قوم سے خطاب!

 قوم سے خطاب ایک روایت ہے، وقت تھا جب ریڈیو پر حکمرانِ وقت قوم سے خطاب کیا کرتا تھا، باربار یاد دہانی کروائی جاتی تھی، لوگ ریڈیو (اور جہاں کہیں ٹی وی تھا) کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور اپنے صدر یا وزیراعظم کا قوم سے خطاب نہایت توجہ سے سنتے تھے۔ خطاب کی ضرورت اس وقت پیش آتی تھی جب یا تو حکمران نیا بنا ہوتا تھا، یا پھر کوئی اہم مسئلہ ہوتا تھا جس کی وضاحت کرنا ضروری جانا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس خطاب میں بہت سے اہم فیصلے اور اعلانات قوم کو سننے کو ملتے تھے۔ اب چونکہ الیکٹرانک میڈیا نے اس قدر پذیرائی اور عوام تک رسائی حاصل کرلی ہے کہ وزیراعظم وغیرہ کے قوم سے خطاب کی ضرورت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ یہاں صدر کا ذکر کرنا ویسے بھی مناسب نہیں کہ اپنے جمہوری نظام میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں، رہ گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ، تو اس میں صدر کا خطاب بھی ایک روایت ہے اور ایک عرصہ تک اس خطاب پر (پارلیمنٹ میں)بحث جاری رہتی ہے۔ تاہم صدر کے قوم سے خطاب کی نوبت اس وقت آتی ہے جب صدر ذرا اور طرح کا ہو، یعنی سیاستدان نہ ہو، اور اختیارات بھی زیادہ تر اسی کے پاس ہوں۔ فوجی حکومتوں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔

اب وزیراعظم کا قوم سے خطاب اچانک ہی برآمد ہوجاتا ہے، اُدھر سے کوئی آندھی اٹھی، اِدھر صاحب نے مائیک سنبھال لیا۔ آج کل قوم سے خطاب کو ایک مزاحیہ پروگرام بھی کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے جس خطاب کو بھی دیکھ یا سن لیں، اس میں ’’چاہیے‘‘ کی تکرار ہوتی ہے، قوم کو انہی امور سے آگاہ کیا جاتا ہے جن سے وہ پہلے سے ہی باخبر ہوتے ہیں، بلکہ بعض معاملات میں تو حکومت سے بھی زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔ مثلاً قوم کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہر طرف لاقانونیت ہے، رشوت کلچر عام ہے، تھانے میں لوگوں کی عزت کرنے والا کوئی نہیں، تعلیم کی حالت خراب ہے، ڈاکٹر ڈیوٹیوں پر نہیں جاتے، سکولوں میں سہولتوں کا فقدان ہے، کرپشن کی خبریں بھی بتائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لوگوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں اور ظالموں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ اگر ایسے خطاب پر ایک جملے میں تبصرہ کیا جائے تو وہ جملہ یہ ہو گا کہ ’’یہ تقریر کسی اپوزیشن لیڈر کی زبان سے ادا کی گئی معلوم ہوتی ہے‘‘۔

گزشتہ دنوں دنیا بھر کے امراء کے بارے میں پاناما لیکس نے یہ خبر دی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی دولت غلط طریقوں سے غیر ممالک میں جمع کروا رکھی ہے، چھپا رکھی ہے، کاروبار میں لگا رکھی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی اولادوں کا ذکر بھی اس میں شامل ہے۔ چونکہ یہ رپورٹ دنیا میں ہنگامہ برپا کرچکی ہے، اس لئے اس کے پاکستان میں بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اگرچہ وزیراعظم نے سابق جج کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے، مگر اول تو مخالفین کو سابق جج والی بات بھائی نہیں، جج کا موجودہ ہونا ضروری ہے، دوسرا یہ کہ وزیراعظم نے اپنی ہی مرضی کے مطابق والا کمیشن بھی تاحال قائم نہیں کیا۔ تاہم اس دوران انہوں نے پی ٹی وی پر نمودار ہوکر قوم سے اپنے خطاب میں اپنی اور اپنی اولاد کی صفائیاں پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ ہمارے اوپر یہ الزامات کئی دہائیوں سے لگائے جارہے ہیں۔

وزیراعظم سے قوم کے خطاب کے بعد تحریک انصاف نے بھی پی ٹی وی کو مراسلہ جاری کیا ہے، جس میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے قوم سے خطاب کے بندوبست کرنے کی تیاری کا کہا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پی ٹی وی قوم کے ٹیکسوں سے چلنے والا ادارہ ہے، اس پر جتنا حق نواز شریف کا ہے اتنا ہی عام آدمی کا بھی ہے۔ اُدھر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی عمران کے خطاب کی حمایت کی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں اشخاص کے ساتھ مجھے بھی خطاب کا موقع دیا جائے۔ پی ٹی وی نے چونکہ پاناما لیکس کا بلیک آؤٹ کیا ہے، اس لئے تنقید کا سامنا ہورہا ہے۔ پی ٹی وی نے عمران کو بھی یہ موقع دینے سے انکار کردیا ہے، یقینا دوسرے لوگوں نے بھی اگر کوئی خط وغیرہ لکھا تو جواب ہی ملے گا، پہلے بھی قوم کے دیئے ہوئے ٹیکسوں کی کمائی حکمران ہی کھاتے ہیں،ا ب بھی وہی اس سے مستحق ہیں، کوئی اور نہیں۔ وزیراعظم کے علاوہ اگر کوئی قوم سے خطاب کرسکتا ہے، تو وہ ہے جس کا مخاطب ہوتا ہے ’’اے میرے عزیز ہم وطنو!‘‘۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429991 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.