پانامہ لیکس تحقیقاتی کمیشن: سیاسی عدم اتفاق اورسیاسی ساکھ

وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے اپنے خطاب میں پانامہ لیکس میں بیٹوں کے نام آنے پرتحقیقات کیلئے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں اعلیٰ عدالتی کمیشن بنانے کااعلان کیا۔ان کاکہناتھا کہ ہماراخاندان حکومت میں ہویا حکومت سے باہر ،قومی امانت میں کبھی رتی بھرخیانت نہیں کی۔ہمیں کئی سال تک بے مقصداحتساب کے پل سے گزاراگیا۔الزامات کی تازہ لہرکے مقاصدخوب سمجھتاہوں لیکن چاہتا ہوں حقائق عوام کے سامنے آجائیں ۔نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کرنے والے کبھی اپنی دولت اوراثاثے اپنے نام نہیں رکھتے ،ہم نے وہ قرض بھی چکائے جوواجب نہ تھے۔جسے اعتراض ہو وہ کمیشن سے رجوع کرے۔وفاقی وزارت قانون نے پانامہ لیکس تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کیلئے سفارشات وزیراعظم کوبھیجیں۔حکومت نے سابق چیف جسٹس ناصرلملک اورجسٹس تصدق جیلانی سے رابطہ کیا۔سفارشات میں کہاگیا کہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی منظوری چیف جسٹس سپریم کورٹ دیں گے۔تحقیقات کیلئے مدت کاتعین کمیشن کاسربراہ خودکرے گا۔سفارشات میں کہاگیا تحقیقات صرف شریف خاندان تک محدودنہیں ہوں گی بلکہ تمام دوسوپچاس افرادسے انکوائری کی جائے گی۔عمران خان نے کہا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن قبول نہیں پانامہ لیکس کامعاملہ دبنے نہیں دیں گے۔قوم کودھوکہ نہیں د یاجاسکتا۔ نوازشریف کو اب سچ بولناہوگا۔وفاقی وزیرپانی وبجلی عابدشیرعلی نے کہا کہ عمران سمیت جسے شوق پانامہ لیکس سے متعلق ثبوت جوڈیشل کمیشن میں پیش کرے۔ایک قومی اخبار کے فورم میں کہاگیا کہ جوڈیشل کمیشن مسئلے کاحل نہیں جے آئی ٹی بنائی جائے۔مولانافضل الرحمن نے کاکہناتھا کہ جذباتی ہونے ضرورت نہیں پانامہ لیکس کا معاملہ کمیشن پرچھوڑدیاجائے۔لیکس کواہمیت نہیں دیتے ۔ایسی چیزیں آتی رہتی ہیں بیرون ملک جمع مال واپس لاکرقرضے اتارے جائیں۔قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایاجائے۔پنجاب اسمبلی میں پانامہ لیکس کی مذمت کی گئی۔ صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظورکی گئی جس میں کہاگیا کہ جوڈیشل کمیشن کااعلان احسن فیصلہ ہے ۔جبکہ اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں پانامہ لیکس پرگرماگرم بحث ہوئی۔ اپوزیشن نے حکومتی کمیشن مستردکردیا۔اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے کہا کہوزیراعظم کوخطاب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔بین الاقوامی فرم سے تحقیقات کرائی جائے۔عمران خان کاکہناتھا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں خودمختار کمیشن نہ بناتورائیونڈ کارخ کریں گے ،انہوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن مجھ سے تحقیقات کاآغاز کرے۔خواجہ آصف نے کہا کہ کمیشن تسلیم نہ کرنے والے معاملہ سپریم کورٹ لے جائیں۔سراج الحق نے کہا کہ شفاف تحقیقات کیلئے وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں۔ ان کاکہناتھا کہ چیف جسٹس کی نگرانی میں کمیشن بنایاجائے۔تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے بااعتماداورمتفقہ طورپرقائم کے گئے عدالتی کمیشن کے ذریعے ہی وزیراعظم اوران کے اہل خانہ کے بارے میں پانامہ لیکس کے انکشافات کی تحقیقات قبول کرنے کااعلان کیا ہے۔وزیراعظم کی جانب سے انتہائی مبہم اندازمیں کمیشن کی تشکیل کسی صورت قبول نہیں۔عمران خان نے پھرکہا کہ شفاف تحقیقات نہ ہوئی تورائیونڈ میں دھرنادیں گے۔انہوں نے نوازشریف کومخاطب کرکے کہا کہ آف شورکمپنیوں میں واقعی آپ کے نام کچھ نہیں کرپشن کاپیسہ انسان اپنے نام نہیں رکھتا۔۹ اپریل کے ایک قومی اخبارکی رپورٹ ہے کہ پانامہ لیکس کے ایشو پرمعاملات کی چھان بین کیلئے حکومت کی طرف سے تاحال جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں کی جاسکی۔ذرائع نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے جن ریٹائرڈ جج کے ناموں پرغورکیاگیا ان میں جسٹس(ر) تصدق حسین جیلانی ، جسٹس (ر) ناصر الملک اورجسٹس (ر) سائرعلی شامل ہیں۔مانیٹرنگ ڈیسک کی رپورٹ کیمطابق جسٹس (ر)سائرعلی نے بھی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ۔پانامہ لیکس معاملہ پرریٹائرڈ ججوں کی طرف سے تحقیقات سے انکارکے بعدحکومت مخمصے کاشکارہوگئی۔حاضرسروس ججوں کے آپشن پرغورشروع کردیا۔ایک اعلیٰ قانونی شخصیت کے مطابق انتخابی دھاندلی کی انکوائری کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن پرمنفی تنقید کے بعد اب سابق ججزمیڈیاٹرائل اورحکومت مخالف سیاستدانوں کی تنقید سے بچناچاہتے ہیں۔ وزارت قانون کاکہناتھا کہ پانامہ لیکس کامعاملہ لاہورہائی کورٹ میں آچکا ہے عدالتی فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کاقیام موخرکردیاجائے۔ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن تشکیل دے کرکسی دوسرے تحقیقاتی ادارے کوبھی یہ معاملہ سونپ سکتی ہے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات شریف خاندان سے شروع کی جائے ۔حکومتی ارکان نے منفی مہم پرافسوس کااظہارکیا۔جہانگیرخان ترین نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اگرایساکمیشن بنایاگیا جس پراپوزیشن متفق نہ ہوئی توپھراس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔وفاقی وزیراطلاعات نے کہا الیکشن کمیشن میں آج بھی عمرا�آخان پرچندے میں خوردبرد کاکیس چل رہا ہے مگروہاں کیوں پیش نہیں ہورہے۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارنے کہا کہ اپوزیشن کے طوفان بدتمیزی پردوسابق چیف جسٹسزنے معذرت کرلی ہے۔عمران خان کی مرضی کے ایف آئی اے افسرسے تحقیقات کیلئے تیارہیں۔عمران خان نے کہا کہ شعیب سڈل کی سربراہی میں کمیشن بنایاجائے۔ پیپلزپارٹی نے کہا ہمیں منظورنہیں۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھاکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایاجائے،وزیراعظم استعفیٰ دیں اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔نوازشریف نے پانامہ لیکس پرقوم سے حقائق چھپائے حکومت میں رہنے کااخلاقی جوازنہیں بچا۔جمشیددستی نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے لارجربنچ تشکیل دیں۔میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے خورشیدشاہ نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف پانامہ لیکس کے معاملہ پرچیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیں جوبغیرکسی سیاسی اثرورسوخ کے تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے ۔میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے اعتزازاحسن نے کہا کہ پانامہ لیکس کاعدالتوں سے احتساب کرایا تومعاملہ متنازع ہوجائے گا۔پیپرز سے متعلق تحقیقات حاضریاریٹائرڈ ججوں سے نہیں بین الاقوامی فرم سے فرانزک آڈٹ کرایا جائے ۔سندھ میں میئر، ڈپٹی میئر کے انتخاب کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ کیایہ عدلیہ کاذمہ ہے کہ کمیشن بنائیں۔ ہم سے کہتے ہیں پانامہ معاملہ پرسوموٹولیں یاسپریم کورٹ کمشن کیوں نہیں بناتی ۔یہ بتائیں تفتیش کی ذمہ دارایگزیکٹوہوتی ہے یاعدلیہ؟ ہماری خوداری اوردائرہ کارہے۔عدالت کے پاس اوربھی بہت ست کام ہیں۔تفتیش کیلئے حکومت کے اپنے ادارے ہیں۔کسی ادارے کاقصورنہیں ،پوراسسٹم ہی ذمہ دارہے۔کیاہر معاملے پرکمیشن بنانا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔چوہدری نثارنے کہا کہ پانامالیکس کی تحقیقات سے کچھ ججز نے معذرت کرلی ہے اورکچھ نے وقت مانگ لیا ہے۔ان کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ کاہرجج قابل احترام ہے۔اس وقت ججزکمیشن میں آنے سے کترارہے ہیں۔مزیدججوں سے بھی رابطہ ہے لیکن ان کے نام نہیں لوں گا۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثارنے کہا کہ کیا سارے قوانین وزیراعظم نوازشریف اوران کے خاندان پرلاگوہوتے ہیں؟بیرون ملک کاروبار کرنا ناجائزہے توہررکن قومی اسمبلی کیلئے ناجائزہوناچاہیے۔عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے افرادبھی پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے تضادہماری طرف سے نہیں اپوزیشن کی جانب سے آرہے ہیں۔ عمران خان اوراپوزیشن فیصلہ کرلے کہ تحقیقات کس سے کرانی ہیں۔انویسٹی گیشن ہوگی تومعاملہ اآگے بڑھے گا۔حکومت ہرچیزکوسامنے لاناچاہتی ہے تاکہ معاملات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں۔پیپلزپارٹی کی کورکمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ الزامات ثابت ہونے تک وزیراعظم سے استعفیٰ مانگیں گے نہ رائیونڈ دھرنامیں شریک ہوں گے۔اسحاق ڈارکی زیرصدارت مسلم لیگ ن کے اجلاس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کامطالبہ مسترداورسازشوں کا مقابلہ ڈٹ کرکرنے کافیصلہ کیاگیا۔وزیرخزانہ نے وزیراعظم کی ہدایات پہنچاتے ہوئے کہا کہ سازشوں کواہمیت نہ دی جائے۔اوراس پروقت ضائع کرنے کی ببجائے پوری توجہ ملکی ترقی کے منصوبوں کومکمل کرنے پردی جائے۔قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی تحقیقات کرے۔مشاہداللہ کہتے ہیں تجویزپرغورکرناچاہیے۔میاں عتیق کاکہنا ہے الیکشن کمیشن تحقیقات کرے۔اٹارنی جنرل پاکستان اشتراوصاف علی نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے انکوائری کمیشن کے خدوخال تیار کرلیے گئے ہیں۔انکوائری کمیشن تین رکنی ہوگا۔جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے۔جبکہ دیگرارکان میں فرانزک اکاؤنٹ کے ماہرین اور ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا انکوائری کمیشن کے سربراہ سابق جج کاتعلق سندھ یاکے پی کے سے ہوسکتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کے قیام کیلئے حکومت کاجسٹس ریٹائرڈ شاکراللہ جان سے بھی رابطہ ہواہے۔جن کاتعلق کے پی کے سے ہے۔جبکہ سندھ سے تعلق رکھنے والے جسٹس ریٹائرڈ سرمدجلا ل عثمانی بھی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔پانامہ لیکس کے معاملہ پرحکومت اوراپوزیشن دونوں نے سپریم کورٹ بارسے مددمانگ لی ہے۔رجسٹرارسپریم کورٹ ارباب عارف نے کہا کہ پانامالیکس کی تحقیقات کیلئے ججزدینے سے انکارنہیں کیا۔خورشیدشاہ کاکہناتھا کہ جسٹس سرمدعثمانی قبول نہیں رضاربانی کی سربراہی میں پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔پارلیمانی کمیشن میں حکومت اوراپوزیشن کے برابرارکان شامل کیے جائیں رضاربانی کوتمام اختیارات اورٹیکنیکل افرادکی خدمات بھی دی جائیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی زیرصدارت قانونی امورکی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں پانامہ لیکس پرانکوائری کمیشن کے ضابطہ کارکوحتمی شکل دے دی گئی۔اورکمیشن میں شمولیت کیلئے ماہرین کے ناموں کوبھی شارٹ لسٹ کرلیاگیا۔سپریم کورٹ بارنے تحریک انصاف کاساتھ دینے سے انکارکردیا۔عبدالرحمن ملک نے انٹرپول کے سیکرٹری کوخط لکھا ہے کہ پانامہ لیکس معاملے کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے۔رضاربانی نے مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی سے انکارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ کاکسٹوڈین ہوں کمیٹی کی سربراہی میرے لیے مناسب نہیں تحقیقات کیلئے وائٹ کالرکرائم میں مہارت بھی نہیں۔پانامہ لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کیلئے مسلم لیگ ن جسٹس ۃر)سرمد جلال عثمانی کے نام پرمتفق ہوگئی پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کوتحفظات ہپیں۔حکومت نے پانامہ لیکس کے حوالے سے مجوزہ انکوائری کمیشن کااختیارپاکستان میں سیاستدانوں کی بے نامی جائیدادوں اورسیاسی جماعتوں کوبیرونی ممالک سے ملنے والی امدادکی تحقیقات تک وسیع کرنے کی تجویزپرغورشروع کردیا ہے۔اٹارنی جنرل کہتے ہیں معاملہ صرف وزیراعظم کے بچوں کانہیں جن سیاستدانوں پرالزامات لگتے ہیں ان سب کواپنی پوزیشن کلیئرکرنے کاموقع ملناچاہیے۔عمران خان کہتے ہیں پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم کیاجانے والاکمیشن قبول نہیں۔وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس میں پانامہ لیکس کمیشن کیلئے پارلیمانی قائدین کواعتمادمیں لینے کافیصلہ کیاگیا مشاورت کے بعد حتمی قدم اٹھانے کافیصلہ کیاگیا۔خورشید شاہ کوسرمدجلال عثمانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قبول نہیں۔آرمی چیف کہتے ہیں کہ ہرسطح پراحتساب لازمی ہے۔

سیاستدانوں کے رویے اورآپس کے عدم اتفاق کی وجہ سے پانامہ لیکس کی تحقیقات سے زیادہ تحقیقاتی کمیشن کاقیام مسئلہ بن گیا ہے۔جس کابھی نام سامنے آتا ہے اس پریاتواپوزیشن کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی کواعتراض ہوتا ہے۔یاوہ خودانکارکردیتا ہے۔اپوزیشن کی ایک پارٹی دوسری پارٹی کے دیے گئے نام سے بھی متفق نظرنہیں آتی۔حاضرسروس چیف جسٹس کی سربراہی میں اتفاق دکھائی دیتا ہے انہوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیاہرمعاملہ کی تحقیقات کرناعدلیہ کاکام ہے۔ حکومت کے اپنے بھی تحقیقاتی ادارے ہیں۔اب ان حالات میں تحقیقات کیسے ہوں گی جب سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے بھی نہیں پایاجاتا۔اب اس معاملہ میں حکومت غیرسنجیدہ ہے یااپوزیشن اس کافیصلہ قارئین خودکریں۔سب تحقیقات بھی چاہتے ہیں اوراپنی اپنی ساکھ بچانابھی چاہتے ہیں۔ کیونکہ تحقیقات میں جس کے خلاف بھی رپورٹ آئی اس کاسیاسی امیج بری طرح خراب ہوجائے گا۔جہاں تک ہوسکے یہ معاملہ جلد سے جلد اختتام تک پہنچایا جائے تاکہ عوام کوحقائق سے جلدآگاہی حاصل ہو۔اس کیلئے حکومت اورسیاسی جماعتوں کامتفق ہوناضروری ہے۔یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھی لایا جاسکتا ہے۔ اوریہاں یہ معاملہ حل بھی ہوسکتا ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350788 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.