ایک گمنام ٹیلیفون کال نے پوری
دنیا کو خوف اور تشویش میں مبتلا کر دیا۔ کیوں کہ یہاں پوری دنیا کے
سفارتخانے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر قائم ہیں اور اقوام متحدہ کے ادروں
کے نمائیندگان ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاروں کا بھی یہی علاقہ
مسکن ہے۔ یہاں ڈی چوک اور اس کے گرد نواح کا علاقہ ہے۔جسے دھرنوں کے لئے
استعمال کرنے سے بھی غیر ملکی بلا وجہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ سرینا، میریٹ،
اسلام آباد ہوٹل، پی سی راولپنڈی میں درجنوں پولیس اور رینجرز کمانڈوز، بم
ناکارہ بنانے والے اہلکار، سنیفر کتوں کے ہمراہ اچانک پہنچ کر مورچہ بندی
کر لیں تو ظاہر ہے کہ شیر دل کے بھی پسینے چھوٹ جائیں گے۔آج زیادہ تر لوگ
ویسے بھی امراض قلب ، بلڈ پریشر ، دمہ کے مریض ہیں۔ان کا کیا حال ہو اہو گا۔
ان علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی۔ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ یہ بھی افواہ پھیل
گئی کہ فلاں ہوٹل میں بم ہے۔ کسی بھی وقت پھٹ کر تباہی مچا دے گا۔
اس ساری کہانی کی بنیاد یہ تھی کہ وزارت داخلہ کو گمنام ٹیلی فون آیا۔ کسی
گمنام شخص نے اطلاع دی کہ راولپنڈی اسلام آباد کی بڑی ہوٹلوں میں دھماکہ
خیز مواد رکھا گیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ جائے گا۔ اسلام آباد پولیس کے
ایکشن نے وزارت داخلہ کی یہ معلومات سب کو پہنچا دیں۔ اس نے جڑواں شہروں
میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں تشویش پیدا کر دی۔ کیوں کہ یہاں موجود ڈپلومیٹک
کیڈر پل پل کی خبر اپنے ممالک کو پہنچا رہا ہے۔ تصدیق کئے بغیر کسی افواہ
پر کان دھرنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بم کی افواہ کی تصدیق کا
رسک نہ لینا ہے درست ہو۔ تا ہم سیکورٹی ادارے افواہ کو راز رکھ سکتے ہیں۔
تا کہ عوام اور سفارتکار خوف اور دہشت سے بچ جائیں۔ وفاقی دارلحکومت میں
دہشت گردی کا خطرہ کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ملک دشمنوں کو بھی بہانہ
چاہے ہوتا ہے۔
پولیس اور رینجرز کی ناکہ بندی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھی کوئی باوثوق
ذرائع سے ٹھوس معلومات ملتی ہیں تو یہ ادارے فوری کارروائی کرتے ہیں۔ان کا
مقصد شہریوں کے مال و جان کو تحفظ دینا ہوتاہے۔ مگر اسلام آباد ملک کا
دارلحکومت بھی ہے۔ یہ حساس ترین شہر ہے۔ دہشت گردی نے یہاں بھی ماحول کو
کشیدہ بنایا ہے۔ ڈی چوک کے دھرنوں سے بھی لوگ پریشان ہیں۔ اس کے اثرات
سفارت اور تجارت پر بھی پڑے ہیں۔ اس لئے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی
ہے۔
بم ڈسپوزل سکارڈ اور سراغ رساں کتوں کو دیکھ کر ویسے بھی لوگوں کے ہوش اڑ
جاتے ہیں۔ کاروباری لوگ زیادہ ہی ڈرپوک ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنے کاروبار کی
مندی کا خوف ہر وقت ستاتا ہے۔ سرمایہ کار اس سے مزید خوفزدہ ہوتا ہے۔یہاں
ہر وقت ہوشیار اور الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی
کرنا یا ناکہ بندی لوگوں کو مزید خوفزدہ کرتے ہیں۔ یہاں حساس عمارتوں، گرین
ایریا کی تلاشی ایک معمول کی کارروائی تک محدود رہنی چاہیئے۔ اسے کشیدگی
اور خوف کا باعث نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
جب پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، پی ایم اور صدر ہاؤسز، ہوٹلوں میں واک تھرو
، کیمرے، سنسرز نصب ہیں تو غفلت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ نیز
سیکورٹی بھی الرٹ رہتی ہے۔ اس لئے غیر ملکی سیاحوں، سفارتکاروں، سرمایہ
کاروں کو با کسی خوف اور ڈر کے یہاں آنے جانے پر آمادہ کیا جانا چاہیئے۔ تا
کہ یہاں کے حالات کو ملک دشمن غلط رنگ دے کر یہاں کا تاثر بگاڑ نہ سکیں۔
ایک گمنام ٹیلیفون کال پر پولیس اور رینجرز نے راولپنڈی اسلام آباد کا جو
آپریشن کیا، اس کی منفی اثرات ہونے لگے ہیں۔ امریکہ نے اپنے شہریوں کے لئے
فوری ایڈوائزری جاری کر دی ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے بھی
ایڈوائزری جاری کی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ اور اسلام آباد میں ان کے
سفارتخانے نے امریکی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل ار
اور اس کے گردونواح کے علاقوں سے دور رہیں۔ کیوں کہ یہاں ان کی جان کو خطرہ
ہو سکتا ہے۔ امریکی سفارخانے نے اپنی ایڈوازئری میں کہا کہ میریٹ ہوٹل میں
حملے کی ’’معمولی‘‘لیکن’’ غیر مصدقہ‘‘خطرے کے بارے میں معلوم ہو اہے۔ یہ
بات جاری ہونے والے ایک بیان میں بتائی گئی ہے۔ اور اپنے شہریوں کو صورتحال
کا جائزہ لینے تک چند دنوں کے لئے یہاں سے دور رہنے کو کہا گیا۔
یہاں یہ بات قابل گور ہے کہ اس بم کی افواہ سے صرف دو دن پہلے ہی امریکہ نے
7اپریل کو پاکستان کے لئے سفری وارننگ جاری کی تھی۔ اس دن رات دیر گئے بیان
جاری کیا گیا تھا کہامریکی شہری پاکستان کا غیر ضروری سفر ملتوی کر دیں۔ اس
میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں موجود امریکی اپنی نقل و حمل کے بارے
میں اپنے قریبی دوست کو آگاہ رکھا کریں، عوامی مقامات سے دور رہیں، پبلک
ٹرانسپورٹ پر سفر نہ کریں اور ہوٹلوں میں رات نہ گزاریں۔ یہ سخت وارننگ
تھی۔ اس سے امریکیوں کو ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کو پاکستان آنے سے روکا
گیا تھا۔ یورپ بھی امریکی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ یہ وارننگ خفیہ ہوتی تو
کوئی مسلہ نہ تھا۔ بلکہ یہ بیانات جاری کر کے دی گئی۔ ٹویٹر پر بھی اسے
جاری کیا گیا۔
پاکستان نہ آنے یا پاکستان میں ہوشیار رہنے کی وارننگ ایک مفروضہ پر مبنی
تھی۔ جسے غیر معمولی اور غیر مصدقہ کہا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس ٹریول
ایڈوائزری کا اس گمنام ٹیلیفون کال سے بھی کوئی تعلق ہو۔ اب جبکہ کہ یہ سب
غیر مصدقہ اور معمولی اطلاعات غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ گمنام ٹیلفون کال بھی
افواہ تھی۔ اس لئے اگر اسلام آباد کے محفوظ اور پر امن ہونے سے متعلق ایسی
مہم شروع کی جائے جس سے دنیا کو یہاں آنے میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہ ہو۔
افواہوں پر اعتبار کرنے اور انہیں تحقیق کے بغیر عام کرنے سے نقصان ہوتا
ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی اطلاع ہو بھی تو اسے منکشف کئے بغیر تصدیق کی جا
سکتی ہے۔ وزارت داخلہ سے ایسی غیر ذمہ داری کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
کیوں کہ اس سے ملکی مفادات کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
اب03009568439پر ایس ایم ایس/واٹس ایپ۔ مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی حکومت
آتے ہی پانچ پر امن مظاہرین کو شہید کیا گیا۔ پاکستان کشمیریوں پر مظالم کو
دنیا میں اجاگر کرے۔محمدسلیم یوسفزئی ، پشاور۔ |