سلطان الہندخواجہ معین الدین حسن چشتی
(Md Jahangir Hasan Misbahi, Loralai)
سلطان الہند،عطائے رسول خواجہ معین الدین
حسن چشتی قدس سرہٗ برصغیرہندوپاک میں چشتی سلسلے کے روح رواں اور بانی
ہیں۔برصغیرجوکفروشرک میں ڈوبا ہواتھا، آپ کی بدولت نورِہدایت سےسیراب
ہوا۔چنانچہ اس حقیقت سے کسی کو مجالِ انکار نہیںکہ پورے برصغیرمیں جہاں بھی
دین اسلام کی اشاعت عام ہوئی،اس میںسلطان الہند قدس سرہٗ کا ہی فیض ہدایت
کارفرما ہے۔
نام ونسب اورولادت:حضرت خواجہ قدس سرہٗ کا نام حسن،لقب،معین الدین، سلطان
الہند، غریب نواز،عطائے رسول ہے۔آپ ایک دین داراور علمی گھرانے سے تعلق
رکھتے تھے۔آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔والد کا نام غیاث الدین ہے۔سیستان کے
قصبہ سنجر میں۵۲۷ہجری کو پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت:سلطان الہند قدس سرہٗ کی نشو و نما’’خراسان‘‘میں ہوئی۔ آپ
بچپن ہی سے نرم دل اور شریف طبیعت کے مالک تھے۔ آپ کی طبیعت عام بچوںکی
عادت اور مزاج سے یکسرجدا تھی۔ بچپن ہی سےآپ کے اندر وہ تمام آثارنمایاں
تھے جو ایک مردِ مومن کی علامت اور پہچان ہوتی ہے۔
جب پندرہ سال کے ہوئے تو والد بزرگوارحضرت غیاث الدین کا سایہ سر سے اٹھ
گیا۔ ترکہ میں ایک باغ ملاہوا تھا،اسی کی نگہبانی کیا کرتے تھے۔
ایک دن شیخ ابراہیم قندوزی نامی بزرگ باغ میں آئے۔آپ نے ان کوبڑی عزت دی،
اور احترام کے ساتھ بٹھایا، پھراُن کی خدمت میں انگور کے چندخوشے پیش کیے،
آپ نےانگورتناول نہیں فرمایا۔ البتہ!کھلی کا ایک ٹکڑا کھاکر دیا۔اس کھلی
کا کھانا تھا کہ حضرت کا دل انوار الٰہی سے معمور ہوگیا۔ علائق وخلائق سے
ترک تعلق کرلیااور طلب حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، سمرقندوبخارا پہنچے،جہاں
کلام مجید حفظ کیا اور علوم ظاہری کی تکمیل بھی فرمائی۔(مرأۃ
الاسرار،ص:۵۹۳-۵۹۴،۱۹۹۷)
بیعت وخلافت اور خدمت شیخ: تعلیم مکمل کرلینے کے بعدسلطان الہند قدس سرہٗ
مقصداَصلی کی حصولیابی کے لیےبغداد تشریف لے گئے۔ معلوم کرنےپرپتاچلاکہ اس
شہر میں خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ سےبڑی شخصیت کوئی نہیں۔چنانچہ آپ
خواجہ ہارونی کی خانقاہ پہنچے،وہ نماز کے لیےمسجدجنیدبغدادی گئے ہوئے
تھے،آپ بھی وہیںچلے گئےاور قدم بوسی کا شرف حاصل کیا۔اس وقت مسجد میں عظیم
مشائخ موجودتھے۔خواجہ عثمان نے فرمایاکہ اے معین الدین! دوگانہ اداکرو اور
قبلہ رُخ بیٹھ جاؤ۔آپ نے ایسا ہی کیا، پھر فرمایاکہ چہرہ آسمان کی طرف
اُٹھاؤ،اور آپ کا ہاتھ پکڑکر فرمایاکہ میں نے تجھے اللہ تک پہنچادیا۔اس
کے بعدآپ کے سرپرکلاہِ ارادت رکھی، خرقۂ خاص عطافرمایا،پھرفرمایاکہ معین
الدین!ایک ہزاربار سورۂ اخلاص پڑھو،اورایک دن،اورایک رات کا مجاہدہ کرو،
آپ نے ایسا ہی کیا۔آپ اسی مجاہدے میں مشغول تھے کہ سامنے سے تمام حجابات
اٹھادیے گئے۔پھر عثمان ہارونی نے آپ کوخلافت عطافرمایا اورتمام طریقۂ
مشائخ کی تلقین بھی کی ، اس کے بعد آپ کا ہاتھ پکڑا،اوریہ دعاکی کہ
یااللہ!معین الدین کو قبول فرمااوراسےاپناقرب عطافرما۔آواز آئی کہ معین
الدین ! تو ہماری بارگاہ میں مقبول ہے، تمہارا نام محبوبوں کے فہرست میں
شامل کردیااورمشائخ کا امام بنادیا۔(سبع سنابل،سنبلہ:۷،سیر:۱۶،ص:۲۲۶)
اس طرح مرشد کی خدمت میںتقریباً بیس سال تک رہے ،طریقت و معرفت کی منزلیں
طے کیںاور مرتبۂ کمال پرفائز ہوئے۔سلطان الہند قدس سرہٗ خود فرماتےہیں :
جب میں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں حاضر ہوا،تو میں بیس سال تک ان کی
خدمت میں رہا۔ اس عرصے میں ایک لمحہ بھی میں ان کی خدمت سے غافل نہیں رہا۔
سفروحضر میں اُن کا بستراور سامان لے کر چلتا۔جب اُنھوں نے میرے خلوص و
خدمت اور عقیدت و محبت کو ہر طرح سے محسوس کرلیا اپنے کمال کی نعمتوں سے
مجھے سرفراز فرمادیا۔
(سیرالاولیاء،ص:۱۲۷)
پھرجب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےعشق ومحبت کی تپش بڑھی تو مدینہ
طیبہ کا رُخ کیا۔آپ مدینہ طیبہ ہی میں تھے کہ بارگاہِ نبوی سے اشارہ ملا
کہ ہندوستان جائو اور دین اسلام کی تبلیغ کرو۔
ہندوستان آمد:سلطان الہندقدس سرہٗ مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے ہندوستان
تشریف لائے۔آپ جس وقت یہاںتشریف لائے، اس وقت ہندوستان میں ہر طرف کفر و
شرک کا بازار گرم تھا۔ انسانیت انسانوں کے ہاتھوں پامال ہو رہی تھی۔ لوگ
ایک اللہ کی پرستش کے بجائے کئی خداؤں کا تصور رکھتے تھے اور طرح طرح کے
خرافات میںمبتلا تھے۔ ایسے حالات میں آپ نے توحید و رسالت کا وہ صورپھونکا
کہ پورا ہندوستان اس کی آواز سے گونج اُٹھا ۔
ہر دور میںہندوستان کے حکمرانوں کوسلطان الہندقدس اللہ سرہٗ سے بے پناہ
عقیدت و محبت رہی۔تاریخی دستاویزات کے ساتھ ساتھ، درگاہ معلی اجمیر شریف
میںان بادشاہوں کی حاضری، تعمیرات اور نذر و نیاز جیسے اعمال اس کے شواہد
ہیں۔
ازدواجی زندگی:سلطان الہندقدس سرہٗ کی دو شادیاں ہوئیں، جن میں ایک ’’عصمت
بی بی‘‘ جو اجمیرکے گورنر کی بیٹی تھیں اور دوسری ایک ہندو راجہ کی لڑکی
’’بی بی اَمۃاللہ‘‘ تھیں جو مشرف بہ اسلام ہو گئی تھیں۔ آپ کے دوصاحب زادے
سید فخرالدین، اور سید حسام الدین تھے اور ایک صاحب زادی ’’بی بی حافظہ
جمال ‘‘ تھیں۔
(مرأۃ الاسرار،ص:۶۰۲،۱۹۹۷)
مجاہدات اورفضل وکمال:ایمان کی اصل یہ ہے کہ مومن کے اندر رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت ماں ،باپ ، اولاد اور مال، بلکہ ہرچیزکی محبت سے
زیادہ ہو،جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی اسی قدر ایمان
میں مضبوطی آئے گی۔
سلطان الہند کے معمولات دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی پوری زندگی عشق
الٰہی اورعشق رسول میں گزری۔ اللہ عز وجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا ذکر بہت ہی والہانہ انداز میں کرتے، ہمیشہ اس بات کا خوف رہتا کہ
کہیںحقوق اللہ اور حقوق العباد میں کوئی کوتاہی نہ ہوجائےکہ اس کی وجہ سےکل
قیامت میں اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ
ہونا پڑے۔
حضرت شیخ میرعبدالواحد بلگرامی لکھتے ہیںکہ منقول ہے کہ خواجہ معین الدین
حسن سجزی علم میںکمال رکھتے تھے۔آپ کی تصانیف خراسان کے اطراف واکناف
میںبہت مشہور ہیں۔آپ ستر سال تک نہ توسوئے اورنہ ہی اپنی پشت زمین پر
رکھی،اور رفع حاجت کے سوا ستر سال تک آپ کاوضو نہیں ٹوٹا۔آپ ہمیشہ
آنکھیں بند کیےرہتے، صرف نماز کے وقت کھولتے،اور جس شخص پر بھی آپ نظر
عنایت پڑجاتی وہ اللہ کاولی ہوجاتا ۔ آپ حافظ قرآن تھے۔ایک ختم قرآن دن
میں اور ایک ختم قرآن رات میں کیا کرتے تھے،اور جتنی بار قرآن ختم کرتے
،ہر بارغیبی آوازآتی کہ ہم نے تمہارا ختم قرآن قبول کیا۔
خواجہ قطب الدین قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ خواجہ معین الدین چشتی کی مجلس میں
بغداداور اطراف واکناف کےمشائخ عظیم ،مثلاًشیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ
احمد کرمانی، شیخ محمداصفہانی، مولانا احمدبغدادی،شیخ جلال الدین
تبریزی،شیخ برہان الدین غزنوی،شیخ واحدکرمانی، خواجہ اجل سجزی،وغیرہ قدم
بوسی کے لیےحاضر ہوتےاور آپ سے فیض یاب ہوتے تھے۔ (سبع
سنابل،سنبلہ:۷،سیر:۱۶،ص:۲۲۶)
یوں تو ہر صوفی اورولی حلیم وبردباراور عفوودرگذر کا پیکر ہوتاہے لیکن
سلطان الہند قدس سرہٗ کی یہ درویشانہ صفت کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔جس طرح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام امت کے لیے ہمیشہ دعاکرتے رہتے تھےاسی
طرزپرآپ اپنے مریدین ومتوسلین کے لیے دعائیں کرتےرہتے اور اپنے ایک ایک
عمل سے سنت نبوی کاپیغام دیتے۔پڑوسیوں کا بھی اچھی طرح خیال رکھتے۔ جب کوئی
ہمسایہ انتقال کرجاتا تو اُس کے جنازے میں شریک ہوتے۔ لوگ واپس لوٹ جاتے
لیکن آپ دیر تک اس کی قبر کے پاس دعائیں کرتے رہتے۔ عذاب قبر کا خوف بھی
آپ میں حد درجہ تھا، جب کبھی قبر کا ذکر آتا توآپ چیخیں مار کر رو پڑتے۔
چشت اہل بہشت:سلطان الہند خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ فرماتے ہیںکہجو
میرامریدہوا،یا میرے فرزندوں کا مرید ہوا،معین الدین اُس کو لیے بغیر بہشت
میں قدم نہیں رکھے گا۔آپ سےپوچھا گیاکہ فرزندان سے آپ کے خلفا مراد ہیں
یا آپ کی اولاد؟آپ نے فرمایاکہ فرزندان سے میری مراد قیامت تک کے میرے
تمام مریدین ہیں۔
مزید فرماتے ہیںکہ ایک دن میں حرم کعبہ میں مشغول عبادت تھا کہ ہاتف غیبی
نے آوازدی کہ معین الدین!ہم تم سے خوش ہیںاور ہم نے تمہارے اہل بیت کو بخش
دیا۔
میں مسرور ہوگیا۔میں نے عرض کیاکہ الٰہی!میری ایک اور خواہش ہے ، فرمان
ہواکہ مانگوقبول ہوگی۔میں نے عرض کیاکہ الٰہی!جو معین الدین کا مرید ہو،اور
معین الدین کے مریدوں کا مرید ہو،اُس کو بھی بخش دے۔ ہاتف غیبی نے آواز دی
کہ معین الدین! جو تمہارا مرید ہوا، اور قیامت تک تمہارے مریدوں کامرید
ہوا، ہم نے سب کو بخش دیا۔
(سبع سنابل،سنبلہ:،۷،سیر:۱۶،ص:۲۲۶)
ذوق سماع:حضرت میرعبدالواحدبلگرامی لکھتے ہیںکہ سماع اور رقص اخلاق صوفیہ
میںسے ہے،اسی لیے خواجگان چشت اہل بہشت سماع کا نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ ذوق
رکھتے تھے۔ چنانچہ خود سلطان الہند قدس سرہٗ سماع کے دلدادہ تھے اور آپ کی
محفل سماع میں بڑے بڑے علماو مشائخ شریک ہوتے تھے۔
حضرت میرعبدالواحد بلگرامی لکھتے ہیںکہ خواجہ معین الدین سماع کا ذوق رکھتے
تھےاور خوب سماع سنتے تھے۔جو بھی خواجہ قدس سرہٗ کی پاک صحبت میں رہتا وہ
بھی صاحب سماع اور اُس کا اہل ہوجاتا۔ (سبع سنابل،سنبلہ:۷ویں،سیر:۱۶ویں)
سماع، درحقیقت اسرارِ حق اور معرفت الٰہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہےکہ
سماع میں اللہ اور بندے کے درمیان کے سارے حجابات اٹھتے چلے جاتے ہیں۔
پھرجب بندے پرعشق الٰہی کا غلبہ ہوتاہے اوراللہ کی ہیبت و خشیت اس پر طاری
ہوتی ہے تواُس کا قلب انواروتجلیات سے بھرجاتاہے اور وہ و جدوسرور کی
ایمانی کیفیت سے سرشارنظرآتا ہے۔
سماع آلۂ تبلیغ :چوں کہ سلطان الہند قد س سرہٗ سماع کا بے حدذوق رکھتے
تھے،اور ہندوستان آئے توپایاکہ یہاںکے لوگ ہر چھوٹی بڑی مذہبی رسومات میں
نغمہ کااستعمال کرتے ہیں،چنانچہ نغمہ میں لوگوںکی اسی دلچسپی کے پیش
نظرہندوستان میں سماع خاص دعوت وتبلیغ کے لیےآلہ بھی بن گیا۔
اس کانتیجہ یہ نکلاکہ کفارومشرکین نغمہ سے اُنسیت اورلگاؤ رکھنے کی
بناپرآپ سےقریب ہونے لگے،اس طرح اُن لوگوں نےآپ کے حسن سلوک کا مشاہدہ
کیااورآپ کی موہنی صورت پرفریفتہ ہوگئے، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کے
دلوں میں ایمان راسخ ہوتا چلاگیااور زبان حال سےیہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ؎
زبان عشق می باید چہ ایرانی چہ سریانی
تصانیف: سلطان الہندخواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ کی جانب جن تصانیف کو
منسوب کیاجاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔انیس الارواح ۲۔ گنج اسرار ۳۔کشف الاسرار ۴۔دلیل العارفین
اول الذکر خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کے ملفوظات پر مشتمل ہے ۔جب کہ
آخرالذکرسلطان الہند قدس سرہٗ کی تعلیمات پر مشتمل ہے، جس میں اخلاق،
نماز، روزہ، تلاوت، معرفت کی باتیںاور سلوک کے مقامات وغیرہ کا ذکرمختصر
اورجامع طورپرہے۔
وصا ل مبارک:منقول ہے کہ سلطان الہندقدس سرہٗ عشا کی نماز پڑھ کر اپنے حجرے
میں گئےاور دروازہ بندکرلیا،کچھ دیر بعدآپ پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی
اور اِسی وجد کے عالم میں ۶؍رجب ۶۳۳کو اَخیر ِشب میں روح پُرفتوح پرواز کر
گئی ۔
آپ کے انتقال پُرملال کے وقت بعض بزرگوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کوخواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھاکہ اللہ کا دوست معین الدین آرہا
ہے،ہم اس کے استقبال میں کھڑے ہیں،نیزیہ بھی دیکھاگیاکہ آپ کی پیشانی
پرحَبِیْبُ اللہِ مَاتَ فِی حُبِّ اللہِ۔ لکھاتھا،یعنی اللہ کے دوست نےاللہ
کی محبت میں وفات پائی۔ (سیرالاولیاء،ص:۱۳۱)
تعلیمات وارشادات:
ث اہل محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کا مطیع و فرماں بردار نہ ہو
،اور کسی سے ڈرکر اس کے حکم پر نہ چلے۔
ث شقاوت کی علامت یہ ہے کہ تو گناہ کرے اور امید رکھے کہ تو مقبولانِ
بارگاہ میںسےہے۔(سیرالاولیاء،ص:۱۲۷)
ثنیک لوگوںکی محبت نیکی کرنے سے بہتر ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت بُرائی
کرنے سے بدتر ہے۔(اخبارالاخیار،ص:۵۶)
اس راہ میں سکون حاصل کرنے کے لیے دوچیزیں ہیں: ایک عبودیت اور دوسرے حق
تعالیٰ کی تعظیم۔
ث حق تعالیٰ کی معرفت کی علامت مخلوق سے بھاگنا ہے اور معرفت میں خاموش
رہنا ہے۔
ث قیامت کے دن حق تعالیٰ فرشتوں کو حکم دےگاکہ دوزخ کو سانپ کے منھ سے
نکالیں۔اس وقت دوزخ کی آگ کو بھڑکایاجائےگا ،چنانچہ وہ ایک سانس لے گی تو
تمام عالم حشر دھوئیں سے بھرجائےگا۔جو چاہتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے مامون
رہے اُسے چاہیے کہ ایسی طاعت کرے کہ اللہ کے نزدیک اُس سے بہتر اطاعت نہ
ہو۔پوچھاگیاکہ وہ کون سی اطاعت ہے؟فرمایاکہ مظلوموں کی فریاد کو پہنچنا،
حاجتمندوں کی حاجت پوری کرنا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا۔
ث اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہےجو دریا کی طرح سخاوت،آفتاب کی طرح شفقت
،اورزمین کی طرح تواضع اختیار کرتا ہے۔
ث جس کسی نے نعمت پائی،سخاوت سے پائی اور جوترقی حاصل کرتا ہے ،وہ صفائے
باطن سے حاصل کرتا ہے۔
ث حقیقت میں متوکل وہ ہے جو اپنی تکلیف کولوگوں کی طرف منسوب نہ کرے۔
(سیرالاولیاء،ص:۱۲۷-۱۲۸)
ث عاشق کا دل محبت کی آگ میں جلتارہتا ہے ،لہٰذاجو کچھ بھی اس دل میں آئے
گا جل جائے گا اور نابود ہوجائےگا، کیوں کہ آتش محبت سے زیادہ تیزی کسی
آگ میں نہیں۔
ثمرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائےگا جب کہ اس کے بائیں
طرف والے فرشتے بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھیں۔
ثمحبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ صفات حق اس کے اندر پیدا
ہوجائیں،اور محبت میں عارف کا درجہ کامل یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلے پر
دعوی کرکے آئے تو وہ اپنی قوت کرامت سے اُسے گرفتار
کرلے۔(اخبارالاخیار،ص:۵۶-۵۸) |
|