۱۹۸۰ء کولورا لائی (بلوچستان) میں پیدا ہوئے۔۳۱جولائی
کو طویل علالت کے بعد کوئٹہ میں وفات پائی۔آپ نے سات کتب تخلیق کیں جن میں
آدھی آتما،جدیدیت مابعد جدیدیت اور غالب،خواب کمخواب،خدا میری نظم کیوں
پڑھے گا،معنی فانی،بلوچستانی شعریات کی تلاش ،معاصر تھیوری اورتعین قدرشامل
ہیں۔
طارق محمود آپ کراچی یونی ورسٹی کے رجسٹراراورشعبۂ تصنیف وتالیف کے ناظمِ
اعلی رہے۔کئی کتب کے مصنف تھے۔فرہنگِ اصطلاحات کے ضمن میں آپ کا کام نمایاں
ہے۔آپ نے ۶،اگست کو کراچی میں وفات پائی اور جامعہ کراچی کے قبرستان میں
دفن ہوئے۔
پرویز بزمی آپ کا اصل نام ملک فتح خان تھا۔فروری ۱۹۲۹ء کو چک ۳۹شمالی
،سرگودھا میں پیدا ہوئے۔شاعر ،ادیب اورنقاد تھے۔آپ کی مطبوعہ کتاب ــ’’خوش
کلام ،غلام جیلانی اصغر ‘‘ہے۔آپ نے ۱۳،اگست کو وفات پائی۔
لیفٹیننٹ جنرل حمید گل آپ ۲۰نومبر۱۹۳۶ء کوسرگودھا میں محمد خان یوسف زئی
کے ہاں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم سرگودھا میں ہوئی۔گورنمنٹ کالج لاہور میں
داخلہ لیا لیکن پی ایم اے کاکول کے لئے سلیکٹ ہونے کے بعد فوج سے منسلک ہو
گئے۔ ۱۹۵۸ء کوبحیثیت سیکنڈ لیفٹیننٹ ۱۹،لانسر کا حصہ بنے اور۱۹۹۲ء میں
بحیثیت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہوئے۔آپ نے ۱۵،اگست کو مری میں وفات پائی جہاں
وہ اپنے خاندان کے ہمراہ تفریح کے لئے مقیم تھے۔آپ کو فوجی قبرستان ویسٹریج
راول پنڈی میں دفن کیا گیا۔آپ ایک بے باک مبصّر اور کالم نگار کی حیثیت سے
بھی معروف تھے۔آپ نے کئی انگریزی اور اردو اخبار ورسائل میں کالم اور
مضامین لکھے۔
جسٹس جاوید اقبال آپ ۵،اکتوبر۱۹۲۴ء کوسیالکوٹ میں شاعرِ مشرق علامہ اقبال
کے گھر پیداہوئے۔۱۹۴۴ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے ،۱۹۴۸ء میں
انگریزی اور فلسفے میں ایم کیا۔۱۹۵۴ء میں کیمبرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی
اور ۱۹۵۶ء میں لنکنز ان ، لندن سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی۔عملی زندگی
کا آغاز وکالت سے کیا۔ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ میں جسٹس
رہے۔سینٹ آف پاکستان کے ممبررہے اور اقوام ِمتحدہ میں پاکستانی وفد کے رکن
کے طور پر خدمات انجام دیں۔آپ نے ۳،اکتوبر کو وفات پائی۔آپ کی تصانیف میں
مئے لالہ فام،Ideology of Pakistan (اردو ترجمہ نظریۂ
پاکستان۱۹۵۹ء)،Legacy of Quaid-e-Azam(اردو ترجمہ میراثِ قائد
اعظم۱۹۶۸ء)،افکارِ اقبال(۱۹۹۴ء)،جہانِ جاوید،خطبات ِاقبال،زندہ رود(تین
جلدوں میں اقبالؒ کی سوانح عمری) اپنا گریباں چاک(خود نوشت سوانح
عمری)Islam and Pakistan'sIdentity
Stray Reflections: A Note-Book of Iqbal (1961)اورPakistan and the
Islamic Liberal Movement (1994).،The Concept of State in Islam : A
Reassessmentشامل ہیں۔
ارشاد جالندھری آپ اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر تھے۔بیدل حیدری کے
اولین شاگردوں میں سے تھے۔آپ کی طنزیہ اور انقلابی نظمیں عوام میں کافی
مقبول ہوئیں۔آپ نے ۳۰،اکتوبر کو وفات پائی اورآبائی علاقے کسووال میں دفن
ہوئے۔
اقبال سید آپ کا مکمل نام سید اقبال حسین شاہ تھا۔آپ اردو اور سرائیکی زبان
کے شاعر تھے۔۱۹۲۹ء میں ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہوئے اور بی اے تک تعلیم
حاصل کی۔آپ کا شعری مجموعہ ’’درد کی جھیلیں سوکھ گئیں‘‘کے نام سے شائع ہوا
جس میں آپ کا اردو اور سرائیکی کلام شامل ہے۔آپ نے۸نومبر کو اسلام آبادمیں
اپنے بیٹے اشفاق سید کے گھروفات پائی اورڈیرہ اسمٰعیل خان میں دفن ہوئے۔
اشتیاق احمد آپ نامور جاسوسی ناول نگار تھے۔۵ جون۱۹۴۲ء کوپانی پت میں پیدا
ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان جھنگ منتقل ہو گیا۔آپ نے میٹرک تک
تعلیم حاصل کی ۔آپ کی پہلی کہانی۱۹۶۰ءمیں ہفت روزہ’’قندیل‘‘ میں شائع
ہوئی۔آپ کا پہلا ناول ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔آپ نے ۸۰۰ سے زائد ناول تحریر
کئے۔انسپکٹر جمشید سیریز سے آپ نے شہرت پائی۔آپ کا پہلا ناول’’پیکٹ کا
راز‘‘تھا جو ایک رومانوی ناول تھا تاہم آپ کی وجۂ شہرت جاسوسی ناول ہیں۔آپ
متعدد جرائد کے مدیر رہے۔آپ روزنامہ ’’اسلام ‘‘کے ہفتہ وار میگزین’’بچوں کا
اسلام‘‘ کے لئے بھی کہانیاں لکھتے رہے۔آپ۱۷،نومبر کو گیارہویں عالمی کتب
میلے میں شرکت کے بعد کراچی سے لاہورجارہے تھے کہ قائد اعظم انٹر نیشنل
ایئر پورٹ کراچی پر دل کا دورہ پڑااور وفات پاگئے۔اشتیاق احمد کے ۱۵،ناول
ابھی بھی زیرِ طباعت ہیں۔آپ کواپنے آبائی علاقے آدھیوال جھنگ میں دفن کیا
گیا۔
جمیل الدین عالی آپ اردو زبان کے ایک معروف شاعر،ادیب اور کالم نگار
تھے۔۲۰،جنوری ۱۹۲۵ء کو دہلی میں پیداہوئے۔۱۲،سال کی عمر میں آپ کے
والدامیرالدین خاں کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔آپ نے اینگلو عریبک کالج دہلی سے
معاشیات میں بی اے کیا۔قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار
کی۔۱۹۵۱ء میں پاکستان کی سول سروسزمیں ملازمت اختیار کی۔پیپلز پارٹی کے
ٹکٹ پر ۱۹۷۷ء میں انتخابات میں حصہ لیا مگر ناکامی ہوئی تاہم ۱۹۹۷ء میں
ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے سینیٹر منتخب ہوئے۔آپ نے تعلیم کا سلسہ بھی
ساتھ ساتھ جاری رکھا۔کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا ۔ آپ نے کئی یاد
گار قومی نغمے تخلیق کئے۔آ پ کو آدم جی ایوارڈ(۱۹۶۰ء)،تمغہ حسنِ
کارکردگی(۱۹۹۰ء) اورہلالِ امتیاز(۲۰۰۴ء) کے اعزازات سے نوازا گیا۔آپ
ذیابیطس اور سانس کی تکلیف کے باعث ہسپتال میں زیر ِ علاج تھے جہاں آپ نے
۲۳،نومبرکو کراچی میں وفات پائی۔آپ کی شعری کتب میں’’اے مرے دشتِ
سخن‘‘،’’غزلیں دوہے گیت‘‘،’’جیوے جیوے پاکستان‘‘،’’لا حاصل‘‘،
’’انسان‘‘(طویل نظمیہ)’’نئی کرن‘‘اور’’دوہے‘‘شامل ہیں۔آپ نے سفر نامے بھی
لکھے۔آپ کے مطبوعہ سفر ناموں میں’’دنیا مرے آگے‘‘،’’تماشا مرے آگے‘‘،’’آئس
لینڈ‘‘ شامل ہیں۔آپ عمدہ کالم نگار بھی تھے۔’’کارگاہِ وطن‘‘،’’بارگاہِ
وطن‘‘،’’صدا کر چلے‘‘اور’’دعا کر چلے‘‘کے نام سے آپ کے کالموں کے مجموعے
شائع ہوئے۔’’حرفِ چند‘‘ کے نام سے انجمن اردو کی کتابوں پر لکھے گئے مقدمے
بھی شائع ہوئے۔
قاضی محمد اختر جونا گڑھی آپ اردو کے شاعر،ادیب ،مترجم اور کالم نگار تھے۔
۸،جون ۱۹۴۳ء کو جونا گڑھ (بھارت)میں پیدا ہوئے۔آپ نامور محقق اورنقادقاضی
احمدمیاں اختر کے فرزند تھے۔قیام پاکستان کے بعد کراچی سکونت اختیار
کی۔محمد اخترکی شادی نامور افسانہ نگار خاتون پروفیسر رئیس فاطمہ سے
ہوئی۔قاضی محمد اختر کا شعری مجموعہ’’ہم تو پتھر ہوگئے‘‘ کے نام سے شائع
ہوا۔آپ کی نثری کتب میں’’دفتر امکاں‘‘،’’درِ امکاں‘‘،’’آج کا
بھارت‘‘اور’’چہار خواب‘‘شامل ہیں۔آپ نے گورڈن کوریراکی کتاب’’Shopping for
Bombs‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ڈاکٹر قدیر خان نیٹ ورک کا عروج وزوال‘‘ کے نام سے
کیا۔آپ نے ۵دسمبر کو کراچی میں وفات پائی۔
ظہیر کنجاہی آپ اردو اور پنجابی زبان کے صاحبِ طرز ادیب ،افسانہ و ناول
نگاراورشاعر تھے۔۱۲،جون ۱۹۳۳ء کو کنجاہ ضلع گجرات میں پیداہوئے۔آپ نے منشی
فاضل (اردو)اورمنشی فاضل (فارسی)کے امتحانات پاس کئے۔ایم اے (اُردو)اوربی
ایڈکرنے کے بعد ایم فل (اُردو)کیا۔ آپ کی طبع شُدہ کُتب میں عنایت حسین
بھٹی کی کالم نگاری (احسان فیصل کے ساتھ مشترکہ کاوش )، مہرِ حرا (نعتیہ
مجموعہ کلام) ، تیرا آئینہ ہوں میں (شاعری )، عرفان ِمحل (ناول )، محبت اور
خون (افسانے )، گوہر ِگجرات (ایک شخصی خاکہ )، ساون کے مہینے میں (اردو
ماہیے )، مضرابِ فکر (مجموعہ غزلیات )، ارادت (ناول)، کسی شام آکے ملو ،
اکھراں وچ گلاب (شاعری )، مہرِ درخشاں (شخصیت اور فن )، یاداں دے پچھوکڑ ،
صورت ِاظہار اور تاہنگ دی سیک ودھیری شامل ہیں۔ آپ نے ۶،دسمبر کو وفات
پائی۔
سیدکمال احمد رضوی آپ معروف ڈرامہ نگار اور مترجم تھے۔ یکم مئی۱۹۳۰ء
کوصوبہ بہار(بھارت) کے قصبے ’’گیا‘‘میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام
سیدعبدالرشید تھاجو پولیس میں افسر تھے۔کمال احمد رضوی نے پٹنہ یونی ورسٹی
سے گریجویشن کی اور۱۹۵۱ء میں پاکستان آئے۔آپ نے پہلی کہانی ۱۲،سال کی عمر
میں لکھی جودہلی کے ایک رسالے میں شائع ہوئی۔۱۹۵۲ء میں آپ نے ریڈیو
پاکستان کے لئے ڈرامہ لکھا اور صدا کار کے طور پر بھی کام کرنے لگے۔۱۹۵۷ء
میں سٹیج ڈراموں میں اداکاری شروع کی اور پاکستان میں تھیٹر کے فروغ کے لئے
دن رات کام کیا۔آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے بھی بہت سے ڈرامے لکھے تاہم
آپ کوشہرت ٹی وی سیریل ’’الف نون‘‘ سے حاصل ہوئی۔آپ نے اس سیریل کولکھا اور
اس میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔اس کے علاوہ آپ نے متعدد ڈرامے لکھے جن
میں مسٹر شیطان،صاحب بی بی اورغلام ،آپ کا مخلص،چور دروازہ،آؤ نوکری کریں
وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔آپ تعلیم وتربیت، تہذیب،شمع،پھلواری،بچوں کی دنیا
اورآئینہ جیسے رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ نے کئی غیر ملکی ادیبوں کی
کہانیوں کو اردو میں ترجمہ کیا۔۱۹۸۹ء میں آپ کو حکو مت پاکستان کی جانب سے
صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔آپ کئی مرتبہ آرٹس کونسل آف
پاکستان کراچی کی گورننگ باڈی کے رکن منتخب ہوئے۔آپ نے تین شادیاں کیں۔پہلی
شادی یکم مئی ۱۹۶۵ءکونزہت رفیع سے دوسری یکم مئی ۱۹۷۵ء کو امینہ عبداﷲ سے
اور تیسری شادی ۱۶،اکتوبر ۱۹۸۳ء کوعشرت جہاں سے کی۔ سید کمال رضوی نے
۱۷،دسمبر کو کراچی میں وفات پائی اور اگلے روز یہیں دفن ہوئے۔
|