اس بار ’’مٹی پاؤ‘‘ کمیشن نہیں چلے گا
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
ہم آئے روز ایک نئے ایشو کے عادی ہوچکے
ہیں،جس روزکوئی نئی خبر ،نیا ایشو نہ ہو ،ہماری طبیعت بے زار ہونے لگتی
ہے۔اب تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بریکنگ نیوز بھی اپنی اہمیت کھونے لگی ہیں۔
ان رویوں کی تبدیلی کے ذمہ دارہمارے سیاستدان اور حکمران ہیں۔ہم سب اچھاہے
کی تکرار پریقین کرکے زندگی گزارنے لگے ہیں ، ہم خوابوں کی دنیا میں رہنے
والے لوگ بن گئے ہیں،جھوٹ اورفریب ہماری غذا بن چکا ہے،دوسروں سے اچھائی کی
امید رکھتے ہیں مگر خود اپنے منفی رویوں کو درست سمجھتے ہیں۔ہمیں اپنے ملک
وقوم سے کوئی لگاؤ نہیں، صرف اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بے
محابا انجان منزلوں کی جانب بس بھاگے ہی چلے جارہے ہیں،ان سب غیر مہذب
رویوں کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ ہم ترقی کریں ،ہماری آنے والی نسلوں کا
مستقبل روشن ہو، لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے ہم ان کے لئے کیا بو رہے ہیں جو
ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو کاٹنا پڑ ے گا ؟ہم آئندہ نسلوں کے لئے
کانٹوں کے سوا کچھ نہیں بو رہے اور یقیناً وہ یہی کاٹیں گی۔ہم ملک و قوم کی
ترقی کے لئے کوشاں ہونے کی بجائے،ایسے ایشوز پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جن سے
ہمارا کچھ ذاتی فائدہ وابستہ ہو ۔اپنے مفادات کے حصول اوردوسروں کے ایجنڈوں
کو کامیاب کروانے کے لئے عوام کو بیوقوف بناکران کے مسائل اور پریشانیوں کا
فائدہ اٹھایا جا تا ہے۔
ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی نئے معاملے کو بے جا طول دے کرنہ صرف دم توڑتی
سیاست کو نئی زندگی دی جاتی ہے، بلکہ بہتر ہوتے ملکی حالات کوبھی درہم برہم
کر دیاجاتا ہے، یہی روش عرصے سے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے۔آج کل پھر ایک
ایسیہی ایشو کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے ،جو عرصہ دراز سے ہر کسی کو
معلوم ہے ۔اس ملک میں کون سا سرمایہ کا ر یا وڈیرا کرپشن سے پاک ہے۔تحریک
انصاف،پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم وغیرہ، یہ سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہکرپشن ضرور ہے، اسیکسی حد تک حل کیا جا سکتا
تھا، مگر یہ تمام ایک ہی حمام کے نہائے ہوئے ہیں ،کوئی ایسا نہیں جو پاک
صاف ہو ، ہمیں ملک کے وسیع تر مفاد میں ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت تھی
جس سے بجائے اس کے کہ انتشار کی فضا پیدا ہو ،افہام و تفہیم سے مل بیٹھ کر
تمام مسائل حل کئے جائیں، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نے کچھ عرصے بعد
ایسا کرنا ہوتا ہے کہ جس سے ہماری سیاست چمکے اور حکمرانوں کے لئے مشکلات
بھی پیداہوں، ملک اور عوام کے مسائل بھاڑ میں جائیں۔
اس بار بھی یہی ہوا، پہلے الیکشن میں کامیابی کی مبارک باد دی گئی ، پھر
الیکشن میں دھاندلی کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔مہینوں تک دھرنے کا تماشا
لگائے رکھا،پھر اسی جوڈیشل کمیشن پر مان گئے،جس سے انکار کرتے تھے۔موجودہ
حالات میں جہاں تحریک انصاف کو اپنی پارٹی کے اندرونی معاملات کو سنبھالنا
مشکل ہو رہا تھا ،وہاں پیپلز پارٹی کے کرپشن کے تمام معاملات سامنے آ نے کے
باعثسندھ کی حکومت کو چلانا مشکل ہورہا تھا،ایم کیو ایم کاویسے ہی برا
وقتآیا ہوا ہے، ایسے وقت میں پاناما لیکس کی خبریں انتمام سیاسی پارٹیوں کے
لئے آب حیات کا کام کرگئیہیں۔ان خبروں سے دنیا بھر میں ایک تہلکہ سا مچ
گیاہے۔ ان کاغذات کے سامنے آنے کے بعد پہلا معاملہ آئس لینڈ کے وزیرِ اعظم
سگمنڈر ڈیوسکاسامنے آیا،جن کوبالآخر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا
پڑ گیا ۔اس کے بعداکثر یورپی قیادتیں بھی ایک طرح کے دباؤ کے حصار میں نظر
آ رہی ہیں۔ اس ضمن میں ہندوستانی سپریم کورٹ نے بھی دو ججوں پر مشتمل ایک
ٹیم پاناما لیکس پر تحقیقات کے لئے بناد ی ہے۔جو 25 ، اپریل کو اس ضمن میں
اپنی رپورٹ پیش کریے گی۔جرمنی نے آف شور کمپنیوں کے خلاف نئے قوانین بنانے
کا اعلان کر دیا ہے۔دوسری جانب انڈو نیشیاکی حکومت نے پاناما لیکس کے
کاغذات کا جائز ہ لینے کے بعد کچھ کرنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔
پاکستان میں بھی سیاسی پارٹیاں حرکت میں آئیں اور انہوں نے اپنے مفادات کی
خاطر یک جان ہو کر حکومت کو ’’ٹف ٹائم ‘‘ دینے کا تہیہ کر لیا ہے۔خودکرپشن
میں لتھڑے یہ لوگ میاں نواز شریف کی حکومت اور ان کے خاندان پر الزامات
لگانے کا ایسا نادر موقعہ ہاتھ سیجانے نہیں دینا چاہتے،ان کی صرف ایک ہی
خواہش ہے کہ اور کوئی بھی آ جائے، مگر میاں نواز شریف اقتدار چھوڑ دیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم ہر کسی کا احتساب کرنا چاہئے ، اگر ہم
نیمستقبل میں درست سمت میں گامزن ہوناہے تو احتساب کے عمل کو مستقل بنیادوں
پر استوارکرنا ہو گا،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تمام معاملات کو پسِ
پشت ڈال کر صرف میاں محمد نواز شریف کو گھربھیجنے کی ضد کو ہی اوڑھنا
بجھونا بنا لیا جائے۔وزیراعظم نواز شریف نے خود کو اور اپنے خاندان کو
احتساب کے لئے پیش کر کے ایک اچھی مثال قائم کر دی ہے ، سپریم کورٹ کے سابق
جسٹس کے زیرِنگرانی ایک کمیشن بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے۔اس کمیشن کے
سربراہ سابق جسٹس سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ کمیشن کے دیگر دو
ارکان کا خود ہی تعین کریں۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے الزامات لگانے والوں کو کمیشن کے روبرو ثبوت پیش
کرنے کا بھی کہا ہے۔ یہ ایساموقعہ ہے کہ الزام لگانے والوں کوثبوت پیش کرنے
اور نوازشریف کواپنی جانب سے حقائق پیش کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔اگر وزیر
اعظم اور اْن کے صاحب زادے اور صاحب زادی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، تو
انہیں قانون کے مطابق سزابھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ پاناما لیکس کے
پیچھے فنڈنگ کا پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے۔تحریک انصاف کی گرتے ہوئے گراف
کو اس وقت سہارا دینے کا موقعہ شائد پانامالیکس نے فراہم کر دیا ہے۔یہی وجہ
ہے کہ عمران خان نے ایک نئے دھرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ۔اس بار ڈی
چوک کی بجائے رائے ونڈ’’ جشن منانے‘‘ کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔گزشتہ
دھرنے کی ناکامی کے بعد نئے دھرنے کی پلاننگ اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے
کہ سیاسی طریقے سے تو شائد ا اقتدار تک پہنچنا مشکل ہے، ملک میں بد نظمی
پیدا کر کے اپنا مقصد پورا کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان کو سیاست میں آئے ہوئے
بہت وقت ہو چکا ہے،انہیں اب یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ سیاست بڑے صبر و تحمل
کا نام ہے،اس میں وقت اور بہتر حالات کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔شارٹ کٹ
ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔
موجودہ حالات میں میاں نواز شریف نے کمیشن تشکیل دے کر اچھا قدم اٹھایا ،
جو مکمل آزادی کے ساتھ چار سے آٹھ ہفتوں میں اپنی سفارشات پیش کر دے گا۔اس
کمیشن کو لا محدود اختیارات بھی حاصل ہونے چائیں، ایف آئی اے اور نیب سے
مدد لینے کے ساتھ ساتھ دیگر تحقیقاتی اداروں سے بھی مدد لینے کا اختیار
حاصل ہو۔یہ کمیشن ملک کے اندر اور باہر کسی بھی شخص کو بلانے میں با اختیار
ہوگا۔اس کے باوجود اگر اپوزیشن مطمئن نہیں ہوتی تو انہیں دھرنوں کی سیاست
کا موقع دینے کی بجائے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو درخواست کردینی چاہئے تاکہ
انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں اوردھرنوں کی سیاست کو ختم کیا جا سکے۔ملک کے
حالات تو اس بات کے شدت سے متقاضی ہیں کہ نہ حکمران بلکہ اپوزیشن جماعتیں
بھی ملک کی بہتری اور ترقی کے لئے اپنا ایک ایک لمحہ وقف کر دیں۔اس کے
علاوہ احتساب کے عمل کو بھی بہتر کرنے کے لئے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے
تاکہ آئندہ کسی منتخب وزیر اعظم کو دھرنوں کے ذریعے بلیک میل کر کے اپنا
مقصد پورا کرنے کی خواہشات جنم نہ لے سکیں ۔تمام اپوزیشن پارٹیوں کو حکومت
کے ساتھ مل کر ملکی مفاد میں بہتر لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے ۔ہمارے
چاروں طرف دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے ،جو ہر لمحیملک توڑ نے کی سازش پر بھی
عمل پیرا ہے۔ بیرونی طاقتوں اور سازشوں کا مقابلہ کر نے کے لئے ہم سب کو
متحد ہوکر سوچنا ہو گا۔ حکمرانوں پر زیادہ ذمہ داری آئد ہوتی ہے ۔ اگر وہ
کسی کرپشن میں ملوث نہیں ہیں تو مٹی پاؤ انکوئری کمیشن بنانے کی بجائے
سپریم کورٹ کی نگرانی میں جوڈیشل کمیشن بناکر انصاف کے تمام تقاضے پورے
کرنے کریں۔یہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں ،اگر ہم نے اس بار بھی روایت
کو دہراتے ہوئے دیر کردی تواس بار سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا ۔ |
|