ملک میں تیزی سے بڑھتی غربت....عوام کہاں جائیں؟

پاکستان میں ہر نکلنے والا سورج نت نئے مسائل لے کر طلوع ہوتا ہے، جس سے عوام کی مشکلات اور پریشانیوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ان کی زندگی مزید اجیرن ہوجاتی ہے۔ بدامنی و دہشتگردی، بے روزگاری، ناانصافی، کرپشن اور دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ غربت کے اضافے نے اس ملک کے باسیوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی میں غریب شہریوں کے تناسب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کی نااہلیوں کے باعث پاکستانی معیشت بھی دم توڑتی جارہی ہے اور پاکستان معاشی ترقی میں بنگلا دیش سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں کمزور مالیاتی اداروں، بے جا حکومتی اخراجات، حکمرانوں کی قومی خزانوں سے لوٹ مار، ٹیکس چوری اور کرپشن کی وجہ سے ملک کی معیشت کمزور اور غربت اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں غربت بڑھنے کی وجہ حکومت کی غریب دشمن ناکام اقتصادی پالیساں ہیں، کیونکہ اقتصادی پالیسوں میں ہمیشہ ملک کے طاقتور طبقے کو فائدہ پہنچایا جا تا ہے، جس کے اثرات براہ راست غریب عوام پر پڑتے ہیں۔ اقتصادی پالیسیوں میں غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جاتا۔ ملک کے طاقتور طبقے اپنے مفادت کو ان پالیسوں میں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ طبقے قومی دولت سے قرضے لیتے ہیں اور بعد میں اپنے ان قرضوں کو معاف بھی کروالیتے ہیں اور اس کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جبکہ صاحب اقتدار طبقہ قومی خزانے سے دولت سمیٹنے کا کوئی بھی موقع ضایع نہیں کرتا۔ غریب عوام سے جمع کیا گیا ٹیکس ان امیروں کے اللے تللوں اور پروٹوکول پر خرچ کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کے ناانصافی پر مبنی انہیں اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور حکومت کے تمام تر دعوﺅں کے باوجود ملک کی معیشت بنگلا دیش سے بھی پیچھے ہے۔ عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت رواں مالی سال کا جی ڈی پی میں 8.5 فیصد اضافے کا ہدف حاصل نہیں کرپائے گی۔ خطے میں بھارت 7.5 فیصد شرح نموکے ساتھ بدستور پہلے، بھوٹان 6.7 فیصد کے ساتھ دوسرے، بنگلا دیش 6.3 فیصد شرح نمو کے ساتھ تیسرے اور پاکستانی معیشت پانچویں نمبر پر ہے۔

حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ایک طرف تو ملکی معیشت پیچھے کی جانب جارہی ہے، جبکہ دوسری جانب ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کی یہ حالت ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سماجی، سیاسی، مذہبی اور اقتصادی حوالے سے رپورٹ تیار کرنے والی عالمی شہرت ےافتہ سوشل میڈیا تنظیم ”میڈیا ڈور“ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 6کروڑ افراد غربت کا شکار ہیں۔ 6کروڑ افراد کی ماہانہ آمدن صرف 4 ہزار ہے، جو ایک ڈالر یومیہ سے بھی انتہائی کم ہے۔ تاہم ہر سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان میںادھار لینے کے رحجان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جبکہ 85 فیصد افراد کو پوری کوشش کے باوجود قریبی افراد سے ”قرضہ“ نہیں ملتا اور غربت کے باعث جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے خود حکومت پاکستان نے ملک میں غربت میں اضافے کا اعتراف کیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق پہلے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہر 10 میں سے ایک شخص غریب تھا اور اب یہ تعداد بڑھ کر 3 ہو چکی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی اور مالیات کی جانب سے بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کی موجودگی میں تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں ایک دم حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک میں غریب افراد کی تعداد 2 کروڑ سے بڑھ کر 5 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان نے غربت کے باضابطہ تعین کے روایتی طریقہ کار کے تحت غذا سے حاصل ہونے والی توانائی کو تبدیل کر کے اسے بنیادی ضروریات کی لاگت سے موازنہ کیا ہے، تاکہ ملک میں غربت کی زیادہ حقیقی تصویر بیان کی جاسکے، تاہم حکومت نے بیروزگاری کی مروجہ اور پرانی تعریف نہیں بدلی، جس کے تحت ملک میں بیروزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے۔ اس صورت حال کے باوجود وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا اصرار ہے کہ ملک میں شرح غربت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نئی تعریف کے تحت ملک کے شہری علاقوں کی 20 فیصد اور دیہی علاقوں کی 33 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔ اسی طرح ملک کے 76 لاکھ گھرانے غریب قرار پائے ہیں، جب کہ پرانی تعریف کے تحت ان کی تعداد صرف 30 لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ مزید 2 کروڑ لوگ ایسے ہیں، جو غربت کے قریب قریب ہیں اور کوئی بھی سانحہ انہیں خط غربت کے نیچے دھکیل سکتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو ملک میں غربت میں اضافے کا سبب پاکستانی نصف قومی دولت پر قابض ایک فیصد طبقہ ہے، جو قوم کی دولت سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہا ہے، جبکہ 99 فیصد شہریوں کی زندگی مشکل ہوچکی ہے۔ یہ طبقہ حکمرانی تو پاکستان میں کرتا ہے، لیکن ان کے کاروبار، ان کی دولت اور اولادیں بیرون ملک ہوتی ہیں، یہاں یہ لوگ صرف پاکستان کے عوام پر حکمرانی کرنے آتے ہیں۔ ملک میں غربت کی وجہ اسی قبیل کے لوگ ہیں، جو قوم کے پیسوں پر عیاشی کرتے ہیں اور ملک کو ٹیکس تک ادا نہیں کرتے، جو پاکستان کے قومی وسائل کو بے دردی کے ساتھ لوٹ کر قومی دولت کو بیرونی ملکوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ عوام سے ٹیکس وصول کرنے والے حکمران خود اپنی دولت کو بیرون ملک لگا کر ٹیکس ادا کرنے سے جان بچا رہے ہیں۔ حال ہی میں دو سو سے زاید پاکستانیوں کے نام پاناما لیکس میں آنے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ خود تو ٹیکس ادا نہیں کرتا، لیکن غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر ان کی آمدنی میں سے بھی ہڑپ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ حکومت میں اکثریت اسی قبیل کے لوگوں کی ہے، جو حکومت میں آکر مل جل کر اپنے مفادات کے لیے غریب کش اقدامات کرتے ہیں۔ ان کو صرف اور صرف اپنے خزانے بھرنے کی فکر ہوتی ہے۔ حکومت میں موجود لوگوں کو ملک میں غریب کے مسائل سے واقفیت ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی عام آدمی کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ لوگ عوام کے ووٹ سے حکومت میں تو آتے ہیں، لیکن عوام کے مسائل کے حل کے لیے ایوانوں میں قانون سازی نہیں کرتے، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بناتے ہیں۔ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے بھاری ٹیکسوں سے کچل کر غربت زدہ عوام کو مصیبت زدہ کردیا جاتا ہے اور ان کو خوراک، رہائش، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔اگر حکمران طبقہ عوام کی خدمت کرنے کے اپنے دعوﺅں میں سچا تا تو عوام کو کم از کم بنیادی سہولیات تو فراہم کرتا، لیکن حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہی ملک میں جہالت، بدامنی، بے روزگاری، غربت اور دیگر بہت سے مسائل ہیں۔ تعلیم پر بھی حکومت اس طرح توجہ نہیں دیتی جس طرح اس کا حق ہے۔ حالانکہ تعلیم نہ ہونے سے جہالت بڑھتی ہے اور جہالت غربت کا اہم سبب ہے۔ حکومت تعلیم پر بہت کم سرمایہ کاری کرتی ہے۔ کروڑوں شہری ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کام کاج کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اگر لوگ تعلیم یافتہ ہوجائیں اور ہنر سیکھ لیں تو وہ غربت سے باہر آسکتے ہیں۔ پاکستان میں غربت قدرتی نہیں، بلکہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہمارے حکمرانوں کی غلط انتقامی اور اقتصادی پالیسیوں نے غربت کو جنم دیاہے۔ پاکستان میں غیر منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام بھی غربت کا سبب ہے۔ اگر قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوتی اور عوام کا استحصال نہ کیا جاتا تو پاکستان کے شہری بھوک اور افلاس کا شکار نہ ہوتے۔ غیرمنصفانہ تقسیم نے ملک کو دلدل میں دھنسا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ لوگ بہت آرام دہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور انہیں زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہیں، جبکہ ملک کی اکثریت کو مناسب غذائی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ غریب انتہائی غریب ہیں اور امیربہت امیر ہوتا جارہا ہے۔ اسی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے غریب اور بے روزگار افراد اپنا پیٹ پالنے کے لیے جرائم کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں اور روز بروز جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، جس کا سبب حکومت کی ناقص پالیساں ہیں۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700860 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.