حج اخراجات اور سندھ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے
کرایوں میں اضافہ قابل مذمت ہے
آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کے خدشات....؟
کہنے کو تو پاکستان ایک اسلامی ملک ہے مگر اِس ملک کی حکومت سوائے لفظی
مسلمانیت کے عملی طور پر اِس سے کچھ کچھ دور ہے اور یہ ہمارا قومی المیہ
نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے کہ قومی بجٹ 2010-2011 جِسے 5جون کو پیش ہونا
تھا اِس کی آمد سے صرف دو روز قبل 3جون 2010 کو وفاقی وزیر مذہبی امور
صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی نے نئی حج پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ
اِس سال حج اخراجات میں 38ہزار روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے جس کے مطابق
کراچی اور کوئٹہ کے عازمین کے کُل حج اخراجات 2لاکھ 26ہزار روپے اور اسلام
آباد، پشاور، لاہور، ملتان اور اِسی طرح سے ملک کے دیگر مقامات کے عازمین
کے لئے مجموعی طورپر2لاکھ 38ہزار روپے ہوں گے“وفاقی وزیر مذہبی امور کے اِس
اعلان کے بعد پاکستان کے اُن لوگوں کے دل پر کیا .....؟بیتی ہوگی جو اِس
سال حج کی عظیم سعادت حاصل کرنے کے خواہشمند ہوں گے اور اِن کے مذہبی جذبات
کو کتنی ٹھیس پہنچی ہوگی شائد اِس کا اندازہ ہمارے حکمرانوں کو نہ ہو....
مگر اِس ساری صورت حال میں مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ پاکستان کے عازمین
حج کے لئے اتنے اخراجات اپنے پڑوسی سیکولر ملک بھارت سے کئی گنا زیادہ ہیں
جو ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے اور اِن کے جذبہ ایمان کو جھنجھوڑ کے
لئے کافی ہے کہ وہ خود اِس بات کا موازنہ بھارت سے کریں کہ جو کہیں سے بھی
خود کو اسلامی ملک کہلانا پسند نہیں کرتا مگر پھر بھی بھارت اپنے یہاں
مسلمانوں کو ہر سال حج پر جانے کی بے شمار سہولتیں مہیا کرتا ہے جس میں
بھارتی عازمین حج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِن کا ملک ہر سال حج کے اخراجات
اپنے پڑوسی اسلامی ملک پاکستان سے کم رکھتا ہے۔
اور اِسی طرح ایک اور افسوناک خبر یہ بھی ہے کہ تین جون کو یعنی کہ بجٹ آنے
سے پہلے ہی حکومت ِ سندہ نے بھی(جس کی ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں
میں کمی کے اعلان کے بعد کوئی قانونی جواز نہیں تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے
کرایوں میں اضافہ کیا جاتا مگر پھر بھی اِس نے) پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں
میں ایک روپے کا اضافہ کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ
حکومت کو عوام کی تکالیف اور پریشانیوں کا کوئی احساس نہیں ہے اور اِس نے
یہ بھی جتا دیا ہے کہ حکومت تو بس یہ چاہتی ہے کہ جیسے تیسے اِس کی مدت کے
پانچ سال پورے ہوں بھر بھلے سے عوام جیئے کہ مرے اور ملک کا کچھ بھی بنے
.....اِس کی بلا سے...... مگر حکومت کو کوئی اِس کی مدت پوری کرنے سے نہ
روکے.....بس....یوں ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام کے نزدیک حج اخراجات میں
38ہزار کا اضافہ اور سندہ میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں ایک روپے کا
اضافہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ بڑی حد تک افسوسناک بھی ہے جِسے حکومت کو
ہر حال میں واپس لینا چاہئے تاکہ عوام کہ دلوں میں اِس کا مورال بلند ہو
ناں کہ اِس قسم کے غیر ضروری اقدامات کرنے سے عوام کے دل و دماغ سے حکومت
کا وقار اور اِس کی ساکھ ختم ہو۔
بہرکیف! پاکستانی قوم یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ گزشتہ 63,62سالوں کے
دوران جس کسی(جمہوریت سے لبریز یا آمریت سے چُور) حکومت نے جب بھی قومی بجٹ
پیش کیا اُس نے اِس میں اپنے عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا اور یوں
پاکستانی عوام کو اِس مرتبہ بھی پورا یقین ہے کہ 5جون 2010کوعوامی خدمت کو
اپنا نصب العین جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت جو قومی بجٹ
2010-2011 پیش کرے گی وہ بھی سالِ گزشتہ کی طرح مایوسیوں اور محرومیوں سے
بھرا ہوا ہوگا اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اِس میں بھی ملک کی مفلوک
الحال اور بیچارے معصوم عوام کے ہی گلے پر بے تحاشہ ٹیکسوں کے نفاذ کی صورت
میں مہنگائی کی چھری پھیر دی جائے گی۔
اگرچہ یہاں یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سالِ گزشتہ کی طرح اِس سال بھی اِس
عوامی اور جمہوری حکومت نے اپنا سینہ چوڑا کر کے اور گردن تان کر اپنے دامن
(جو پہلے ہی سے داغدار ہے) کو بچاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ”عوام پر اِس نئے
مالی سال کے بجٹ 2010-2011 میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور حکومت
نے کوشش کی ہے کہ ملک میں مہنگائی کو نہ بڑھنے دیا جائے اور مہنگائی کی چکی
میں پسےِ عوام کو ٹیکسوں کی ادائیگی سے نجات دلا کر انہیں نہ صرف مہنگائی
سے چھٹکارا دلایا جائے بلکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے‘ مگر
اِس حکومتی لولی پاپ کے باوجود بھی ملک کے 21ویں صدی کے ہوشیار اور چالاک
عوام کو حکومت کے اِس کہے پر ذرا برابر بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ حکومت
عوام سے متعلق اِس بجٹ میں جتنا کچھ کہے گی اور کرنے کرانے کا جو منصوبہ
بنائے گی وہ سب کے سب کیا حکومت نیک نیتی سے پورا کر پائے گی .....؟
یہاں میرا خیال یہ ہے کہ نہیں ہرگز نہیں حکومت عوام کو صرف بجٹ تقاریر میں
تو خوش کرنے کی عادی ہے مگر عملی طور پر اِس سے عاری ہے کہ پاکستانی حکومت
اپنے عوام کے لئے کچھ اچھا کرسکے کیونکہ معاف کیجئے گا جناب! ہم نے تو یہی
دیکھا ہے کہ ہماری گزشتہ حکومتوں نے عوام کے لئے بجٹ تقاریر میں سوائے
تقریریں کرنے کے عملی طور پر تو کبھی بھی کچھ نہیں کیا ہے اور آج یہ حکومت
بھی اِسی ڈگر پر چلتے ہوئے وہی کچھ کر رہی ہے جو اِس سے قبل کی حکومتوں نے
عوام کو بجٹ میں ہندسوں کے گورکھ دھند سے سبز باغ دکھانے کے اور کچھ نہیں
کیا ہے اور یوں اَب پچھلے ڈھائی سالوں میں عوامی ہمدردی کا ہر دم، دم بھرتے
بھرتے نہ تھکنے والی یہ عوامی اور جمہوری حکومت بھی وہی کچھ کرے
گی.....جیسا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے)اِس سے ملک کے غریب اور مفلوک
الحال عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کر کے ذبح کرنے کا منصوبہ
بناکر اِسے دیا ہے) اور اِسے ایسا کرنے کو کہا ہے یوں یہ عوامی اور جمہوری
حکومت من وعن اُس پر عمل کر کے اپنے عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی چکی میں
پیس کر شدید مشکلات سے دوچار کردے گی اور خود کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک
کے نزدیک اپنی مدت پانچ سال پورے کرنے کے لئے پکا کر لے گی۔
اور شائد یہی وجہ ہے کہ اِس قومی بجٹ 2010-2011 کی تیاری سے لے کر اِس کی
5جون کو پارلیمنٹ سے منظوری کرانے تک کے فعل ِتشنیع میں آئی ایم ایف اور
ورلڈ بینک کا بڑی حد تک عمل دخل ہوگا۔ جس میں صدر زرداری کی حکومت میں عوام
پر بے شمار کئی نئے ٹیکسوں کی بھرمار کر دی جائے گی کہ پاکستان کی پہلے سے
مفلوک الحال عوام جب اگلے ہی روز سے مہنگائی کی عفریت سے دوچار ہوں گے تو
پھر ملک بھر میں سوائے حکومت مخالف تحاریک چلنے اور پُر تشدت عوامی مظاہروں
کی صورت میں موت کے رقص کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔
اُدھر آئی ایم ایف کے اشاروں پر عمل کرنے والی حکومتوں کے رویوں پر تبصرہ
کرتے ہوئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ
پاکستان میں سیاسی صورت حال ہمیشہ غیر یقینی رہی ہے اور اِسی وجہ سے
پاکستان میں مہنگائی غربت بڑھ گئی ہے(وہ (آئی ایم ایف )یہ کیوں نہیں کہتا
کہ پاکستان میں غیر یقینی صورت حال پیدا کرنے اور اپنے اُلٹے سیدھے مشوروں
سے پاکستان کے حکمرانوں کو بہکانے اور اِن سے اپنے مشوروں پر عمل کروا کر
پاکستان میں مہنگائی کرانے اور ملک میں غربت بڑھانے کا ذمہ دار میں خود
ہوں)اوراِسی طرح اقوام متحدہ نے بھی اِس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھوتے
ہوئے اپنا تجزیہ کچھ یوں پیش کیا ہے کہ پاکستان میں غربت اور مہنگائی کے
باعث عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے اور اَب تو آٹا بھی غریب عوام کی
دسترس سے باہر ہوگیا ہے اور لوگوں کو بنیادی اشیائے ضروریہ کا حصول بھی
مشکل تر ہوگیا ہے۔ اِس سارے منظر اور پس ِ منظر میں اَب ہمارے موجودہ
حکمرانوں کے پاس کیا جواب رہ جاتا ہے کہ وہ یہ قوم کو سچ سچ بتاسکیں کہ بجٹ
2010-2011آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا تیار کردہ ہے یا یہ سارا کا سارا
بجٹ میڈن صدر زرداری اینڈ کو کا ہے۔ |