اکاتما مانوواد بھارتیہ جنتا پارٹی کا عزم اول دن سے آج
تک قائم دائم رہا ہے۔ اسی مشن پر کام کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے
پچھلے برسوں اٹل بہاری واجپئی کی سرکار میں دنیا کے سامنے ایک پرعزم
باحوصلہ طاقت وار حکومت کا کام کرتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی۔ اسی طرح این ڈی
اے حکومت کی زیر قیادت دو سالوں سے چلنے والی حکومت نے دنیا کے سامنے اپنا
سر فخر سے اونچا کیا ہے۔ دنیا نے یہ ہندستان کو ایک بار پھر سے سونے کی
چڑیا ہونے کی بات کرنے لگی ہیں۔ ہندستان میں جہاں ایک طرف کثرت میں وحدت کی
مثال قائم ہو رہی ہے اسی طرح ہندستان کے پڑوسی ممالک نے بھی اچھے پڑوسی
ہندستان میں اچھی اور خیر خواہ حکومت ہونے کا دم بھر اہے۔ چاہے وہ پاکستان
ہو بنگلہ دیش، نیپال، برما، چائنا ، کوئی بھی ملک ہو ہر ایک نے اچھے پڑوسی
پانے کا خواب مکمل کیا ہے۔ اور ہندستانی وزیر اعظم نے بھی اپنے مضبوط اور
تقویت بخش فیصلے سے دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہندستان ایک اچھا پڑوسی
ہی نہیں بلکہ ہندستان کے عزائم کی مثال کہ پوری دنیا ایک کنبہ ہے اس بات کو
ثابت کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آج دنیا نے یہ تسلیم کیا ہے کہ
ہندستان ایک بار پھر سے دنیا کے سپر پاور بننے کی طرف گامزن ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکردی میں مسلم راشٹریہ منچ نے بھی قدم سے قدم اور
کندھے سے کندھا ملا کر کام کیا ہے۔ 2014کے الیکشن میں ملک گیر تحریک سے
مسلم راشٹریہ منچ نے ہندستانی مسلمانوں اور اقلیتوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی
کے ساتھ جوڑنے میں ایک بڑا سنگ میل طے کیا تھا۔ اسی طرح سے ملک میں آزادی
سے لے کر اب تک کانگریسی اور اس کی حواری پارٹیوں نے جس طرح سے بھرم وحشت
وہیبت کی جو تاریخ ہندو مسلم سکھ عیسائیوں کے درمیان کھائی کے طور پر قائم
کی تھی اس کو پاٹنے میں مدد ملی ہے۔
بی جے پی کے سبھاگرہ میں شروع ہوئی اجلاس میں وزیر مختار عباس نقوی اور
پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے علاوہ پارٹی کے دیگر عہدیدار موجود رہے.نریندر
مودی کے ملک کے وزیر اعظم بننے کے بعد بی جے پی اقلیتی مورچہ کی ریاست میں
یہ پہلی ملاقات تھی، جس میں بڑی تعداد میں شہر کے مسلمان کمیونٹی اور دیگر
نے موجودگی درج کی. اس تقریب میں موجود افراد سے خطاب کرتے ہوئے مہمان
خصوصی مختار عباس نقوی نے کہا کی پارٹی کا ایجنڈا صرف پردیش کے ہی نہیں
بلکہ ملک کے ہر اقلیتی کمیونٹی مسلم، سکھ اور عیسائی سبھی کو تحفظ کے ساتھ
ساتھ ملک میں مضبوطی وزیر کر ترقی کے سمت میں گامزن بنانا ہے.ورکنگ کمیٹی
کی میٹنگ میں نقوی نے بتایا کی بی جے پی پارٹی شروع سے ہی ہم وطنوں کو
کانگریس کی نام نہاد سیکولر منشا اور ان کے حامی سیاسی جماعتوں کے اقتدار
سے نجات دلانے کی رہ میں مصروف عمل رہا ہے.
نجمہ ہبت اﷲ :یہی نہیں نقوی نے نریندر بھائی مودی کی قیادت میں بی جے پی
اور اتحادی جماعتوں کی این ڈی اے حکومت میں منتخب کرنے کے لئے پردیش اور
ملک کے اقلیتوں کو دل سے مبارک باد دی گئی.ورکنگ کمیٹی کے دوران احاطے میں
اقلیتوں کو تقسیم مفت دوائیں -بی جے پی ورکنگ کمیٹی کی اس میٹنگ کے دوران
منتظمین کی طرف سے دین دیال احاطے میں ڈاکٹروں کے ساتھ نرسوں کی بھی نظام
راکھی گئی،جو بیمار اقلیتوں کی مفت چیک-نائب کر ادویات بھی تقسیم گئی. یہی
نہیں ورکنگ کمیٹی میں آنے والے اقلیتی کمیونٹی کے ہر شخص کا گلاب کا پھول
سلاخوں دے کر خاص احترام عہدیداروں کی طرف سے کیا گیا.
ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں نقوی نے بتایا کی بی جے پی پارٹی شروع سے ہی ہم
وطنوں کو کانگریس کی نام نہاد سیکولر منشا اور ان کے حامی سیاسی جماعتوں کے
اقتدار سے نجات دلانے کی رہ میں مصروف عمل رہا ہے.یہی نہیں نقوی نے نریندر
بھائی مودی کی قیادت میں بی جے پی اور اتحادی جماعتوں کی این ڈی اے حکومت
میں منتخب کرنے کے لئے پردیش اور ملک کے اقلیتوں کو دل سے مبارک باد دی
گئی.ورکنگ کمیٹی کے دوران احاطے میں اقلیتوں کو تقسیم مفت دوائیں -
بی جے پی ورکنگ کمیٹی کی اس میٹنگ کے دوران منتظمین کی طرف سے دین دیال
احاطے میں ڈاکٹروں کے ساتھ نرسوں کی بھی نظام راکھی گئی،جو بیمار اقلیتوں
کی مفت چیک-نائب کر ادویات بھی تقسیم گئی. یہی نہیں ورکنگ کمیٹی میں آنے
والے اقلیتی کمیونٹی کے ہر شخص کا گلاب کا پھول سلاخوں دے کر خاص احترام
عہدیداروں کی طرف سے کیا گیا.
ریلوے وزیر مسٹر سریش پربھو اور پنجاب کے نائب وزیر اعلی سکبھیر سنگھ بادل
کی طرف سے سکھ عقیدہ کے دو عظیم تختو تخت مسٹر صاحب اور جناب قحط تخت صاحب
جناب امرتسر صاحب کو شامل والی ایکسپریس ریل گاڑی کو جھنڈی دے کر روانہ
کیا. آج شروع کی گئی ریل گاڑی میں ایئر کنڈیشنر، چیئر کار، جنرل کلاس، اسی
طرح والا ڈبہ ہوگا اور ریل گاڑی کیکرالی، سمارالا، لدھیانہ اور جالندھر میں
پڑاؤ کوگینگل-جناب اندپر صاحب سے مسٹر امرتسر صاحب کے لئے شروع کی گئی یہ
ریل گاڑی بیساھی سے ہر روز آنے جانے کے لئے یہاں سے چلے گی جو کہ سمرالا،
لدھیانہ اور جالندھر ہوتی ہوئی امرتسر صاحب پہنچا کرے گی.
آج مسٹر اندپر صاحب کے ریلوے اسٹیشن پر ایک خاص پروگرام کے دوران مرکزی
ریلوے وزیر نے کہا کہ خالصہ پنت کی پیدائش زمین سے دو تختو کو شامل والی
گاڑی کو روانہ کرنا ہمارے لئے مکمل فخر والی بات ہے. انہوں نے کہا کہ اس کے
ساتھ نہ صرف یاتریوں کو سہولت ملے گی بلکہ تاجروں کو بھی بڑی سہولت ملے گی.
پنجاب حکومت کی مانگ پر انہوں نے روپڑ، ریلوے کی طرف سے شروع کی گئی صفائی
مہم میں مذہبی تو کو تعاون کے لئے اپیل کرتے ریلوے وزیر نے تخت سریکڑھ صاحب
کے جتتھیدار گیانی ملل سنگھ سے اپیل کی کہ وی بھی اس کام میں اپنی اہم
کردار کو ادا کریں.
او ما بھارتی : ایک سلیس ومہذب لیڈر کے ساتھ ساتھ مذہبی اور عقیدتمند خاتون
بھی ہیں، ملک سے لگاؤ اور محبت اس قدر ہے کہ مذہبی روایت میں اچھی جانکاری
اور پہنچ ہونے کے باوجود سیاست میں اس لئے قدم رکھا تاکہ ملک سے بد امنی
اور بے چینی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ آج ایک نیشنل ٹی وی چینل کو انٹر ویو
دیتے ہوئے اوما بھارت نے کہا کہ مسلمانوں کا تحفظ اور ان کی عزت وناموس این
ڈی اے حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے، دیگر سیاسی جماعتوں نے بھرپور
کو کشش کی ہے کہ مسلمان اور ہندو کے ساتھ ساتھ عیسائی سکھ اور ہندؤں کو آپس
میں لڑا دیا جائے لیکن آج ملک کا ہر فرد گھناؤنی سیاست کے چہرے کو سمجھتے
ہوئے یہ جانتا ہے کہ ملک کا مقدر اگر کسی کے ہاتھ میں ہے تو وہ این ڈی اے
ہے، سوال مسلمانوں کو ذات کے مطابق ریزرویشن دینے کی بات پر اوما بھارتی جی
نے کہا کہ اگر آر ایس ایس لیڈران نے رزرویشن کی بات کی ہے تو وہ بہتر جانتے
ہونگے، آر ایس ایس ایسے لکھے پڑھے افراد پر مشتمل جماعت کا نام ہے جنہوں نے
اپنی زندگیوں اور زندگی کی تمام آسائش کو ترک کرکے ملک کی خدمت کر رہے ہیں،
اگر میں ان کی باتوں کے خلاف کچھ کہوں تو یہ کم عقلی ہوگی جو کچھ آر ایس
ایس کے افراد نے کہا ہے انہوں نے بہتر نتائج اور معاملات کو سامنے رکھ کر
کہا ہوگا۔
لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان کی پیدائش 5 جولائی 1946 کے دن
بہار کے کگریا ضلع میں ایک دلت خاندان میں ہوا تھا. پاسوان نے بندیل کھنڈ
یونیورسٹی جھانسی سے ایم اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا ہے.1969
میں پہلی بار پاسوان بہار کے راجیہ سبھا انتخابات میں اقوام سوشلسٹ پارٹی
کے امیدوار کے طور منتخب ہوئے. 1977 میں چھٹی لوک سبھا میں پاسوان جنتا
پارٹی کے امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے. 1982 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات
پاسوان دوسری بار فاتح رہے.1983 میں انہوں نے دلتوں کے عروج کے لئے دلت فوج
تشکیل دی ہے. اور 1989 میں نویں لوک سبھا میں تیسری بار لوک سبھا میں منتخب
ہوئے. 1996 میں دسویں لوک سبھا میں وہ منتخب ہوئے. 2000 میں پاسوان نے جنتا
دل یونائیٹڈ سے الگ ہوکر لوک جن شکتی پارٹی کا قیام کیا.بارہویں، تیرہوی
اور چودھویں لوک سبھا میں بھی وہ کامیاب رہے. اگست 2010 میں بہار راجیہ
سبھا کے رکن منتخب ہوئے اور کارمک اور پنشن کیس اور دیہی ترقی کمیٹی کے رکن
بنائے گئے.
ہر سمرت کور بادل :امرتسر: سچ سیکشن مسٹرکرمدر صاحب کو آلودگی سے بچانے کے
لئے ایک خاص کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مسٹر کرمدر صاحب کے آس پاس کی
عمارتوں اور مسٹرکرمدر صاحب کے احاطے میں بنے برآمدے میں خصوصی پودے لگانے
کا کام کیا جا رہا ہے .
جس کے چلتے کرمدر صاحب کو آلودگی سے بچایا جا سکے، وہیں آج امرتسر میں اس
کار سروس انعقاد کے چلتے پنجاب کے نائب وزیر اعلی سردار سکھبیر سنگھ بادل
اور پنجاب میں ننھی چھاو کی میم چلا رہی سنگھ بادل کی بیوی ہرسمرت کور بادل
موجود ہوئی اور انہوں نے یہاں پر پودے لگائے.
اس موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ہرسمرت کور بدل کا کہنا ہے کہ گربانی
میں گرو صاحب نے زمین کو ماں کی ڈگری دی گئی ہے، ساتھ ہی آج اس زمین ماں کی
پیٹ کے اندر ایک پودا لگایا گیا ہے اور آج ہر کسی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس
کوشش کو کرے۔
وہیں اس موقع پر اس کی کار کی خدمت کر رہے بابا امرکتسنگھ کا کہنا ہے کہ
یہاں پر گرو رام داس جی کی روشنی تہوار پر یہ مہم چلائی گئی ہے جس ایک چلتے
آج یہاں پر 11000 پودے لگائے گئے اور 5000 پودے پہلے بی لگائے گئے تھے اور
اس کوشش کو ابھرمدر صاحب سے لے کر پوری گرو نگری میں کیا جائے گا تاکہ شہر
کو ہرا بھرا رکھا جا سکے.
اسمرتی ذوبین ایرانی پیدا 23 مارچ 1976 کو دہلی میں ہوا اور انہوں نے قومی
دارالحکومت میں ہی تعلیم حاصل کی. وہ کاسمیٹکس کی تشہیر سے لے کر مس انڈیا
مقابلہ کی شریک بھی بنیں. ماڈلنگ میں داخل کرنے سے پہلے، وہ میکڈونلڈ میں
ویٹریس اور کلینر کے عہدے پر کام کر چکی ہیں.بعد میں وہ ممبئی چلی آئیں
جہاں انہوں نے ٹیلی ویژن سیریل 'کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی' میں 'تلسی'
کا مرکزی کردار نبھایا اور مشہور ہوئیں.
انہوں نے 10 ویں کے امتحان پاس کرنے کے بعد ہی روزی کمانا شروع کر دیا تھا
اور کاسمیٹکس کی تشہیر کرنے لگی تھی. روڑھیوادی پنجابی-بنگالی خاندان کی
تین بیٹیوں میں سے ایک اسمرتی نے ساری بندشیں توڑ کر گلیمر کی دنیا میں قدم
رکھا. انہوں نے 1998 میں مس انڈیا مقابلے میں حصہ لیا، لیکن فائنل تک مقام
نہیں بنا پائیں. اس کے بعد انہوں نے ممبئی جاکر اداکاری کے ذریعے اپنی قسمت
بنائی.
نئی دہلی: گذشتہ سال یہی وہ مہینہ تھا جب بی جے پی ہر دوسری بات میں ڈاکٹر
ہرشوردھن کا نام لیا کرتی تھیں. ان کی ایمانداری، پلس پولیو میں ان کی
شراکت وغیرہ ان کی ہر خوبی نے بی جے پی کو جیسے سنجیونی دے دی تھی. اس سے
پہلے بی جے پی کے صدر کے طور پر وجے گوئل کا چاروں طرف پوسٹر لگ گیا تھا.
یہ پیغام جا رہا تھا کہ وجے گوئل ہی وزیر اعلی کے دعویدار یا امیدوار ہیں.
عام آدمی پارٹی نے جب وجے گوئل کو نشانہ بنانا شروع کیا تو بی جے پی نے
ڈاکٹرہرشوردھن کا نام کا اعلان کر دیا تھا.
ہفتے بھر کے اندر اندر بی جے پی کے سارے پوسٹر بدل دیے گئے. وجے گوئل کی
جگہ ڈاکٹر ہرشوردھن کا چہرہ مسکرا رہا تھا. بی جے پی کو اروند کیجریوال کے
ایماندار برانڈ کے سامنے ڈاکٹرہرشوردھن کا ایماندار برانڈ مل گیا تھا. ایک
سال بعد نومبر کا مہینہ تو ہے مگر ڈاکٹر ہرشوردھن کا کوئی نام نہیں لے رہا
ہے.
بدھ کو پنڈت پنت راستے پر بی جے پی کے ریاستی صدر ستیش اپادھیائے سے بار
بار پوچھا کہ اجتماعی قیادت کا کیا مطلب ہے جب آپ کے پاس ایک سے ایک رہنما
ہیں. وہ بار بار کہتے رہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے اور انتخابات کے بعد ہی لیڈر
کیا جائے گا. ہم نریندر مودی کے نام پر انتخابات لڑیں گے. میں ڈاکٹر
ہرشوردھن کے بارے میں پوچھتا رہا. پوچھا تو جگدیش مکھی اور وجے گوئل کے
بارے میں بھی لیکن ایک بار بھی ستیش اپادھیائے نے نہیں کہا کہ ہمارے پاس
رہنماؤں کی کوئی کمی نہیں ہے.
ڈاکٹر ہرشوردھن بھی قابل امیدوار ہیں. ستیش اپادھیائے نے یہ بھی دعوے سے
نہیں کہا کہ کوئی بیرونی بی جے پی کی جیت کا مزہ نہیں لے گا. میرا اشارہ
کرن بیدی کی طرف تھا. صوبائی صدر کی حیثیت سے وہ سرے سے مسترد کر ہی سکتے
تھے مگر وہ یہی کہہ کر ٹالتے رہے کہ جو ہوا نہیں ہے اس کا جواب کیسے دیں.
لیکن کیا ڈاکٹر ہرشوردھن بی جے پی کے لئے مفید نہیں رہے. کیا ان دہلی کی
سیاست میں اب واپسی نہیں ہوگی. سوال تو ہیں مگر جواب میرے پاس نہیں ہیں.
ڈاکٹر ہرشوردھن کو جب مرکزی وزیر صحت بنایا گیا تھا تب ایسی بحث سامنے آئی
تھی کہ وہ خوش نہیں ہیں. وہ دہلی کی سیاست میں لوٹنا چاہتے ہیں. جب دہلی
میں حکومت بنانے کو لے کر کئی طرح کے سوال ہو رہے تھے تو ڈاکٹرہرشوردھن نے
حیرت انگیز طور پر خاموشی اختیار کر لی. میڈیا نے پوچھا بھی لیکن کوئی جواب
نہیں دیا. ایسا لگا کہ یا تو انہیں خاموش رہنے کے لئے کہہ دیا ہے یا ڈاکٹر
ہرشوردھن نے سمجھ لیا ہے کہ اب وہ قیادت کی پسند نہیں رہے.ایک اندازے یہ
بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی اب انتخابات صرف مودی کے نام پر بھی لڑے
گی. ہریانہ اور مہاراشٹر کی بات سمجھ میں آتی ہے جہاں ان کے پاس کوئی ایسا
لیڈر نہیں تھا جو پورے راجی بھر میں بنیاد رکھتا ہے، لیکن ڈاکٹر ہرشوردھن
کے ساتھ تو یہ بات نہیں ہے. بی جے پی کو اکثریت نہیں ملا لیکن ڈاکٹر
ہرشوردھن کی وجہ سے ہی بی جے پی کو 32 سیٹیں ملی تھیں.
ہو سکتا ہے کہ بی جے پی نے اسے شکست کے طور پر دیکھ رہی ہے اس لئے ڈاکٹر
ہرشوردھن پر داؤ نہیں لگانا چاہتی لیکن تب پھر بی جے پی مہاراشٹر کی جیت کو
کس طرح جیت کہے گی. ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر ڈاکٹر ہرشوردھن کا نام آ جائے
کیونکہ ابھی تو انتخابی دور کی شروعات ہوئی ہے مگر ستیش اپادھیائے نے اپنی
اس لائن کو بار بار دہرائی کہ اجتماعی قیادت میں انتخابات ہو گا اور وزیر
اعلی انتخابات کے بعد طے ہوگا. اب بی جے پی میں مودی کی پسند کا ایک نیا
نام ہو گیا ہے. اجتماعی قیادت.
بی جے پی کے صدر ستیش اپادھیائے کیا کسی کی لائن پر چل رہے ہیں. آخر انہوں
نے ڈاکٹر ہرشوردھن کی موجودگی یا افادیت کو کیوں نہیں قبول، یا اس طرح سے
بار بار جیسے بی جے پی ٹھیک ایک سال پہلے ان کا نام لے کر جاپ رہی تھی. کیا
بی جے پی نے طے کر لیا ہے کہ نریندر مودی جس پر ہاتھ رکھ دیں گے وہی وزیر
اعلی ہوگا یا آر ایس ایس جسے کہے گا وہی اب وزیر اعلی ہو گا.
ہریانہ، مہاراشٹر کے بعد گوا میں وزیر اعلی کے انتخاب میں آر ایس ایس کی
پسند کی بات ہو رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ یونین ریاستوں کی قیادت اپنے
کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے. پروموشنل ہی وزیر اعلی ہوں گے. ایسے کیجائزوں
کا کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں ہوتا مگر ہوا کے رخ کو دیکھ کر ایسا ہی انداز مل
رہا ہے. دہلی کا چناؤ دلچسپ ہونے جا رہا ہے. ڈاکٹر صاحب اپنا اعلی لیے اسی
نئی دہلی میں واقع وزارت صحت میں بے چین گھومتے نظر آئیں گے اور اس آواز کو
مس کریں گے جب پوری بی جے پی اور مودی ان کا نام ہر اجتماع میں لیا کرتے
تھے. ڈاکٹر ڈاکٹر. کیا ڈاکٹر ہرشوردھن اپنی خاموشی توڑدے گا کہ دہلی میں
اپنا کردار کو لے کر وہ کیا سوچتے ہیں. کیا وہ پہلے کی طرح یقین ہیں. کیا
وہ دہلی بی جے پی کی قیادت کرنا چاہتے ہیں. ان سب سوالات کے ڈاکٹر کو حاضر
ہونا پڑے گا. |