اخلاقیات کمیٹی !
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
ناممکن نہیں، نصف ہزار کے قریب ایوان
ِ زیریں میں سے اخلاقیات کمیٹی کے لئے دو چار معزز ارکان مل ہی جائیں گے،
اگر اس میں ایوانِ بالا کو بھی شامل کرلیا جائے تو یقینی طور پر بہت سے
ایسے بہتر لوگ دستیاب ہوجائیں گے جو اخلاقیات کمیٹی کے ممبر بننے کے مستحق
ہوں گے۔ اس اخلاقیات کمیٹی کی تجویز وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان
نے دی ہے۔ ہوا یوں کہ وہ پاناما لیکس کی رپورٹ کے بعد اپوزیشن کی باتیں سن
سن کر اس قدر تنگ آئے کہ انہوں نے الزامات کی تردید کے ساتھ ساتھ اپوزیشن
کے بعض لوگوں پر بھی تنقید کی، اور انہیں دیگر باتوں کے ساتھ یہ مشورہ بھی
دیا کہ وہ زیادہ الزامات لگانے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ یہ
معلوم نہیں ہوسکا کہ اپوزیشن نے اس مشورے پر عمل کیا ہے یا نہیں، مگر
چوہدری صاحب کی یہ تجویز بہت اچھی ہے کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جو تمام
ارکان کی اخلاقیات کا جائزہ لے، تمام ارکان اپنے اثاثے ظاہر کریں۔اس سلسلہ
میں انہوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ خود کو احتساب کے
لئے سب سے پہلے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔
چوہدری صاحب کی اس تجویز پر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کے سب
سے اہم ادارے کے لوگوں کو اخلاقیات سکھانے کے لئے کمیٹی بنائی جائے گی تو
پوری قوم کا عالم کیا ہوگا؟ مگر حقیقت یہی ہے کہ اخلاقیات کی ضرورت ہمارے
قانون سازوں کو بھی ہے، دراصل ہمارے منتخب نمائندے عوام کا عکس ہی تو ہوتے
ہیں، جیسے عوام ہونگے ویسا ہی نمائندہ منتخب کریں گے۔ اخلاقیات میں کیا کچھ
ہوگا؟ اس کا ذکر چوہدری صاحب نے نہیں کیا ، تاہم اتنا مطالبہ کیا ہے کہ
تمام نمائندے اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ کتنی بے بسی کہ پاکستان بھر سے چند سو
لوگ جن کو احتساب وغیرہ کی کئی بھٹیوں سے گزر کر آگے آنا پڑتا ہے، الیکشن
کمیشن کی چھان بین بھی ہوتی ہے، مگر عجیب بات ہے کہ منتخب ہوجانے کے بعد
معلوم ہوتا ہے کہ فلاں صاحب نے اپنے اثاثے چھپائے تھے، جس کی وجہ سے ان کی
رکنیت معطل یا ختم کردی گئی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو الیکشن کمیشن نے کونسی
چھان بین کی، اور مخالفین نے کیا اعتراضات اٹھائے؟ منتخب نمائندوں کے بارے
میں ایک لفظ ’امین‘ کا بھی استعمال ہوتا ہے، گویا جس نے جھوٹ بولا وہ امین
نہیں ہوسکتا۔ مگر بدقسمتی سے اپنی پارلیمنٹ میں اثاثے چھپانے اور اسی قسم
کی جعل سازیوں میں بے شمار لوگ ملوث پائے جاتے ہیں۔ کسی کی تعلیمی اسناد
جعلی ہیں تو کسی نے الیکشن کے اخراجات کو دوسرا رنگ دے کر خود کے لئے جائز
قرار دے لیا۔ کوئی بے کار، بے گھر اور بے در قرار پایا تو کوئی اپنی بیوی
یا دیگر لوگوں کے گھروں میں رہتے اور دوسروں کی ہی سواریاں استعمال کرتے
ہیں۔
بات صرف اثاثوں کے چھپانے تک ہی محدود نہیں، یہ لوگ اسمبلیوں میں نہ جاکر،
یا بہت زیادہ چھٹیاں کرکے بھی غیر اخلاقی کام کا ارتکاب کرتے ہیں، اخلاقیات
کا تقاضا ہے کہ قوم نے آپ کو ہزاروں ووٹ دے کر منتخب کیا، لاکھوں روپے
الیکشن پر اجاڑے گئے، حکومت معزز ممبران کو تنخواہ دیتی اور پارلیمنٹ کے
اجلاسوں پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے۔ ایسے میں کوئی صاحب اگر تشریف نہیں
لاتے، یا پھر آ تو جاتے ہیں، مگر اپنی زبان سے ایک جملہ بھی ادا نہیں
فرماتے تو یہ بھی غیر اخلاقی اور غیرقانونی عمل ہے۔ یہ لوگ چونکہ بہت حد تک
بااختیار ہوتے ہیں، اس لئے یہ اپنے اختیار کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں،
کمیشن مافیا کا حصہ بھی بنتے ہیں اور جہاں تک بن پڑے اقرباپروری سے بھی کام
لیتے ہیں۔اخلاقیات کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے کہ پارلیمنٹ لاجز میں ان
معززین کی سرگرمیوں پر جو مخالفین آواز اٹھاتے رہتے ہیں، ان کی کیا حیثیت
ہے؟ آیا ان کے الزامات میں کچھ جان ہے، یا پھر اپنے معزز ممبران کی اخلاقی
حیثیت بہت مضبوط اور مستحکم ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ ایسی کمیٹی کبھی تشکیل
نہیں پاسکے گی، کیونکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی کوئی نہیں مارتا۔ مگر ایسا ہونا
ضروری ہے، کیونکہ آخر کب وقت آئے گا کہ دیانتدار قیادت ہی ملک کی باگ ڈور
سنبھالے ، ملک کو لٹیروں اور اسی قسم کے مافیاؤں سے نجات ملے۔ تمام تر
خواہشات اور اعلانات وغیرہ کے باوجود یہ کمیٹی نہیں بنے گی، اول تو اس
تجویز کو زیرغور ہی نہیں لایا جائے گا، بصورت دیگر اس پر عمل کی نوبت نہیں
آئے گی،یہی ہماری بدقسمتی ہے۔ایسی تجویز ایک اہم حکومتی وزیر کی طرف سے آنا
مزید خوش آئند ہے۔ |
|