کفار سے تجارت ،لین دین اور سفارتی تعلقات ممنوع
ہیں نہ معصیت ،البتہ ان میں امتیاز ایک ناگزیر ضرورت ہے شاید اسی لئے قرآن
نے ہزاروں اور لاکھوں کفار میں ’’ابو لہب‘‘کو ایسی زجر سے مخاطب کیا کہ
تصور سے ہی روح کانپنے لگتی ہے ۔ذرا سا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ غضب
ابولہب پر اس کے’’کفریہ عقیدے‘‘کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف ایک ’’منحوس
عمل‘‘کی وجہ سے ٹوٹا پڑا ۔گویا اعمال اور حال ہی کی بنیاد پر قرآن نے کبھی
کسی کو غضب کا نشانہ بنایاہے ۔حیرت کی بات یہ کہ بعض کفار کے اعمال کی قرآن
تعریف کرتا ہے سورۃ المائدۃ آیت نمبر :83میں اﷲ تعالیٰ نجاشی کے دربار میں
حضرت جعفر طیار ؓ کی قرآن پاک میں سورۃ مریم کی تلاوت سے متاثر ہو کر
بادشاہ اور اس کے درباریوں کے رونے اور آنسوں بہانے ،حق پہچاننے اور ایمان
لانے کو انتہائی پر اثر انداز میں پیش کرتا ہے ۔گویا قرآن کی تعلیم یہ ہے
ظالم سے نہ صرف یہ کہ برأت ظاہر کی جائے بلکہ اس کو کسی بھی طور قابل توجہ
نہ سمجھا جائے جیسا کہ ایک حدیث میں نبی کریم ﷺنے واضح الفاظ میں فرمایا ہے
کہ ’’جس نے ظالم کو جان بوجھ کر تعاون فراہم کیا وہ (گویا)اسلام سے خارج
ہوگیا(طبرانی)اس حدیث میں ظلم سے کمال ایمان پر مرتب ہونے والے منفی اثر کا
کھلا اظہار ہے اس لئے کہ ایک اور حدیث میں ظلم سے بچنے کی تاکید کرتے ہو ئے
فرمایا کہ ’’ظلم آخرت کی تاریکی ہے‘‘۔
دنیا کی کل آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے جو ساڑھے
پانچ ارب انسانوں سے تعلقات منقطع کرتے ہو ئے ’’سفرِ حیات‘‘طے نہیں کر سکتے
ہیں۔ پھر ان ڈیڑھ ارب انسانوں کا مقصدزندگی ہی ساڑھے پانچ ارب انسانوں تک
اﷲ کا پیغام پہنچانا ہے ۔اس کے علاوہ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ آج کل ہر
غیر مسلم ملک میں لاکھوں اور کروڑوں مسلمان رہتے ہیں جیسے کہ خود ہندوستان
میں پچیس کروڑ مسلمان ۔اﷲ تعالیٰ نے اس روئے زمین کو حق و باطل کی کشمکش کا
میدان بنایا ہے جہاں ہر کفر کے ساتھ ساتھ اسلام کے پیرو کار بھی محو جدوجہد
رہیں گے ۔یہ بہت بڑی حماقت ہو گی اگر کوئی شخص کسی بھی غیر مسلم ملک سے
تجارت کرنے پر اعتراض کرے گاالبتہ دیکھنا یہ ہو گا کہ ’’ مراسم و تجارت‘‘سے
فوائد کے برعکس ’’دین و ملت‘‘کو کوئی نقصان تونہیں پہنچ رہا ہو ؟نریندر
مودی سے قبل بھی ہندوستان میں حکمران غیر مسلم ہی رہے البتہ تمام تر سیاہ
کارناموں کے باوجود ان کا ماضی اس قدر دہشت انگیز نہیں تھا جیسا کہ اس شخص
کا ہے جو ’’سنگھ پریوار‘‘کے ایک وفادار چالک کے طور پر اب تک اپنی ذمہ
داریاں نبھاتے آرہے ہیں ۔
نریندر مودی کی اُس ’’سنگھ پریوار‘‘کے متحرک سپاہی ہے جس کا ہاتھ ہندوستان
کے مسلمانوں رنگے ہو ئے ہیں اور ان کے چہروں پر ہزاروں مسلمان ماؤں بہنوں
کی تار تار عصمتوں کی کالک لگی ہو ئی ہے ۔اس پریوار کا مشن بھارت بھر کے
مسلمانوں کو’’گھرواپسی‘‘ پروگرام کے تحت بالجبر ہندودھرم میں ضم کرنا ہے ۔سرکاری
اعدادو شمار کے مطابق اس پریوار نے بھارت میں چالیس ہزار سے بھی زیادہ مسلم
کش فسادات برپا کرتے ہو ئے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے ۔بابری مسجد
کی شہادت اور گجرات فسادات ان وحشیانہ حملوں کی صرف دو جھلکیاں ہیں ۔بہت
محنت کے بعد اسی پریوار نے بھارت کو ’’ہندؤ راشٹر‘‘میں تبدیل کرنے کے لئے
اس مشن کی ذمہ داری ’’بھگوا برگیڈ ‘‘کے کامیاب تجربہ کار سپاہی نریندرمودی
کے کاندھوں پر ڈال رکھی ہے ۔خاموشی کے ساتھ مشن کو تکمیل تک پہنچانے والے
اس فرد کی ٹیم نے نہ صرف پاکستان کو خون میں نہلانے کے بعدکچھ عرصہ سے
افغان طالبان سے براہ راست جنگ کا بھی آغاز کردیا ہے ۔اتنا ہی نہیں بنگلہ
دیش جماعت اسلامی کو راستے کا روڑا سمجھ کر اس کی قیادت کو انسانیت سوز
سزائیں دلا کر خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا جا چکا ہے تاکہ کوئی بھارتی
سامراج کے خلاف منہ نہ کھول سکے ۔برما میں مسلم اقلیت کے قتلِ عام کے
بنیادی خفیہ اسباب میں بھارت کے ’’محفوظ اقدامی توسیع پسندانہ عزائم ‘‘اب
کوئی راز باقی نہیں رہا ہے ۔اپنے ہم مذہب چھوٹے سے ہمسایہ ملک نیپال کا
آزادی کے ساتھ جینے کی خواہش کو پاؤں تلے روندنے والا بھارت دوسروں کے لئے
کتنا خیر خواہ ہوگا قابل غور مسئلہ ہے ۔ اسی ہر اول ’’جنونی دستے‘‘کی کمانڈ
آج کل حکومتی سطح پر نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے جن کی وزارت اعلیٰ کے دور
میں گجرات کا قتلِ عام اب تک کا بھارت کا سب سے بڑا قتل عام تصور کیا جاتا
ہے ۔نریندر مودی نے نہ کبھی اس قتل عام پر شرمندگی کا اظہار کیا نہ ہی کبھی
مسلمانان ہند سے اپنی خطا اور عمداََ غفلت برتنے پر معافی مانگی بلکہ اپنی
وزارت عظمیٰ کے دور میں ’’عدم برداشت‘‘کی فضا ان کے پیروکاروں نے مسموم کر
دی ہے ۔تازہ صورتحال یہ ہے کہ ہزاروں طریقوں سے مسلمانانِ ہند کو تنگ کرنے
کے بعد اب ’’بھارت ماتا کی جیے‘‘کے شرکیہ نعرے کو بلند کر نے کے لئے جگہ
جگہ تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔
اسی نریندر مودی کو پہلے متحدہ عرب امارات اور اب سعودی عربیہ نے جس طرح
حوصلہ افزائی کی وہ انتہائی شرمناک بات ہے ۔متحدہ عرب امارات کا اسلام
پسندوں کے ساتھ عدم برداشت کا رویہ بہت مشہور تو ہے ہی پر’’ سعودی عربیہ
‘‘جہاں اسلام کا مبارک سورج طلوع ہوا ہے کے حکمرانوں کو ان باتوں کا پاس و
لحاظ کرنا چاہیے ۔ساتھ ہی ہم یہ بھی عرض کریں کہ ہندوستان سے تجارتی روابط
اور تعلقات سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے پر اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازنا
بہت بڑی حماقت تھی ۔سعودی عربیہ کو اپنے مقام اورمرتبے کا لحاظ کرتے ہو ئے
یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ اس کی حیثیت مصر ،پاکستان اور عراق جیسی نہیں ہے ۔یہ
مقامِ ولادت احمدیﷺ ہے ،یہ مقام نزول قرآن ہے ،یہاں کعبہ ہے ،یہاں مدینہ ہے
،یہاں نبی کریم ﷺ کی آخری آرام گاہ ہے ،یہاں لاکھوں صحابہؓ اور تابعینؒ دفن
ہیں ،یہاں بدر ،اُحد اور احزاب ہے گویا یہاں دین ہے اور نبی کریم ﷺ کی پیشن
گوئی کے عین مطابق اس کو سمٹ سمٹ کر مدینے میں ہی واپس آنا ہے لہذامسلمانوں
کا یہ اعتمادقائم رکھنے کے لئے باتیں اور دعوے نہیں بلکہ یک سو ہو کر عمل
سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے ۔
اس سب میں قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ نریندر مودی کو مغربی ممالک کے دوروں
میں جس بے توجہی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اپنی ذات میں مقامِ عبرت
ہے ۔برطانیہ میں تاریخی احتجاج اور برطانوی وزیر اعظم کی موجودگی میں
شرمناک سوالات اور آسٹریلیا میں وزیر اعظم کی عدم توجہی اور ملاقات سے
انکار نے ’’سنگھ پریوار‘‘کو ایک مؤثر پیغام دیدیاتھا کہ مغرب میں اب بھی
انسانیت کی رمق باقی ہے ۔یہ رویہ مغرب کے برعکس مسلم ممالک کو اپنانا چاہیے
تھامگر ہائے افسوس یہ ’’خادم الحرمین الشریفین ‘‘بھی اپنا نے سے قاصر رہے
آخر کیوں ؟ہمیں تجارت اور تعلقات سے اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں سعودی
عربیہ کے اندرونی مسائل سے کوئی دلچسپی ہے پرمصر میں اخوان المسلمون کی
حکومت کے خاتمے کے لئے بے تحاشہ دولت خرچ کرنے والے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘کی
نگاہِ کرم کی زد میں ساری عرب دنیا میں اخوان کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت
کی ترجمان حماس تک آئی اور کسی شرم و حیا کے بغیر انھوں نے سیکولراور لبرل
قوتوں کے ساتھ کندھوں سے کندھا ملا کر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم
قرار دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم ممالک
بالعموم اور سعودی عربیہ بالخصوص جب محمد مرسی کے برعکس قاتل سیسی اور سنگ
دل نریندر مودی کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو پھراسلام کے قیام اور غلبے کا تصور
کا خواب کس قدر مسخ ہو جاتا ہے ۔ہم نے کبھی بھی یہ سوال منموہن سنگھ پر
نہیں اٹھایا اس لئے کہ معاملہ ہندوستان یا غیر مسلم کا نہیں بلکہ اس سنگھ
پریوار کا ہے جس کے ہاتھوں میں برصغیر کا چپہ چپہ خون مسلم سے رنگین ہے اور
جس کے توسیع پسندانہ عزائم نے اکھنڈ بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کا آغاز
اندرون ملک ’’گھر واپسی‘‘کے پروگرام سے شروع کر رکھاہے اور بیرون ملک اس کی
پالیسی ’’اسلام پسندوں‘‘کے خاتمے میں معاون ثابت ہو رہی ہے ۔ |