غربت ‘ بے روزگاری اور حکمران

ملک میں بڑھتی ہوئی غربت ، بیرزگاری اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے جرائم کی تعداد میں اضافہ حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے مگر یہاں کوئی اس بات کو سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کا بندوبست کئے بنا غربت اور بیرزگاری کا خاتمہ ممکن نہیں جبکہ یہ کام کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا ،دولت کو گردش میں رہنا چاہیے اور اس کے گردش میں رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ صرف ایک ہی طبقے(امراء) میں ہی گردش کرتی رہے بلکہ اسے انسانی جسم میں خون کی طرح گردش کرنا چاہے تا کہ سارا بدن تندرست و توانا رہے ، پاکستان مین ایسا نہیں ہے اس لئے یہاں غربت کی کوکھ سے جنم لینے والی بیماریوں اور جرائم کی تعداد میں دن بدن خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک منٹ کے بعد خود کشی کا ایک واقعہ ہوتا ہے جن میں سے باقاعدہ رپورٹ بہت ہی کم ہوتے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں انسانی حقوق کی ایک نتظیم نے جو رپورٹ جاری کی اس کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک بھر میں 5 سوخواتین سمیت 17 سو دس افراد نے خود کشی کر لی خود کشی کرنے والے افراد کے بارے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے نامساعد حالات ‘غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ خودکشی اور اقدام خودکشی کے کل سینکڑوں واقعات رپورٹ ہوئے تاہم پولیس نے صرف 119 کے قریب واقعات کی ایف آئی آر درج کیں، پولیس ویسے بھی ایسا کوئی کام نہیں کرناچاہتی جس سے اسے حاصل وصول کچھ نہ ہو اور صرف خواری ہی خواری ملے اس لئے وہ بھی اسے اللہ کا حکم قرار دے کر لواحقین کوصبر کی تلقین کرتی ہی نظر آتی ہے۔لیکن آفرین ہے پوری قوم ، طبقہ اشرافیہ اور حکمرانوں پر کہ روازنہ دس افراد صرف بھوک بیماری بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشیاں کر کے ریاست اور معاشرے کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں مگر کسی کے کانوں پر ’جوں‘ تک نہیں رینگ رہی ، یہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ستر ،اسی ارب روپیہ سالانہ خیرات کی جاتی ہے اس سے بڑا شاید ہی فراڈ کوئی اور ہو جس ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر خیرات کی جاتی ہو وہاں تو غریب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملنے چاہیے جبکہ یہاں تو غربت کے بھنگڑئے جا بجا نظرآتے ہیں ہمارے ہاں ظاہری عبادتوں ریاضتوں پر اس قدر زور دیا جاتا ہے لیکن ایثار قربانی اور خدا کی مخلوق کے دکھوں کے ازالے کے لیے اس طرح کچھ نہیں کیا جاتا جیسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے قران میں نیکی اور ثواب کا فرق واضع کرتے ہوئے خالق کائنات اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:( تم ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے )۔خدا نے انسان کو واضح ہدایت دی کہ نیکی کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن ہم جو خیر‘ خیرات کرتے ہیں جس طرح سے بانٹی جاتی ہے اور جس طرح انسانی شرف کو رسوا کیا جاتا ہے اس کی مثال بھی کہیں نظر نہیں آئے گی۔

ہمارے ملک میں تو غربت کا نام و نشان دور دور تک نہیں ہونا چاہے اس لئے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دنیابھر میں دودھ ،آم ،پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر ہے جبکہ پاکستان ان تمام لوازمات، نعمتوں، وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے جن کی بدولت یہ صرف خطے ہی نہیں بلکہ یورپین یونین کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا، گندم پیدا کرنے والا آٹھواں اور چاول پیدا کرنے والا دسواں بڑا ملک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا بھر میں اس کا شمار 34ویں، زرخیز زمین کے حوالے سے 52ویں، آبادی کے حوالے سے چھٹا، افرادی قوت کے حوالے سے 10ویں جبکہ گیس کے ذخائر کے حوالے سے 29ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں 185 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن کی اندازاً مالیت تین ٹریلین ڈالر ہے اور ان ذخائر سے 100 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، اسی طرح سونے، چاندی، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر ہیں جن کی مالیت بلاشبہ کھربوں ڈالر ہے۔ پاکستان کی بندرگاہوں کا شمار دنیا کی بڑی پورٹس میں ہوتا ہے اور یہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک کا گیٹ وے ہے۔ اس لحاظ سے تو ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شامل ہونا چاہئے، برآمدات، توانائی کی پیداوار، جی ڈی پی، صنعتوں کی ترقی، تعلیم اور صحت سمیت ہر حوالے سے ہمارا شمارا کم از کم 20 ٹاپ ممالک میں ہونا چاہئے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ فی کس جی ڈی پی کے حوالے سے ہم دنیا میں 135ویں، شرح خواندگی کے حوالے سے 159ویں، برآمدات کے حوالے سے 61ویں، ماحولیات کے حوالے سے 131ویں درجے پر ہیں، آسان کاروباری ماحول والے ممالک میں ہمارا شمار 76ویں نمبر پر ہوتا ہے۔ پانی ہمیں بے تحاشا میسر ہے لیکن ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے ڈیموں کی قلت ہے، چنانچہ ہر سال ساڑھے تین کروڑ ایکڑ فٹ سے زائد پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے، دوسری طرف نو ملین ایکڑ زرخیز زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار پڑی ہے۔

کیا یہ ظلم عظیم نہیں کہ کروڑوں پاکستانیوں کے معصوم اور کم سن بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی دستیاب نہیں ہے، جن کے بچے شدید گرمی اور سردی میں تن ڈھا نپنے کے لیے دو گز کپڑوں کے لیے بھی ترستے ہیں۔ جو چھت اور چار دیواری سے بھی محروم ہیں۔ جو علاج معالجے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جن کے بچے حصولِ تعلیم کے خواب دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں،پاکستان کی لے پالک اشرافیہ اور حاکموں کی کرتوتوں کی وجہ سے ایک ایسے ملک میں جہاں قدرت کی فیاضی پر دنیا بھر کی مملکتیں انگشت بدنداں ہیں وہاں اس ملک کی اکثریتی آبادی کو اپنے ہی ملک کی پیداوار میسر نہیں، یہاں ارض وطن میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کا کوئی پرُسان حال نہیں ہے۔ جن کی حالت کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہے۔ تنگ وتاریک گلیوں ،کچی بستیوں اور جھونپڑیوں کے یہ مکین، کہنے سننے اور دیکھنے کی حد تک تو پاکستانی اور انسان ہیں، لیکن کھلی اور واضح حقیقت تو یہی ہے کہ ان کا پاکستان کے وسائل اور پاکستان کی دولت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان کا نصیب ہے؟ اگر یہ ان کا نصیب نہیں ہے تو پھر یہ اپنا نصیب بدلتے کیوں نہیں،کسی نے کہا تھا کہ غریب پیدا ہونا کوئی جرم نہیں مگر غریب مرنا جرم ہے۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 12872 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.