پاناما پیپرز کے ممکنہ محرکات اور اثرات
(Hur Saqlain, Gujranwala)
پاناما لیکس نامی سکینڈل کے منظر عام پر
آنے سے دنیا کے کئی ممالک کی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔جن ممالک کے
سیاستدان اور حکمران اس سکینڈل کی زینت بنے ہیں وہاں سیاسی درجہ حرارت بڑھا
ہے۔دنیا کے کچھ ممالک نے اس کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور کچھ نے اس میں
افشا کیے جانے والے رازوں کو محض الزامات قرار دیا ہے۔مغرب میں اس پر مشرق
کی نسبت ردِ عمل مختلف آیا ہے۔وہاں ان انکشافات پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔دو
وزرائے اعظم مستعفی ہو چکے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم پر بھی شدید دباؤ
ہے۔ایشائی ممالک نے ان انکشافات کو سنجیدہ نہیں لیا ہے۔سب سے دلچسپ ردِ عمل
پاکستان سے آیا ہے ۔یہاں کے وزیر اعظم نے بھی قوم سے خطاب کیا ہے اور
چھپائی ہوئی دولت کو محنت کی کمائی قرار دیا ہے۔روس نے اسے سازش قرار دیا
ہے۔مسلم ممالک نے بھی اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا ہے۔اس رپورٹ میں اس رقم
کا تذکرہ ہے جو بغیر کوئی ٹیکس ادا کیے جمع کی گئی ہے اور اسے ریاستی اور
عالمی قوانین سے پوشیدہ رکھا گیاہے۔
اس وقت دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں۔اس
نظام نے دنیا بھر کے وسائل پر اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔عمرانی نظریوں کے
مطابق ان وسائل پر حق عام عوام کا ہوتا ہے اور ریاست ان وسائل کی رکھوالی
ہوتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام بیانیوں میں تبدیلی آچکی ہے۔اب
دنیا کے تمام وسائل سرمایہ دار کے ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں۔اس کے
مقابلے میں ریاست معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔یہی
وجہ ہے کہ دنیا بھر میں حالیہ سالوں میں معاشی زوال یا عدم استحکام دیکھنے
کو مل رہا ہے۔بیروزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام میں
بے چینی بڑ ھ رہی ہے۔دولت غیر ریاستی عناصر کے پاس جمع ہو رہی ہے اور وہی
عناصر طاقت ور ہو رہے ہیں۔جائز دولت کے مقابلے میں کالے دھن میں اضافہ ہو
رہا ہے۔ اگر ریاست کمزور ہو گی تو انتشار اپنے عروج پر ہو گااورعام آدمی
تکلیف میں ہو گا۔ریاستوں کے علم میں یہ بات بخوبی ہے کہ کالے دھن کی ایک
بڑی مقدار آف شور کمپنیوں کی مدد سے مخصوص بینکوں میں موجود ہے مگر اسے
حاصل کرنا ان کے بس میں نہیں ہے۔پاناما لیکس کے بعد دنیا بھر میں ایک بھر
پور عوامی تحریک اٹھی ہے اس تحریک کی طاقت سے ریاستیں اس کالے دھن کو اپنے
استعمال میں لانا چاہتی ہیں۔ اگر یہ سارا کالا دھن اوپن مارکیٹ میں آ جائے
تو دنیا کی معیشت بہت بہتر ہو جائے گی۔حال ہی میں پاکستان مین بھی کالے دھن
کو سفید کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہاں سے حاصل کیا گیا کالا دھن باہر کے
ملکوں میں موجود ہونے کی بدولت کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ہو سکا۔ اس کے ساتھ
ساتھ ایک نظریہ اور بھی موجود ہے۔ان پیپرز میں کسی بھی امریکی کا نام نہیں
ہے۔یہ کاروبار وہاں بھی بہت مقبول ہے۔کیا امریکہ کسی عالمی قانون سازی کے
بعد اس سارے کالے دھن کو خود تو نہیں ہتھیانا چاہتا ہے؟کیا یورو کے مقابلے
میں ڈالر کو استحکام دینا مقصود تو نہیں ہے؟ کیا امریکہ یورپ اور ایشیا کے
معاشی نظام کو مزید کسی امتحان میں ڈالنا چاہتا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں
روسی صدر کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں دو متوازی معاشی نظام چل رہے ہیں۔ایک نظام کو ریاست قوانین
کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے اور دوسرا نظام غیر ریاستی عناصر چلا رہے
ہیں۔سرمایہ داری نظام میں کالے دھن کے علاوہ کوئی اور دھن قابلِ قبول نہیں
ہوتا ہے۔اب ان دونوں میں ٹکراؤ پیدا ہو چکا ہے۔طاقت ور نے ہی باقی رہنا
ہے۔لہذا ریاستوں کو انتہائی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ اب
ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر کے پاس پیسہ زیادہ ہے۔ اگر اس دوسرے
نظام کو قانونی حیثیت نہ دی گئی تو دنیا کی معیشت بیگاڑ دی جائے گی۔آف شور
کمپنی کوئی خاص چیز نہیں ہوتی ہے۔ذریعہ معاش اہم ہوتا ہے۔عوامی عہدوں پر
فائز افراد کا اخلاقی معیار سخت ہو نا چاہیے۔ ریاستی افراد اور سیاسی نظام
میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ غیر ریاستی نظام کو تباہ کرنے کی بجائے اسے
مراعات دے کرریاستی دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے
چھٹکارا شور اور واویلا کرنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے کے لیے سوچ،فکر
حکمتِ عملی اور ایک لمبی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ |
|