ایک شخص نے دوسرے کو چیخ کر کہا وہ دیکھو
کتا تمہارا کان لے کر جارہاہے ۔ پہلے شخص نے بغیر دیکھے ہی اس کتے کے پیچھے
دوڑ لگا دی ۔ جب کتا ہاتھ نہ آیا تو دیکھا کہ کان تو اپنی جگہ موجود ہے ۔
تب دوڑنے والے شخص کو اپنی غلطی کااحساس ہوا۔ یہی عالم ہمارے ملک کا ہے ۔کبھی
وکی لیکس تو کبھی پانامہ لیکس پاکستانی سیاست میں طوفان برپا کرتی ہے ۔ بات
شروع کرنے سے پہلے یہ بھی بتادوں کہ پاکستان میں عمران خان جیسے بے شمار
لوگ ایسے ہیں جو اپنی تیزی سے کم ہوتی ہوئی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے ایسے
موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کے شور اور
احتجاجی دھرنوں سے ملک کو کتنا نقصان ہوگا ان کا تو بس کام ہی شور مچانا ٗ
احتجاج کرنا اور بات بات پر دھرنے دینا رہ گیا ہے ۔ وکی لیکس کے جتنے میں
انکشافات ہوئے تھے اس کے کیا نتائج نکلے آج شاید ہی کسی کو وکی لیکس کے
انکشافات کا علم ہو۔ اسی طرح دوسرے ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرنے کی غرض
سے کوئی نہ کوئی انکشاف سامنے آتا رہتا ہے ۔ روسی صدر ولادیمیرپیوٹن نے
ٹھیک کہا ہے کہ دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والے انکشافات کے پیچھے امریکی
عزائم ہیں جو دوسروں کو عدم استحکام کا باعث کرنا چاہتے ہیں ۔ سردست یہ
بتانا مقصود ہے کہ پاکستان گزشتہ 69 سالوں سے کرپشن ٗ رشوت خوری اور
بددیانتی کا شکار چلا آرہاہے ۔ کرپشن کسی ایک شخص یا طبقے میں ہو تو اسے
ٹھیک کیا جاسکتا ہے لیکن جب آوے کا آوہ ہی بگڑ جائے تو کسی ایک کو ذمہ دار
نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔آپ واپڈا کے دفتر میٹر لگانے کے لیے جائیں تو لائن
سپرنٹنڈنٹ کسی خوف کے بغیر رشوت مانگتا ہے ۔میں نے واپڈا کے ایک شناسا شخص
سے پوچھا کہ رشوت مانگنے والے کو پکڑے جانے کا ڈر نہیں ہوتا اس نے مسکراتے
ہوئے جواب دیا کہ یہ رشوت نیچے سے اوپر تک جاتی ہے کون پکڑے گا اسے ۔ یہی
عالم سوئی گیس کے محکمے کاہے ۔ حتی کہ کسی پبلک ڈیلنگ والے محکمے سے واسطہ
پڑ جائے تو ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔اب تو فیکٹری لگانے والے سے سورس آف انکم
پوچھا جاتاہے اگر وہ کہتا ہے کہ یہ پیسے میرے ہیں تو پوچھا جاتاہے کہ آپ نے
ان کاانکم ٹیکس دیا ۔ اگر نہیں دیا تو چلو تمہیں انکم ٹیکس نہ دینے کی جرم
میں جیل میں بند کرتے ہیں یا دھشت گردی کے سہولت کاروں میں تمہارا نام لکھ
کر تمہارا سرمایہ کاری کا شوق پورا کردیتے ہیں ۔پاکستان میں قانون اور
قانونی دفعات بطور رشوت استعمال ہوتی ہیں۔ڈرائیونگ لائسنس بنوانا ہو یا
ڈومی سائل ٗ اسلحے کا لائسنس لینا ہو یا مکان کی رجسٹری کروانی ہو ۔ ہر جگہ
رشوت کے ریٹ مقرر ہیں ۔ پاکستان میں مشرف ٗ زرداری اور نواز شریف سمیت ہر
حکمران سخت حفاظتی حصار کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جانہیں سکتا لیکن
یہی لوگ دوبئی اور لندن میں ایک عام انسانوں کی طرح پھرتے ہیں ٗ ایسا کیوں
ہے۔ہمارے ہاں انتظامی اداروں کی نااہلی کی بنا پر اغوا برائے تاوان ٗ بھتہ
خوری ایک انڈسٹری بن چکی ہے جس سے تنگ آ کر آدھے سے زیادہ پاکستانی سرمایہ
کار بنگلہ دیش ٗدوبئی میں سرمایہ کاری کرکے اپنی دولت اور جان کو محفوظ بنا
چکے ہیں۔شریف خاندان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو ٗ بے نظیر بھٹو اور مشرف
دور میں کیا کچھ نہیں ہوا ۔انکے گھر ٗ فیکٹریاں اور کارخانوں پر قبضہ کرکے
کوڑی کا محتاج کردیاگیا۔ کیا اب بھی ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا
سرمایہ پاکستان میں لگائیں۔ ایک شخص نے فیس بک پر لکھا کہ مرغی بھی انڈا
اپنے گھر دیتی ہے پھر ہمارے سیاست دان اپنے ملک کی بجائے دوسرے ملکوں میں
سرمایہ کاری کیوں کرتے ہیں ۔ اس بھولے شخص کو اس بات کا شاید علم نہیں کہ
پاکستان میں تو کرپٹ سرکاری مافیا انڈے سمیت مرغی بھی ہڑپ کرجاتے ہیں وہ کس
انڈے کی بات کررہے ہیں ۔ شریف برادران نے دوسرے ملکوں میں کیوں سرمایہ کاری
کی۔ یہ جائز ہے یا ناجائز ۔ اس سے قطع نظر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس
وقت بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے قوم ناک ناک تنگ ہے ۔ایک گھنٹہ بجلی آتی
ہے تو اگلے گھنٹے پھر غیب ہوجاتی ہے بیروزگاری نے گھر گھر ڈیرے ڈال رکھے
ہیں مہنگائی کا صف ماتم ہر جگہ بچھا ہوا ہے ۔موجودہ حکومت نے پاک چین
اقتصادی راہداری کا جو کثیر الامقاصد منصوبہ شروع کیا ہے وہ منصوبہ اگر
پایہ تکمیل تک پہنچ جاتاہے تو پاکستانی قوم کے 80 فیصد مسائل ختم ہوجائیں
گے ۔لاہور تا کراچی موٹر وے زیر تکمیل ہے ۔ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے
پچاس سے زائد پروجیکٹ تیزی سے تکمیلی مراحل طے کررہے ہیں ۔ ان کی تکمیل پر
بجلی کی لوڈشیڈنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی ۔پانامہ لیکس کے انکشافات پر
ضرور تفتیش ہونی چاہیئے لیکن اس کی آڑ میں ملک میں بھر احتجاجی مظاہرے کرنا
ٗ شہر شہر دھرنے کی دھمکیاں دینے سے کیا نتائج سامنے آئیں گے ۔ ملک میں
بدامنی اور خانہ جنگی کے حالات مارشل لاء پر منتج ہوتے ہیں جو دس سال سے
پہلے ختم نہیں ہوتا ۔ یہ روایت بھی بہت مستحکم ہے کہ جو منصوبے ایک حکمران
شروع کرتا ہے ٗ بعد میں آنے والے حکمران ان منصوبوں کو ادھورا چھوڑ کرنئے
سرے سے اپنے منصوبے شروع کر دیتے ہیں اور زیر تعمیر منصوبوں پر خرچ ہونے
والا سرمایہ راکھ کا ڈھیر بن جاتاہے جس سے نہ صرف لاگت میں حد درجہ اضافہ
ہوتا ہے بلکہ وہ کمپنیاں دیوالیہ ہوجاتی ہیں جو ان منصوبوں سے وابستہ ہوتی
ہیں۔ پانامہ لیکس کی آڑ میں طوفان اٹھانے والے عدالتی کمیشن کے فیصلے کا
انتظار کریں اور خود جج بننے کی کوشش نہ کریں اگر انکے پاس ثبوت ہیں تو
عدالتی کمیشن کوپیش کریں۔زبانی کلامی تکرار اور چیخنے چلانے سے کچھ نہیں
بنتا۔ ہاں اگر نواز شریف سے واقعی یہ جرم سرزد ہوا تو اسے تبدیل کرکے مسلم
لیگ سے ہی دوسرا وزیراعظم لایا جاسکتا ہے۔ لیکن موجودہ ترقیاتی منصوبوں کی
راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ ہونے دیں ۔یہ وطن دوستی نہیں وطن دشمنی کہلائے گی
۔ |