بعد از مرگ وا ویلا کیوں؟

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں 22اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔سابق صدر کی بیرون ملک روانگی کے بعد ان کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے بھی وفاقی حکومت سے تحریری وضاحت طلب کی تھی کہ عدلیہ سے پوچھے بغیر ملزم کو بیرون ملک کیوں جانے دیا گیا؟انسداد دہشت گردی کی عدالت اس مقدمے میں سابق فوجی صدر کو استثنا دیتی رہی ہے ،مگر پہلی مرتبہ اسی عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران فاضل جج نے استفسار کیا کہ ملزم پرویز مشرف کہاں ہیں ؟سابق صدر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے مؤکل حکومت کی اجازت کے بعد بیرون ملک علاج کی غرض سے گئے ہیں ،جس پر فاضل جج نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت کیوں دی گئی؟

گزشتہ الیکشن سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کو وطن واپسی کے موقع پر بہت سے مخلص ساتھیوں نے روکنے کی کوشش کی تھی ،ماضی کی تاریخ کے اوراق کو بھی دہرایا تھا، مگر وہ کمانڈو تھے ،کسی بات سے نہ گھبرائے اور کہا کہ وہ نہ صرف ہرآنے والی مشکل کا مقابلہ کریں گے، بلکہ اپنے خلاف بنائے گئے ہر مقدمے کا سامنا بھی کریں گے۔ دیکھنے والوں کوشروع میں ان کے اندر بہت جوش و جزبہ نظر آیا،ٹی وی ٹاک شو سے لے کر عدلیہ کے کٹہروں تک اُن کا اندازِ بیان ان کے دلیری و جرأت کا مظہر تھا،مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت اُن پر واضح ہوتی چلی گئی کہ مجھے گھیر کر گہری کھائی میں دھکیلنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔انہوں نے میدان سیاست میں وقتی طور پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے ،نئی حکمت عملی بنانے کے لئے بیماری کا بہانہ کرکے بیرون ملک جانے کا راستہ ہموار کیا ۔دنیا جانتی ہے کہ فوج اور حکومت نے باہمی رضامندی سے انہیں دوبئی جانے کی اجازت دی ہے،عدلیہ بھی یہی چاہتی تھی کہ پرویز مشرف کے خلاف چلائی جانے والی بندوق اُن کے کندھے پر نہ رکھی جائے۔

اب اگر جنرل پرویز مشرف کو سزا بھی ہو جاتی تو عدلیہ کے دامن سے اس داغ کو دھویا نہیں جا سکتا تھا۔عدلیہ تو ابھی تک ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی والے داغ سے اپنا چہرہ صاف نہیں کر سکی ،چہ جائیکہ وہ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں ذاتی مخاصمت کی وجہ سے ایک نئے فیصلے سے زیرِ بار ہو جاتی۔عدلیہ نے ایگزٹ کنڑول لسٹ سے جنرل پرویز مشرف کا نام ہٹانے میں حکومتی سازش کا ساتھ دینے کی بجائے فیصلے کے کلی اختیارات حکومت کو سونپ کر اپنی عزت بچا لی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو کل کو سیاست دان عدلیہ کو ایک بار پھر اپنی توپوں کے دھانوں پر رکھ لیتے ، یوں عدلیہ اپنا وقار مزید کھو دیتی۔جنرل پرویز مشرف کو غداری کیس میں سزا ہونی چائیے تھی، لیکن وہ غداری کیس نومبر والی ایمر جیسنی والا نہیں، بلکہ اکتو بر کے شب خون والا ہو نا چائیے تھا۔مسلم لیگ (ن) نے اندرونِ خانہ اور بیرونِ خانہ عالمی طاقتوں سے کئی قسم کے سمجھوتے کئے ہوئے تھے، لہذا حکومت سے مثالی کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔

جنرل پرویز مشرف کے ایشو پر پی پی پی، مسلم لیگ (ن) سے بھی زیادہ حساس بننے کی کوشش کر رہی تھی، حالانکہ اس کے اپنے دورِ حکومت میں پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا تھا اور انہیں آزادانہ بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد اسی جنرل پرویز مشرف کے بیرونِ ملک چلے جانے کے بعد سے پیپلز پارٹی شور شرابہ کرنے کی کوشش کررہی ہے ،جس سے اس کی ساکھ مجروح ہو گی اور عوام میں اس حمایت میں مزیدکمی واقع ہوجائے گی۔پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات اس کی واضح مثال ہیں، جہاں پیپلز پارٹی کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ضرور ت اس امر کی ہے کہ پی پی پی کو دوبارہ منظم کیا جائے اور اس کی بنیادان اصولوں پر رکھی جائے جو عوامی مفادات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کے ضامن بھی ہوں۔

پی پی نے جنر ل پرویز مشرف کے صاف بچ کر نکل جانے پر واویلا کرنے کی کوشش کی، لیکن بے سود، کیونکہ پیپلز پارٹی نے حصولِ اقتدار کی خاطر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جس طرح کے معاہدے کر رکھے تھے ۔ان کے پیشِ نظر انہیں جنرل پرویز مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔جب کوئی جماعت اصولوں کی بجائے خالی نعروں سے عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔پی پی پی نے جنرل پرویز مشرف کی بیرونِ ملک روانگی پر احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا، لیکن عوام کی عدمِ دلچسپی کے باعث اسے اپنا یہ احتجاجی پروگرام ختم کر نا پڑا۔عوام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جماعت جو اپنی قائد کے قاتل کو اپنے دورِ حکومت میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کر سکی،وہ اس کے بیرونِ ملک چلے جانے کے بعد محض عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے مگر مجھ کے آنسو بہا رہی ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ملک کے بڑے بڑے سیاستدان دھڑلے سے کہا کرتے تھے کہ جنرل پرویز مشرف اگلے سو سال بھی پاکستان کی سر زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا، لیکن سب نے دیکھا کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان آیا اور پھر غداری کیس میں ملوث ہونے کے باوجود بیرنِ ملک روانہ ہو گیا،تما م مخالفین اور ان کے قائدین کھلی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہے۔ان کے پاس کڑھنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، کیونکہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کسی قاعدے اور اصول کو اہمیت نہیں دی تھی۔قاتل اور مقتول جب ایک ہی تھالی میں کھانا شروع کر دیں تو پھرسچ اور جھوٹ میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔سابق صدر پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں یا انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے، انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ،کیونکہ وہ سابق سپہ سالار ہیں اور ان کا ادارہ انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا ،اس حقیقت کو مسلم لیگ (ن) مان چکی ہے ،پیپلز پارٹی اپنا راستہ ہموار کرنے کے لئے جھوٹ موٹ کا شور مچارہی ہے ،لیکن ایسی بے وقت کی راگنی نتائج نہیں دیا کرتی، بلکہ الٹا نقصان کا باعث بنا کرتی ہے۔

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 119895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.