اھلیہ مفتی احمد الرحمن
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
ایک نفیس برگ گل |
|
ایک نفیس برگِ گل
وہ ایک عظیم عبقری باپ کی ایک عظیم بیٹی تھی،ایک مدبّر شوہر کی ایک مدبّر
شریکِ حیات تھی،صاحبزادگی کا مکمل رنگ لئے ہوئےنازنین اولادوں کی نازبردار
ماں تھی،حضرت مدنی نے ان کے کان میں اذان دی تھی،حضرت بنوری نے ان کی تربیت
کی تھی،سیدۂ کائنات حضرتِ فاطمہؓ کے مبارک نام سےمنسوب ان کی ماں (فاطمہ)تھی،وہ
نجیبۃالطرفین تھی، ماں باپ دونوں کی جانب سے سیدہ تھی،نفاست اتنی تھی کہ ان
کا نام ہی (نفیسہ)تھا،والدین کی تعلیم وتربیت کے بعد وہ حضرت عبدالرحمن
کامل پورے اور حضرتِ مغفرہ مرحومہ کی بہو بن گئی تھی،ان دونوں ہستیوں کا
بھی دیرپااثر ان کی طبیعت میں نمایاں ہوگیاتھا،اپنے تمام بچوں کو بنوری
ٹاؤن میں پڑھایااور بچیوں کو خود حافظہ عالمہ بنایا، نمازِپنجگانہ، تہجد،
اوّابین، اشراق، چاشت ،تلاوت اور ذکر واذکار پر سختی کے ساتھ کاربند
رہی،رمضان کے علاوہ عشرۂ ذی الحجہ،پیر جمعرات اورایامِ بیض کے روزے بھی ان
کے معمولات کا حصہ تھے،صبروشکر ان کی فطرت تھی،مفتی احمدالرحمن مرحوم کے
کامیاب اہتمام میں رفیقۂ حیات کی وجہ سے ان کا بڑا ہاتھ تھا،وہ ہاتھ کی
سخی اور بات کی دہنی تھی،مستجاب الدعوات تھی،میرے لئے کئی مرتبہ دعائیں کیں
اور الحمد للہ میرے حق میں قبول بھی ہوئیں۔اللہ تعالی سے ان کا تعلق بڑا
عجیب تھا،بعض مرتبہ وہ مکمل اعتماد کے ساتھ کہتی،اس کام میں عباد وبلاد کی
بھلائی ہے،میں نے اللہ تعالی سے مانگ لیا ہے،یہ ہو جائے گاإن شاءاللہ،فکر
نہ کریں ، بس آپ اس سے آگے کا سوچیں،ہر مشکل میں ان کا طریقہ یہ تھا،کہ
وہ نہایت عاجزی سےصلاۃِ حاجت پڑھتی،اسمائے حسنیٰ کاوِرد کرتی،اللہ کو
باربار رحمن ورحیم جیسی صفات کا واسطہ دیتی،نبی کریم ﷺ کی امتی ہونے ،حضرت
فاطمہؓ کی بیٹی ہونے اور شیطان کی دشمن ہونے کاحوالہ دیتی،پھر رو روکر
دعائیں مانگتی،تو باری تعالی بھی قبولیت سے سرفراز فرماتے رہتے،صاحبزادہ
عزیز الرحمن رحمانی کبھی کبھی امّاں جان کی ان عبادتوں وریاضتوں کا تذکرہ
بڑے جوش سے کرتے ہیں اور احباب ومتعلقین کے لئے وہ بھی اسی طرح دعائیں کرتے
ہیں ۔ان باتوں کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عام قارئین بھی خالقِ کائنات سے
جوڑ رکھیں اور دعاء مانگنے کا طریقہ سیکھیں،دعائیں کبھی رد نہیں ہوتیں،بس
ذرہ سلیقہ آنا ضروری ہے۔
ہمارے پاس 23سال تک وفاق المدارس کی ذمہ داریاں بطور سیکرٹری صدرِ وفاق
اورناظم سندھ وبلوچستان رہیں، حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب کی نظامت اعلی
وفاق کے دور سے ہم ان سےرابطے میں رہتے تھے،وہ ایک ماں کی طرح نصائح سے
نوازتی تھی،خاص کر بنات کراچی کا پورا شعبہ ان ہی کے پاس ہوتاتھا،تمام
معاملات انتہائی تدبر اور معلمات کے ساتھ نہایت پیار سے انجام دیتی ،کبھی
بھی ان کے نظم میں کوئی خلل نہیں رہا،ان امور میں مولانا طلحہ رحمانی ان کے
ساتھ بھرپور تعاون کرتے،جبکہ وہ خود بھی ہمیشہ وفاق کے فلیش پوائنٹ مراکز
امتحان میں نگرانِ اعلی کے فرائض سر انجام دیتے،کبھی کبھی ان کے کسی حکم کے
تعمیل میں ہم جیسوں سےکوتاہی ہوجاتی،تو فوراً ڈانٹ پڑتی، لیکن بعد میں تحفے
تحائف اور بزرگوں کے وہ اقوال جو صرف ان ہی کا حصہ تھے سے اپنی اولادوں کی
طرح خوش کرتی۔بات بات پر قرآن کریم کی کوئی آیت،یا کوئی حدیثِ مبارک ،یا
سیرت ِنبویﷺ کاکوئی شہ پارہ اور یاپھرتاریخ اسلام کا کوئی واقعہ سناتی
جاتی،ان کے مزاج میں کمال کی شفقت تھی۔
جب ہم نے سوات آئی ڈی پیز کے ہزاروں کے لئے المظفر ٹرسٹ کے تحت کام شروع
کیا،تو وہ بذاتِ خود ہمارے یہاں خواتین کے کیمپ میں باربار تشریف آؤری
فرماتی رہی،تمام خواتین وبچوں میں رقوم کے ساتھ بچوں کادودھ وغیرہ ،نیزاجناس
و لباس بڑے پیمانے میں تقسیم کرتی،ایک مرتبہ فون پر گفتگو کے دوران ہم
نےاستفسار کیا،امّاں جی آپ اتنی زحمت کیوں کرتی ہیں،کام تو ہوہی رہاہے،تو
انہوں نے کہا،کہ ہمارے میاں حضرت مفتی صاحب ؒ ان دنوں کئی بار خواب میں
آئے اور فرمایا کہ ولی خان سےتعاون کریں،سوات متأثرین کا بڑا بوجھ انہوں
نے اٹھایا ہے،ا س سلسلے میں ان کا ہاتھ بٹاناآپ سب کا فرض بنتاہے،اس لئے
میں نے اپنے تمام بچوں اور متعلقین کو کراچی ،اسلام آباد،پشاورولندن میں
اس طرف متوجہ کیا ہوا ہےاور خود آکر دیکھ بھال کرتی ہوں،اس طرح کے کاموں
سے میری روح کو سکون ملتاہے۔وہ صرف مالی تعاون پر اکتفا نہیں کرتی تھی،بلکہ
روز خواتین میں صبر وشکر ،برداشت اور تحمل جیسے موضوعات پر بیانات بھی
فرماتی،مشکل حالات میں حوصلہ برقرار رکھنے پر زور دیتی،دعائیں بتاتی
اوروظائف دیتی،نمازوں کی اصلاح کراتی،توحید اور رسالت پر خطاب کرتی،عجیب
بات یہ ہوئی کہ جو خواتین اور بچےسوات میں دین کے نام لیواؤں سے متنفروبے
زار ہوگئے تھے،یہاں وہ اللہ والوں سے ایسے وابستہ ہوئے کہ خود مشکل ترین
حالات میں بھی ایمان واسلام سے صحیح معنوں میں ہمرشتہ وپیوستہ ہوگئے۔
پیرانہ سالی کے باوجود ہمارے گھر تشریف لاتی،ڈھیروں ہدیے بچوں اور گھر
والوں کودیتی،أمّ لبیدکو فون کرتی کہ آج بچوں سمیت میرے پاس آجائیں،وہ دن
ہمارے گھر میں بچوں کے لئے عید کے دن سےہرگز کم نہ ہوتا،میں نے تو حضرت
مفتی صاحب کی شفقتیں وعنایتیں بھی دیکھی ہیں،وہ ہمیشہ عربی قباء زیبِ تن
کرتے،انہیں پتہ تھا کہ ہمیں عربی سے تھوڑا سا لگاؤ ہے،تو ہمیشہ ہم سے عربی
ہی میں تکلم فرماتے،انٹر نیشنل ختم نبوت کانفرنس لندن میں ان کی ایک
شاہکارعربی تقریر آج بھی یوٹیوب میں موجود ہے،لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ
امّاں جان سے بھی کبھی کبھار جب رابطہ ہوتا ،ہم عربی میں بولنے لگتے تووہ
بھی فصیح عربی میں جواب دیتی،گویاوہ اپنی ذات میں ایک دانش گاہ تھی،انہوں
نے اپنی زندگی میں غم ہی غم دیکھے تھے، لیکن حرفِ شکایت کسی نے نہ سنا،آج
کی عورتیں شکایات کے انبار لگادیتی ہیں،میں ان سے کہتا کہ امّاں جان ہفتہ
واری ایک مجلس کا اہتمام فرمایاکریں خواتین کے لئے،تو کہتی،فرداً فرداً بہت
کام کرنا پڑتا ہے،وہ کرتی ہوں،آپ کی والدہ اور اہلیہ تو ہمارے حلقۂ ارادت
میں ہیں ہی،اجتماعی کام میں قباحتوں کا روک تھام مشکل ہے،بس وفاق کے
امتحانات کے دنوں میں نگران معلمات سے خطاب کرلیتی تھی۔خلاصہ یہ کہ وہ عالی
ہمت ، عابدہ،ذاکرہ،صابرہ،شاکرہ،مدبّرہ،متدبرہ،مفکرہ،مہتممہ ،منتظمہ،مثالی
خاتون اس شعر کا مصداق بھی تھی:
درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل۔۔ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند
مرا
پچھلے ماہ جب ان کا انتقال ہوا،تو نمازِ جنازہ میں ایک خلق خدا امڈآئی
تھی،کسی نےاس موقعے پر کہاکہ دیکھیں عرفات کا میدان لگ رہاہے،خواتین کے کسی
جنازے میں اتنا جمّ غفیر شاید ہی کسی نے دیکھا ہو،سچ کہا گیا ہے کہ پتہ
جنازے میں لگے گا۔اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ اعلی مراتب ودرجات نصیب
فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاکرے اور باری تعالی ہماری اولادوں کو
بھی یہ سیرت وکردار اپنانے کی توفیق دے۔ |
|