قوم سے خطاب کب ہو گا

یہ وزیراعظم کے میڈیا منیجرز کی حکمت عملی تھی ۔ وہ چاہتے تھے کہ میاں نواز شریف فوری طورقوم سے خطاب کریں۔ ایک رائے یہ تھی کہ پر ہجوم پریس کانفرس کی جائے۔ سینیٹر پرویز رشید کی پریس کانفرنس کا بھی امکان تھا۔میاں شہباز شریف کی رائے بھی شامل تھی۔ مگر وزیر اعظم کو پی ٹی وی کا ہی انتخاب کرنا پڑا۔ اس کے لئے عرفان صدیقی، عطا ء الحق قاسمی، پرویز رشید کے درمیان مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی۔ کیوں کہ یہ سمجھا گیا کہ ہر کوئی نمبر بنانے کے چکر میں رہتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھا کر اپنا سر اٹھانا چاہتا ہے۔ یہی نہیں ہمارے اکثر لوگ دوسرے کا کریڈٹ بھی خود لینے کی کوشش اور سازش کرتے ہیں۔ اپنی غلطی دوسروں کے سر ڈالتے ہیں۔ دوسروں کے کام یا کارکردگی اپنے سر لیتے ہیں یا یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ سب ان کی ہی کاوش کا نتیجہ ہے ، ورنہ وہ تو نکما اور نا اہل تھا۔ میں نے کہا تو اس نے فلاں کام کیا۔ کہنے کے بغیر وہ تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔اس کے باوجود قاسمی صاحب چھا گئے۔ ان کی آراء سب پر مقدم ٹھہری۔
مقامی محاورے میں چاپلوس اور چمچوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہی خوشامد کی قسمیں ہیں۔ کچھ لوگ اس کے بھوکے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں ان کے ماتحت ان کے پاس حاضری دیں۔ ان کی جی بھر کر تعریف کریں۔ ان کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں۔ان کے کالے کو سفید بنائیں۔ اسی وجہ سے وہ خود پسند بن جاتے ہیں۔ انا ان میں رچ بس جاتی ہے۔

پی ٹی وی پاکستان میں حکمرانوں کے خطابات سے کافی شہرت یافتہ ہے۔ تا ہم اس پر سب سے زیادہ ’’میرے ہم وطنو‘‘ سے شروع ہونے والا خطاب سب کی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ کیوں اس کے لئے سب کی کوششیں رنگ لاتی ہیں۔ جس حکومت کا تختہ الت دیا جاتا ہے وہ بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے پر بضد رہتی ہے۔ اپوزیشن تو ہر وقت طاق میں رہتی ہے۔ وہ اس کے لئے کالے اور سفید ، لال بکرے زبح کرتی رہتی ہے۔ یہ کالے اور بنگالی جادو کے نسخے بھی آزماتی ہے۔ جو بہت کم کارگر ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے ڈاکٹروں کے نسخوں کی طرح۔ جو مریضوں پر دوائیوں کے نئے تجربات کرتے ہیں۔ پہلے ایک دوائی، اگر افاقہ نہ ہوا، اور یقینی طور پر ہوتا بھی نہیں ۔ تو دوائی بدل دی۔ پہلے ایک ، پھر دوسری۔ تیسری ، س قسمیں آزمائی جاتی ہیں۔ کبھی تکا لگ جاتا ہے۔ تیر نشانہ پکڑ لیتا ہے۔ مگر واہ واہ ڈاکٹر صاحب کی ہوتی ہے۔ ہماری ڈگریاں سڑکوں پر بکیں گی، ان کی بولیاں لگیں گی تو یہی ہو گا۔ پیسے دو، ڈگری لو۔ یہ کمرشلزم کا دور ہے۔

پی ٹی وی پر لا تعداد لوگوں کے کانوں میں ابھی تک پرویز مشرف کے ’’میر ہم وطنو‘‘کا خطاب گونج رہا ہو گا۔ جنھیں بھی زوال آیا۔ یہاں ہر شے زوال پذیر ہے۔ جس نے آنا ہے، اس نے جانا بھی ہے۔ مگر آنے والے واپس جانے کا نام نہیں لیتے۔ پھر بے عزت ہو کر یا رسوا بن کر واپس لوٹتے ہیں۔

پانا مالیکس کا بھی چرچا ہے۔ ابھی مزید دستاویزات افشاء ہوں گی۔ ان میں پاکستان کے مزید نام ہوں گے۔ کہتے ہیں لوگ اپنے نام حذف کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ باہر کے دورے کر رہے ہیں۔ کھ لو کچھ دو کا نسخہ بھی آزما رہے ہیں۔ مٹی پاؤ والے بھی شاید نہ بچ سکیں۔

پاناما لیکس کے انکشافات پر وزیراعظم کے فوری ردعم نے انہیں کافی مشکوک بنا دیا۔ پھر پی ٹی وی پر قوم سے خطاب نے بھی ان کی مقبولیت کو متاثر کیا ۔ لیکن مشاورت دینے والے یا باور کرا رہے ہیں کہ وزیراعظم کا قوم کے نام خطاب ضروری تھا۔ کیوں کہ قوم کو اسی خطاب کا انتظار تھا۔ وہ پی ٹی وی آن کر کے بیٹھے تھے۔ گھروں میں دیگیں پک رہی تھیں ۔ ضیافتیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ دوتیں اڑائی جا رہی تھیں۔ سب منٹظر تھے کہ قوم کے نام خطاب آنے والا ہے۔ یہی تاثر دیا گیا تھا۔ مگر یہ سچ کوئی نہیں سنتا کہ اس خطاب نے میاں برادران پر الزامات کی تصدیق کرا دی۔ یہی نہیں اسمبلی میں بھی ایسا ہوا۔ پہلی بار پی ٹی وی کی کوریج نہ ہوئی۔

وزیر اعظم کے خطاب ن عمران خان کو بھی اس جانب متوجہ کیا۔ ان کا بھی دل مچلا۔ پی ٹی وی پر قوم سے خطاب کی امنگ بھی دلچسپ ہے۔ عمران خان اگر کوئی جرنیل ہوتے تو کب خطاب کر چکے ہوتے۔ آج انہیں سب زیادہ دکھ یہی ہے کہ انہوں نے بچپن میں ہی فوج میں کمیشن کیوں نہ لیا۔ یہ دکھ انہیں کہتے ہیں کھائے جا رہا ہے۔ پی ٹی وی پر ان کے قوم کے نام خطاب کے حامی بھی ہیں اور مخالفین بھی۔ حکمران جماعت والے سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کے بعد قوم کے نا خطاب پر سب سے پہلا حق ان کا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ان سے ان کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ہر گز اس خواہش کو پورا ہونے نہیں دینا چاہتے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔

معلوم نہیں عمران خان کی یہ خواہش کب پوری ہو گی۔ خورشید شاہ اور بلاول زرداری کا اختلاف رائے بھی سامنے آ گیا ہے۔ کہا جائے گا یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ خورشید شاہ جانتے ہیں کہ ان کے جیتی جی شاید انہیں قوم سے خطاب کا موقع نہ ملے ۔ اگر عمران خان کو مل جاتا ہے تو ان کا کیا نقصان ہو گا۔ ان کا کیا جاتا ہے۔ مگر بلاول زرداری مطمئن ہیں کہ وہ کبھی قوم سے خطاب کا اعزاز حاصل کریں گے۔وہ نہیں چاہتے ان سے پہلے عمران خان کو یہ اعزاز نصیب ہو۔ اس لئے انھوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی ہے۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ عمران خان قوم سے خطاب اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی وزیراعظم یا صدر نہیں بنے۔ وہ مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ ’’جب عمران خان وزیر اعظم بنے گا‘‘ کا جملہ سب نے مارچوں اور دھرنوں کے دوران قوم سے خطاب میں کئی بار سنا ہو گا۔ مگر ان کی تازہ خواہش کے ذمہدار خود میاں صاحب ہیں۔ جنھوں نے اپنے پسران کو بچانے کے لئے قوم سے خطاب کیا۔ جو کوئی اس طرف متوجہ نہ بھی تھا۔ اسے بھی اس طرف لگا دیا۔ جیسے کہ آ بیل مجھے مار۔

عمران خان نے پی ٹی وی کو ایک خط لکھ کر قوم سے خطاب کے لئے 10اپریل بروز اتوار یعنی آج شام کی تاریخ بھی مقرر کر دی ہے۔ 2014میں عمران خان کے دھرنے اور سٹیج شو کے دوران دھرنے پر بیٹھے لوگوں نے پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا۔ انھوں نے پارلیمنٹ ہاؤس پر بھی حملہ کیا تھا۔ پولیس سٹیشن میں عمران خان ان حملوں میں نامزد ملزم ہیں۔ وہ پولیس کو مطلوب ہیں۔ پتہ نہیں اگر قوم سے خطاب کی ان کی خواہش پوری ہو گئی تو پولیس کو پی ٹی وی پر حملے کا کیس بھی یاد آ جائے۔اس سارے معاملے میں نواز شریف بے قصور ہیں۔ کیوں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ صدر اور وزیراعظم جرائم اور غلطیوں سے پاک تصور کئے جاتے ہیں ۔ اسی لئے انہیں استثنیٰ حاصل رہتا ہے۔ اصلی قصوروار کوئی اور ہیں۔ جنھوں نے وزیر اعظم کو قوم سے خطاب کے بہکاوے میں لا کر انہیں پھنسا اور عمران خان کو بھڑکا دیا۔ عمران خان کا جواز درست ہے۔ پی ٹی وی سرکاری ادارہ ہے۔ جو عوام کے ٹیکسوں سے چلتا ہے۔ اسے کوئی زاتی استعمال میں نہیں لا سکتا۔ عمران خان اپنی زات کے لئے نہیں بلکہ قوم کے لئے قوم سے خطاب کرنا چاہتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ ان پر بھی کینسر ہسپتال کے فنڈز بیرون ممالک منتقل کرنے اور آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا الزام ہے۔ اس لئے وہ بھی قوم کے مفاد میں خود پر لگے الزامات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔سچی بات ہے میں بھی قوم سے خطاب کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ میں بھی ٹیکس دیتا ہوں۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485228 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More