چور یا چوکیدار؟
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
من حیث القوم ہم پاکستانی ہمیشہ
اپنے حکمرانوں سے نالاں ہی رہتے ہیں،جمہوریت میں مارشل لأ اور مارشل لأ میں
جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ہماری یہ عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ
جمہوریت میں جب جب سیاستدانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کیا توعوام نے فوج
کی طرف دیکھا ۔جب ڈکٹیٹر نے احتساب کے نام پر من مانی کرتے ہوئے ہرادارے کو
اپنے پاؤ ں کے نیچے روند ڈالا تو سیاستدانوں نے عوام کوساتھ ملا کر جمہوریت
کی بحالی اور استحکام کا نعرا بلند کیا ہے۔عوام عرصہ دراز سے چکی کے اندر
ان دونوں کے درمیان کبھی احتساب اور کبھی خوشحالی کے نام پر پس رہے ہیں۔
موجودہ دور جمہوریت اور جمہوری نظام کا دور کہلاتا ہے۔جہاں عوام اپنی پسند
کے نمائندے منتخب کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے کہ چونکہ عوام
اپنی پسند کا نمائندہ خود منتخب کررہے ہیں،لہذا ن کی پسند کے سابقہ و
موجودہ نمائندے ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں سبز باغ دکھاتے ہوئے یہ
یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کی بہتری اور خوشحالی کے لئے زمین ، آسمان ایک کر
دیں گے۔دوسری طرف عوام کی سادہ لوحی ، حماقتوں اور بیوقوفی کی انتہایہ ہے
کہ وہ ان تمام تر دعوؤں اور وعدوں کو جھوٹ کا پلندہ سمجھتے ہوئے بھی ان کے
لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر ’’زندہ باد،مردہ باد،آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے‘‘کے
نعرے بلند کرنے سے باز نہیں آتے اور ان کے جلسوں اور جلوسوں کی رونق بڑھاتے
ہوئے نظر آتے ہیں۔اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ جہاں سیاسی لیڈران سے
جھوٹے وعدے کرنے اور جملے بازی سے نہیں ہچکچاتے ،وہیں عوام بھی اس ماحول کے
عادی ہو چکے ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ بھی سیاسی جلسوں کو سیاسی جملے
بازی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ وہ یہ یقین بھی کر چکے ہیں کہ ان جلسوں میں
کئے گئے وعدے حقیقتاًپورے نہیں ہوں گے۔
اس سب کے باوجود چونکہ سیاست سے ہمارا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق استوار
ہوتا ہے، لٰہذا خوشی کے ساتھ یا ناپسندیدگی کے باوجود ہمیں بھی اس مرحلے سے
گزرنا پڑتا ہے۔دوسری جانب ووٹ حاصل کرنے اور ووٹوں کی گنتی،جس میں کوئی کسی
سے آگے تو کوئی کسی سے پیچھے کی خبریں سنائی جا رہی ہوتی ہیں ، اس کی اصل
حقیقت بھی وہ نہیں،جو بظاہر نظر آتی ہے۔یہ پیش کردہ پوری تصویر جہاں ایک
جانب دلچسپ ہے تو دوسری طرف حد درجہ تشویشناک بھی ہے۔ عوام کے پیش نظر ووٹ
دینے اور نہ دینے ،جبکہ حکومت کے انتخاب اور ردّکا جو پیمانہ قائم ہوتا جا
رہا ہے ،وہ مستقبل قریب میں مزید سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔وہ افرادجو
خودکوموجودہ سیاست سے الگ رکھنا چاہتے ہیں اور جن کے پیش نظر ایک صاف ستھری
زندگی کے معنی ،اس میدان غلاظت سے دوری اختیار کرنے کے سوااور کچھ نہیں،ان
کی اس سوچ کو کم از کم موجودہ دور میں صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔موجودہ
حالات کے پیش نظر صاف ستھری زندگی گزارنے والوں کو چاہیے کہ وہ ایک بار پھر
اپنی سوچ پر نظر ثانی فرمائیں۔ ہر شخص کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہو، یہ
لازم نہیں ہے۔اس کے باوجود ہر شخص سیاسی میدان میں جاری کھیل سے کہیں نہ
کہیں اور کسی نہ کسی مرحلہ میں متاثر وملوث ہے، جبکہ وہ متاثر بھی ہیں
اورملوث بھی توکیونکر مسائل کے انبار سے وہ خود کو الگ کرپائیں گے۔ یہ کیسے
مانا جاسکتا ہے کہ مسائل جن میں ہر روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے،اس میں آپ
کا کردار،اعمال اور افکار و نظریات شامل نہیں ہیں؟ساتھ ہی یہ بات بھی خوب
اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شراکت داری متحرک رہ کر ہی نہیں جمود کی حالت
میں زیادہ ہوا کرتی ہے۔
یوں تو تبدیلی لانے کا بیڑا پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی نے اٹھایا ،مگر سب
کے وعدے جھوٹے نکلے، جنہیں بھی موقع ملاہے ،وہ وطن و قوم کا خزانہ لوٹ کر
بیرونی ممالک میں عالی شان محلات بنانے کے ساتھ ساتھ کاروباری سرمایہ کاری
بھی کرتے رہے، ان کے بچے یورپ کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور
وہیں رہنا پسند کرتے ہیں۔ان کے بڑوں کو اس ملک پر حکمرانی کا شوق ہے تو
انہیں بیرون ملک کاروبار بڑھانے کاہے۔ یہاں اہل وطن کے لئے تعلیم کا دہرا
معیارہے، جبکہ حکمران طبقے کی طرف سے بیرون ممالک اپنے بچوں کی تعلیم و
آسائش پر ملک سے لوٹی ہوئی دولت بڑی بے دردی کے ساتھ لٹائی جاتی ہے۔ صحت کے
حوالے سے بھی ملک کا نظام انتہائی بد حالی کا شکار ہے ،عوام ہسپتالوں میں
دوا میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں،جبکہ حکمران اپنی
ذرا سی تکلیف کے لئے بیرونی ممالک سے علاج کے لئے قومی خزانے سے بے تحاشا
پیسہ لٹانے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔غرض ہر سیاسی پارٹی کے رہنما قوم
کو چونا لگانے پر تلے ہوئے ہیں، یقیناً یہ لوگ علیحدگی میں بیٹھ کر عوام پر
ہنستے ہوں گے کہ عوام کیسے بار بار بے وقوف بن جاتے ہیں۔
حقیقی تبدیلی عوام کی سوچ کی تبدیلی ہے جو نظام کی تبدیلی سے آئے گی۔شریف
برادران،آصف علی زرداری ،بھٹو فیملی، چودھری برادران،عمران خان اور مولانا
حضرات سمیت ،سب کا مقصد صرف قوم کو لوٹنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سب کے
لوٹنے کے طریقے مختلف ہیں،ان کے خیال میں ذاتی مفادات کا حصول ہی اصل
جمہوریت ہے اور اس کو بچانے کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کسی بھی حد
تک جاسکتے ہیں۔
حقیقی عوامی جمہوریت تب آئے گی، جب دہرا معیار ختم ہو جائے گا،جب امیر
وغریب کا فرق مٹ جائے گا ،امیر و غریب کے بچے یکساں نصاب کے ساتھ ایک جیسے
اداروں میں پڑھیں گے، صحت کی بہتری کے لئے ایسا نظام ہو گا، جہاں ایک ہی
ہسپتال میں امیر و غریب علاج کر وائیں گے، جب صحیح حقدار اور حقیقی عوامی
حکمران برسرے اقتدار آئیں گے، جب روپے کا لالچ ختم ہو جائے گا، جب کسی غریب
کا بیٹا بھی وزیر ہو گا، امیرو غریب کے لئے ایک جیسا نظام ہوگا،سرکاری
ادارے فعال اور آزاد ہوں گے، انصاف کا نظام سب کے لئے یکساں ہو گا ،قانون
سب کے لئے ایک ہو گا،تب ہی عوام خوشحال ہوں سکیں گے اور ملک ترقی کی راہ پر
گامزن ہوسکے گا۔
ہمیں حکومت اور حکمرانوں کی تبدلی کی بجائے اپنی سوچ میں انقلابی تبدیلیاں
لانا ہوں گی،ہمیں سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں کے درمیان بال بن کرکسی کے مفاد
میں کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔اگر اب بھی ہم نے ذات ،برادری ،نوکری،احتساب
اور ملک کی ترقی کے نام پر کسی کے لئے استعمال ہوں گے تو پھر نہ کوئی طبیب
علاج کرسکے گا اور نہ ہی کوئی دوا کارگر ہوگی، ہاں ہمیشہ کی طرح ہاتھ اُٹھا
کر دعا ہی کی جاسکتی ہے،جو ہم مایوسی اور نا اُمیدی کے اندھیروں سے نکلنے
کے لئے کاہلوں کی طرح کرتے رہتے ہیں اور جس کا نتیجہ ہم گزشتہ 60سال سے
بھگت رہے ہیں۔اس ملک کے عوام کی یہ ایک انتہائی سنگین غلطی ہے کہ وہ جنہیں
ووٹ دے کر ملک کی رکھوالی اور بہتری کے لئے منتخب کرتے ہیں،وہی ان کے ملک
کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے در پے ہو جاتا ہے، یعنی گھر کا چوکیدار ہی گھر
میں چوری کا اصل مجرم ہے، بلکہ اب تو یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ ان چور
سیاستدانوں کو سمجھتے ہوئے ہم خود ہی چور کو چوکیدار بناتے ہیں اور بار بار
ایسا کر رہے ہیں۔لہذااپنی اس حماقت کا نتیجہ تو بھگتنا ہی پڑے گا۔ |
|