ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہا کا نام و نسب ، ولادت ، قبولِ اسلام اور پہلا نکاح
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Malegaon)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہا
ڈاکٹر مشاہدرضوی کی کتاب سے ۔۔۔۔۔ |
|
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب
بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہ
رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ان کو اسی گھر میں ٹھہرایا جس میں حضرت
زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا رہا کرتی تھیں۔ ان کا نام ہند تھا ۔ نسب یوں
ہے: ’’ ہند بنت ابو امیہ ‘‘ ۔ ان کا تعلق قریش کے خاندان مخزوم سے تھا۔ ان
کی والدہ کانام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن عبدالمطلب تھا۔ جو بنو فراس سے
تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو امیہ کی سخاوت و
فیاضی بڑی مشہور تھی۔ جب بھی وہ کسی سفر میں جاتے تو اپنے تمام ساتھیوں کی
کفالت خود کرتے ۔ اسی لیے ان کا لقب ’’زادالراکب‘‘ یعنی ـ’’مسافروں کے سفر
کا سامان‘‘ پڑ گیا تھا۔
آپ کی ولادت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے نو سال قبل عام
الفیل میں ہوئی۔ آپ کی پرورش ابو امیہ جیسے سخی باپ کی آغوشِ تربیت میں
بڑے ناز و نعم سے ہوئی۔ آپ شادی تک نہایت آرام و آسایش کی زندگی بسر
کرتی رہیں۔
قبولِ اسلام اور پہلا نکاح
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ان مبارک ہستیوں میں سے ہیں
جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا۔ ان کا پہلا نکاح ان کے
چچا زاد بھائی عبداللہ بن عبدالاسد سے ہوا تھا جو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے پھوپھی زاد اوررضاعی بھائی تھے۔ان سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا
کے چار بچّے ہوئے۔جن کے نام یوں ہیں:’’ سلمہ ، عمر، رقیہ اور زینب‘‘ ۔ یہ
دونوں میاں بیوی اسلام قبو ل کرنے میں سابقین اولین میں سے تھے ۔ان کے بارے
میں لکھا ہے کہ آپ دس شخصوں کے بعد مسلمان ہوئے یعنی آپ گیارہویں مسلمان
تھے۔ حضرت ام سلمہ اور ان کے شوہر عبداللہ بن عبدالاسد کے اسلام قبول کرنے
کا واقعہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
اللہ جل شانہٗ نے جب اپنے محبوب نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا
میں مبعوث فرمایا تو اس وقت عرب کی حالت بڑی خراب اور خستہ تھی۔ ہر طرف کفر
و شرک کی تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں۔ گناہوں کا بازار گرم تھا۔ ایک معبودِ
برحق کی بجاے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے نہ جانے کتنے باطل خداؤں کی لوگ
عبادت کرتے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کردینا لوگ بہادری کی علامت تصور کرتے
تھے۔ شراب نوشی ، قمار بازی اور طرح طرح کی برائیوں میں عرب کا پورا معاشرہ
جکڑا ہوا تھا ۔
ایسے تاریک ماحول میں اللہ جل شانہٗ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
اسلام و ایمان کی روشنی بکھیرنے کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ کفر وشرک کی
ظلمتوں میں وحدانیت و رسالت کا نور لوگوں کے دلوں کو روشن و منور کردے ۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعدجہاں کفر و شرک کے
ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا وہیں نیک اور سعید فطرت انسانوں نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے پیغام توحید و رسالت کو دل و جان سے قبول کرلیا اور اپنے آپ
کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس طرح دے دیا کہ اسلام کے
لیے انھوں نے ہر ستم گوارا کرلیا یہاں تک کہ اسلام کے لیے ان میں سے سیکڑوں
نیک انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی قربان کردیا۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ابھی صرف دس افراد نے ہی قبول کیا
تھا ۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم دارِاَرقم میں تشریف فرماتھے اور چند
ایک دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔ اسی دوران عبداللہ بن
عبدالاسد جو زیادہ تر ابو سلمہ کے نام سے مشہور تھے اور نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے حاضر ہوئے ۔ ان کے ساتھ ان کی
بیوی ہند (ام سلمہ) بھی تھیں ۔
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی کو ان
کی بیوی کے ساتھ دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور فرمایا : ’’ کیسے آئے ہو؟ ‘‘
اور پھر محبت سے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے قرآنِ مجید پڑھ کر سنایا۔
قرآن مجیدسننے کے بعدحضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد نے کہا :’’ بھائی
کے رشتے سے میرا بھی یہ حق بنتا ہے کہ مَیں بھی اس روشنی سے اپنی روح کو
منور کروں جس سے دوسرے فیض حاصل کررہے ہیں۔ ‘‘ جب یہ الفاظ نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے سنے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک چہرہ
خوشی سے تمتما اٹھا ، حضرت ابو سلمہ نے دوبارہ عرض کی: ’’ ہم دونوں میاں
بیوی کو مسلمان کرکے اپنی غلامی میں داخل کرلیجیے۔‘‘ اس طرح حضرت ام سلمہ
رضی اللہ عنہا اور ان کے شوہر نے اسلام قبول کیا اور ایسی سعادت حاصل کی کہ
یہ دونوں میاں بیوی دس کے بعد گیارہویں اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔ |
|