ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہا کی ہجرتیں
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہا
ڈاکٹر مشاہدرضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔ |
|
حبشہ کی طرف پہلی ہجرت
ابتدائی تین سال تک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے در پردہ تبلیغ فرمائی
۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کے حکم سے اعلانیہ دعوتِ
دین کا کام شروع کیا تو یہ کفار و مشرکین کو بہت گراں گذرا اور انھوں نے
مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانا اور تکلیف دینا شروع کردیا ۔
یوں تو حضرت ام سلمہ اورحضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہما کا تعلق عرب کے مشہور
و معروف اور بڑے قبیلے سے تھا۔ ان کے والدین کا مقام پورے عرب میں بڑا
اونچا تھا۔ لیکن جب انھوں نے اسلام قبول کرلیا تو ان کے رشتے داروں نے ان
سے تعلقات توڑ لیے اور انھیں طرح طرح سے اذیت پہنچانے لگے۔ ان پر ایسی ایسی
سختیاں کی گئیں کہ جن کے تصور سے دل گھبرا اٹھتا ہے۔ تاریخ و سیرت کی
کتابوں میں ایسے واقعات لکھے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے اسلام کے ان متوالوں پر
مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جاتے ویسے ویسے ان کی اسلام سے محبت اور ثابت قدمی
میں اضافہ ہوتا جاتا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان جاں نثاروں نے ہر
ظلم و ستم کو ہنس ہنس کر برداشت کیا۔
اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب المرجب کا مہینہ تھا۔ جب کہ کفار و مشرکین
کے ظلم و ستم عروج پا چکے تھے۔ آخر کار نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس بات کی اجازت عطا فرمادی کہ جو مکۂ مکرمہ چھوڑ کر جا ناچاہے حبشہ چلا
جائے کیوں کہ وہاں کا بادشاہ نجاشی بڑا انصاف پسند اور کشادہ قلب ہے۔ لہٰذا
گیارہ مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ اپنے وطن مکۂ مکرمہ
کو الوداع کہتے ہوئے حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔ اس قافلے کے امیر حضرت عثمان
بن مظعون رضی اللہ عنہ تھے۔ اسلام کی اِس سب سے پہلی ہجرت میں حضرت ابو
سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی حضرت ام سلمہ بنت ابو امیہ
رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔
جب مشرکینِ مکہ کو اس بات کا علم ہوا تو انھیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں حبشہ کے
ساتھ ان کے تجارتی تعلقات متاثر نہ ہوجائیں۔ان کا یہ خیال تھاکہ حبشہ کی
طرف ہجرت کرکے جانے والے مسلمانوں کی باتوں میں آکر بادشاہِ حبشہ نجاشی ان
سے تعلقات نہ توڑ لے۔ اس لیے انھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ حبشہ کے
بادشاہ نجاشی کے پاس اپنا ایک آدمی بھیجیں۔
چناں چہ انھوں نے کچھ سامان وغیرہ جمع کیا جو بہ طور ہدیہ بادشاہ کی خدمت
میں پیش کیا جانا تھا۔ پھر انھوں نے وہ تمام مال و اسباب دے کر عبداللہ بن
ربیعہ المخزومی اور عمر و بن العاص( یہ دونوں اُس وقت تک اسلام نہ لائے
تھے) کوحبشہ کی طرف روانہ کیا۔انھوں نے جاکر بادشاہ کی خدمت میںوہ تحفے
تحائف پیش کیے اور بتایا کہ ہم قریش کے سفیر ہیں۔ ہم آپ سے درخواست کرتے
ہیں کہ آپ کے پاس ہمارے خاندان کے کچھ لوگ آئے ہیں اورا نھوں نے آپ کی
پناہ لے رکھی ہے۔ انھوں نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر نیا دین (اسلام)
قبول کر رکھا ہے۔ آپ مہربانی کرکے انھیں ہمارے حوالے کردیں ۔ بادشاہ دراصل
خدا ترس اور نیک فطرت تھا وہ فوراً معاملہ بھانپ گیا اور صاف انکار کردیا۔
مشرکینِ مکہ کا وفد ناکام و نامراد لوٹا ۔ حبشہ میں مسلمان سکون و اطمینان
کی زندگی گزارنے لگے۔ اسی دوران حضرت ہند بنت عاتکہ( ام سلمہ) رضی اللہ
عنہااور عبداللہ بن عبدالاسد( ابو سلمہ) رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے
ایک بچہ عطا فرمایا جس کا نام ’’سلمہ‘‘ رکھا گیا۔ یہ بچہ ان دونوں میاں
بیوی کو اتنا پیارا تھا کہ اسی کے نام سے یہ دونوںتاریخ کے اوراق میں ’’ابو
سلمہ‘‘ اور ’’ام سلمہ‘‘ کی کنیت سے مشہور ہوئے اور ان کا اصل نام پس پشت
چلا گیا ۔
حبشہ میں مسلمانوںکو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی
مکمل آزادی تھی۔ ایک روز انھیں کہیں سے یہ خبر ملی کہ کفار و مشرکین نے
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرلی ہے اور وہ سب مسلمان ہوگئے ہیں۔
اس خبر کو سننے کے بعد مہاجرین میں یہ تڑپ اور ولولہ پیدا ہوا کہ وہ جلد سے
جلد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مکۂ مکرمہ حاضر ہوکر اپنے
محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرسکیں ۔
سب لوگ واپسی کی تیاری کرنے لگے کہ بنو کنانہ کا ایک شخص وہاں پہنچا اور اس
نے بتایا کہ تم لوگوں تک جو خبر پہنچی ہے وہ جھوٹ ہے مکہ کے کفار و مشرکین
اب بھی اپنی پرانی روش پر سختی سے قائم ہیں۔
یہ بتانے کے بعد بنو کنانہ کا وہ شخص چلا گیا تو مہاجرین سوچ میں پڑ گئے کہ
آخر سچائی کیا ہے؟ چناں چہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہیے۔جب یہ فیصلہ ہوگیا تو مکۂ
مکرمہ پہنچنے والا ہر شخص کسی نہ کسی قریشی سردار کی پناہ لے کر اپنے
آبائی وطن میں داخل ہوا۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے ماموں
ابوطالب نے پناہ دی لہٰذا وہ اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ
بغیر کسی رکاوٹ کے مکۂ مکرمہ پہنچ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے ۔
قبیلۂ بنو مخزوم کو جب اس بات کی خبر پہنچی کہ ابو طالب نے حضرت ام سلمہ
رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو اپنی پناہ میں
لے لیا ہے تو انھیں بہت غصہ آیا ۔ چناں چہ بنو مخزوم کے لوگ جمع ہوکر ابو
طالب کے پاس گئے اور کہا:’’ ہمارے آدمیوں سے آپ کا کیا واسطہ؟‘‘
’’کون سے آدمی؟‘‘ ابو طالب نے پوچھا۔
’’ابو سلمہ(رضی اللہ عنہ) اور اس کی بیوی ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) ۔‘‘
بنو مخزوم کے لوگوں نے کہا۔
اس پر ابو طالب نے کہا:’’ ابو سلمہ(رضی اللہ عنہ) میرا بھانجا ہے ، جب مَیں
اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ دے سکتا ہوں تو اسے کیوں
نہیں دے سکتا؟‘‘
اس موقع پر ابو طالب اور بنو مخزوم میں زبردست بحث و تکرار شروع ہوگئی قریب
تھا کہ جھگڑا ہوسکتا تھا۔ ابولہب جیسے کٹر دشمنِ اسلام کے دل میں اچانک
صلۂ رحمی کا جذبہ جاگ اٹھا ،اور وہ درمیان میں بول پڑا:’’ اے بنی مخزوم !
تم نے ابو طالب کے ساتھ بہت کچھ بحث و تکرار کرلی اور تم اس پر برابردباو
ڈال رہے ہو۔ اگر تم نے ان کو تنگ کرنا بند نہ کیا تو مَیں بھی ان کی حمایت
میں کھڑا ہوجاؤں گا۔‘‘
قبیلۂ بنو مخزوم کے لوگوں نے جب ابو لہب کے یہ سخت تیور دیکھے توگھبرا گئے
اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ :’’ اے ابو عتبہ! ہم تم کو ناراض نہیں
کرنا چاہتے۔‘‘
حبشہ کی طرف دوسری ہجرت
جزیرۃ العرب میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا ۔ اس کے ماننے والوں کی
تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا۔ کفار و مشرکین نے جب یہ دیکھا
تو ان کی دشمنی اور تعصب حد سے بڑھنے لگا ۔ انھوں نے مسلمانوں پراپنے ظلم و
ستم کی انتہا کردی۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسلمانوں
پر مکۂ مکرمہ میں چین و سکون سے رہنا دوبھر ہوتا جارہا ہے تو آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عطافرمادی ۔ یہ
اعلانِ نبوت کے چھٹے سال کے شروعات کی بات ہے۔ کفار و مشرکین کو جب اس بات
کی خبر ملی تو انھوں نے بہت کوشش کی کہ مسلمان مکۂ مکرمہ سے کسی بھی صورت
ہجرت نہ کرسکیں ۔ انھوں نے مکہ سے نکلنے والے تمام راستوں پر سخت پہرے بٹھا
دیے لیکن ان سب کے باوجود ۸۳ مرد اور ۲۰ عورتیں مکہ سے نکلنے میں کامیاب
ہوگئے اور حبشہ پہنچ کر سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے۔ جہاں انھیں
ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ حبشہ کی طرف ہونے والی اس دوسری ہجرت میں بھی
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
شامل تھیں جنھوں نے اسلام کے لیے دوبارہ اپنا آبائی وطن چھوڑا۔
حبشہ کی طرف ہونے والی اس دوسری ہجرت نے پہلی ہجرت کی بہ نسبت مکہ کے لوگوں
پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کے کٹر دشمنوں کے
بیٹے بیٹیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور انھیں ہی وہ لوگ طرح طرح کی
اذیتیں دے رہے تھے۔ وہی مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ یہ ایسے تھے
کہ ان کی جدائی انھیں برداشت نہ ہوسکی۔ مکہ کے مشرکین پریشان ہو اٹھے کہ
آخراسلام میں ایسی کون سی بات ہے کہ مسلمان ہوجانے کے بعد وہ اپنے ماں باپ
، بہن بھائی، مال ودولت اور وطن تک کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اسلام نہیں
چھوڑتے ؟
جب ان کفار و مشرکین نے دیکھا کہ ان کی کوئی چال کامیاب نہیں ہورہی ہے تو
انھوں نے دوبارہ بادشاہ حبشہ نجاشی کی طرف عمرو بن العاص اور عبداللہ بن
ربیعہ کو تحفے تحائف دے کر روانہ کیا۔تاکہ وہ نجاشی کو کسی نہ کسی طرح اس
بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ مہاجرین کو واپس کردے۔
کفارِ قریش کا یہ وفد شاہِ حبشہ کے دربار میں پہنچا اور مسلمانوں کے خلاف
ایسی باتیں کیں جو مسلمانوں میں پائی نہیں جاتی تھیں یہ باتیں سن کر بادشاہ
نے سخت غصے میں کہا:’’ جن لوگوں نے اپنا ملک چھوڑ کر میرے ملک اور مجھ پر
بھروسہ کیا ہے ۔ مَیں ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتا ۔ تم لوگ کل آنا اس
معاملے میں فیصلہ کردیا جائے گا۔‘‘
دوسرے دن بادشاہِ نجاشی نے تمام مسلمانوں کو دربار میں بلایا۔ وہاں کفارِ
قریش کے سفیر عمروبن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ بھی موجود تھے۔ حضرت ام
سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بادشاہ نے مسلمانوں سے کہا:
’’ یہ تم نے کیا کردیا کہ اپنی قوم کا دین چھوڑ دیااور میرے دین کو بھی
قبول نہ کیااور نہ ہی دنیا کے کسی دین کو اختیار کیا ۔ آخر تمہارا دین کیا
ہے؟‘‘
بادشاہِ حبشہ نجاشی کی یہ بات سن کر حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے فوراً
جواب دیا:
’’ اے بادشاہ! ہم ہر طرح کی برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم
میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب ،سچائی ، امانت داری اور پاک دامنی کے ہم
گواہ تھے، اس نے ہمیں ایک معبوداللہ کی طرف بلایا اور ہم نے اس کی بات مان
لی کہ جس کی پوری زندگی پاک دامنی کا نمونہ ہو اور جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا
ہو اس نے ہمیں برائیوں، غلط کاموںاور بت پرستی سے روکا۔ نیکیوں کی نصیحت کی
اور سیدھا راستا دکھایا تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔‘‘
اِس پر بادشاہ نے کہا :’’ تمہارے نبی پر جو کلام اترا ہے اس میں سے کچھ
سناؤ۔‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ
نے سورۂ مریم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں جس سے بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ ‘‘
عمر وبن العاص کا رویہ بڑا سخت تھالیکن عبداللہ بن ربیعہ کا رویہ ہمارے
معاملے میں کچھ نرم تھا۔ عمرو بن العاص نے بادشاہ سے کہا:’’اے بادشاہ !
ذرامکہ کے ان مہاجرین سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھیں ۔ یہ
اُن کو اللہ کا بندہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
بادشاہ نے جب دریافت کیا تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک
کلمہ اور روح ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا فرمایا تھا۔‘‘
یہ جواب سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایااور کہا:
’’ اللہ کی قسم! جو تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے ایک تنکے کے
برابربھی زیادہ نہیں ۔‘‘
اس کے بعد بادشاہِ حبشہ نجاشی نے حکم دیا کہ:’’ مکہ کے سفیروں کے تحفے واپس
کردئیے جائیں ، مجھے ان کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘
اس بار بھی مکہ کے کفار و مشرکین کو منہ کی کھانی پڑی اور اُن کے سفیروں کو
ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑا ۔ حبشہ میں مسلمانوں نے اپنے اعلیٰ ترین
اَخلاق وکردار اور نیک عادات و اَطوار کا ایسا نقش وہاں کے لوگوں پر چھوڑا
کہ حبشہ کی عوام اور حکومت کے کارندے اسلام میں ایک خاص قسم کی کشش رکھنے
لگے۔ لہٰذا حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد جو تیس افراد پر مشتمل تھا مکۂ
مکرمہ آیا۔
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وفد کے لوگوں نے ملاقات کی ۔آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سوالات کیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن
کے تشفی بخش جوابات عنایت فرمائے۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے
قرآنِ پاک کی چند آیات انھیں سنائیں تو وہ رونے لگے اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی تصدیق کی۔
مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت
مکۂ مکرمہ کے کفار و مشرکین کے دلوں میں اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی
مقبولیت سے تعصب و عنادکا لاواپک رہا تھا۔ وہ مسلمانوں کو طرح طرح پریشان
کرتے ، اذیتیں دیتے، ظلم و ستم ڈھاتے اور ستاتے۔ کفار و مشرکین کی ان حرکات
کے باوجود اسلام کا نور وادیِ مکہ سے نکل کر اطراف و جوانب کے لوگوں کے
دلوں کو بھی چمکا نے لگا۔ مکۂ مکرمہ کے قریب قبیلۂ دوس کی بستی تھی جہاں
ایک ناقابل تسخیر اور مضبوط قلعہ واقع تھا وہاں کے سردار طفیل بن عمرو نے
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم ہجرت فرماکر یہاں آجائیں لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار
فرمادیا اور اس سلسلہ میں اللہ رب العزت کے حکم کا انتظار فرمانے لگے۔
آخر کار اعلانِ نبوت کا تیرہواں سال تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنے نام لیواؤں کو مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔ چناں
چہ مسلمانوں نے مدینے کی طرف ہجرت شروع کی۔ سب سے پہلے حضرت ام سلمہ رضی
اللہ عنہاکے شوہر حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ اور حضرت عامر بن
ربیعہ رضی اللہ عنہ ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا
مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کا واقعہ بڑا دردناک ہے۔ خودحضرت ام سلمہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’ جب حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا
ارادہ فرمایا تو اونٹ پر کجاوہ کس کر مجھے اور سلمہ رضی اللہ عنہ کو اونٹ
پر بٹھا دیا اور اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتے رہے جب میرے میکے والوں
یعنی قبیلہ بنو مغیرہ کو ہمارے روانہ ہونے کی خبر ہوئی تو انھوں نے حضرت
ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنے بارے میں خود مختار ہو سکتے ہو
مگر ہم اپنی بیٹی کو تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جانے دیں گے۔‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ :’’یہ سُن کر حضرت ابو سلمہ رضی
اللہ عنہ نے کہا کہ :
’’ام سلمہ میری بیوی ہے مَیں اسے لے کر جہاں چاہوں جا سکتا ہوں ۔‘‘
اس پر قبیلے والوں نے کہا کہ :’’یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ام سلمہ (رضی اللہ
عنہا)تمہارے ساتھ ہرگز پرگز نہیں جائے گی۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت ابو سلمہ رضی
اللہ عنہ کے ہاتھوں سے اونٹ کی نکیل چھین لی اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ
عنہا کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے جاتے جاتے اپنی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ
عنہا سے فرمایا کہ :’’ ام سلمہ ! اسلام پر سختی سے ڈٹے رہنا۔‘‘ پھر چند
نصیحتیں کیں۔
اپنے شوہر کی باتیں سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ:’’ آپ
مطمئن رہیے جان قربان کردوں گی مگر اسلام کو مَیں کسی حال میں نہیں
چھوڑوںگی۔ ‘‘
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ مدینۂ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ اسی دوران
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان والے بھی اس جگہ پہنچ گئے ۔ جب انھیں
پورا ماجرا معلوم ہوا تو وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والوں سے
کہنے لگے کہ :’’ جب تم نے اپنی بیٹی کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو اب ہم
اپنے بچّے سلمہ کو کیوں اُس کے پاس رہنے دیں۔‘‘
چناں چہ انھوں نے آگے بڑھ کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بچے کو بھی
چھین لیا۔ بچّے کو زبردستی چھیننے میں اس کا ہاتھ اتر گیا اور وہ تیز تیز
رونے لگا۔ لیکن ان ظالموں کو اس کا کوئی احساس نہ تھا کہ بچّے اور ماں پر
گیا گذر رہی ہے۔ مختصر یہ کہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے خاندان والے
سلمہ کو چھین کر لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اُن کے خاندان
والے لے گئے اورشوہر مدینے کی طرف ہجرت کر گئے۔ آپ رضی اللہ عنہا سے بیک
وقت شوہر اور بچّے کو چھین لیا گیا لیکن کیا مجال تھی کہ اسلام کی اس مقدس
خاتون کے ایمان میں ذرّہ بھر بھی کمزوری آئی ہو ۔ صبر و استقامت کا مظاہرہ
کرتے ہوئے انھوں نے ایک مثال قائم کردی ۔ اصل میں انھیں اللہ رب العزت پر
پورا بھروسہ تھا کہ وہ ان قربانیوں کو ضائع نہیں کرے گا بل کہ بہتر صلہ عطا
فرمائے گا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ظالموں نے اُن کی ساری کائنات چھین لی تھی ۔
ان کے دل پر گہرے زخم لگائے تھے۔ انھیں اپنے شوہر اور بچے کی جدائی کا غم
ستاتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ : ’’ مجھے اس بات کا اس قدر شدید صدمہ پہنچا کہ
مَیں روزانہ آبادی سے باہر جاتی اور شام تک اس مقام پر بیٹھ کر روتی جہاں
مَیں نے اپنے شوہر کو مدینے کی طرف رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی طرح ایک
سال کا عرصہ گذر گیا نہ شوہر کے پاس جاسکی نہ بچّہ ہی مل سکا۔ ایک روز میرے
ایک چچا زاد بھائی نے میری حالت دیکھ کر خاندان والوں سے کہا کہ تم اس بے
کس پررحم کیوں نہیں کرتے؟ اسے کیوں نہیں چھوڑ دیتے اور اس کو بچّے اور شوہر
سے دور کیوں رکھا ہے؟ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ بنی مغیرہ نے اپنے اُس آدمی
کی سفارش پر مجھے اپنے شوہر (حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ) کے پاس جانے کی
اجازت دے دی۔ جب اس بات کی خبر بچّہ کی دادھیال والوں کو لگی تو انھوں نے
بچّہ بھی مجھے دے دیا۔ ‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو جب ان کا بچہ مل گیا تو انھوں نے تنِ تنہا
مدینے کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ کیا اور ایک اونٹ تیار کرکے بچّے کو ساتھ
لیا اور اکیلے سوار ہوکر مدینۂ منورہ کے لیے نکل پڑیں۔ کوئی مرد ساتھ نہ
تھا۔ تین چار میل چلی ہوں گی کہ بنی عبدالدار کے ایک شخص جن کے پاس خانۂ
کعبہ کی چابی رہا کرتی تھی ’’عثمان بن طلحہ‘‘ سے ملاقات ہوئی۔ جو اب تک
مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن نہایت رحم دل اور نیک تھے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ عثمان بن طلحہ نے مجھ سے
پوچھا کہاں جاتی ہو؟‘‘--مَیں نے کہا:’’ اپنے شوہر کے پاس مدینۂ منورہ
جارہی ہوں۔‘‘ انھوں نے دوبارہ سوال کیا : ’’کوئی ساتھ بھی ہے؟‘‘مَیں نے کہا
:’’ اللہ تعالیٰ ہے اور یہ بچّہ ہے۔‘‘
یہ سُن کر عثمان بن طلحہ نے میرے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور آگے آگے چلنے
لگے۔خدا کی قسم! مَیں نے عثمان جیسا شریف آدمی نہیں دیکھا ۔ جب منزل پر
اترنا ہوتا تو وہ اونٹ بٹھا کر کسی درخت کی آڑ میں کھڑے ہوجاتے اور پھر
اونٹ کو باندھ کر مجھ سے دور کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتے اور جب کوچ کرنے کا
وقت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ کس کر میرے پاس لا کر بٹھا دیتے اور خود وہاں سے
ہٹ جاتے۔ جب مَیں سوار ہوجاتی تو اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل دیتے۔ اسی
طرح وہ مجھے مدینۂ منورہ تک لے گئے جب ان کی نظر بنی عمر وبن عوف کی
آبادی پر پڑی جو قبا میں تھی تو انھوں نے کہا کہ جاؤتمہار اشوہر یہیں ہے۔
اس کے بعد وہ سلام کرکے رخصت ہوگئے۔ |
|