ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس
کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف یا مجرمانہ سرگرمیاں
کی جائیں یا کمپیوٹر کی دنیا سے جڑی ایسی سرگرمیاں جو یا تو غیرقانونی ہوں
یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے اور ان میں عالمی
الیکٹرونک نیٹ ورکس کو استعمال کیا جائے انہیں سائبر کرائم سمجھا جاتا ہے۔
عام لحاظ سے بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز کے ذریعے لوگوں کی
پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات
انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات،
ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ
وغیرہ۔
پاکستان میں کافی تنقید، تجاویز اور ترامیم کے بعد بالاآخر قومی اسمبلی نے
پاکستان الیکٹرانک کرائمز بل منظور کر لیا ہے۔مجوزہ قانون کی منظوری کس قدر
شفاف تھی اور اس میں قانون سازوں کی کتنی دلچسپی تھی، اس بات کا اندازہ اس
بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ 342 ممبران کے ایوان میں سے صرف 30 ممبران حاضر
تھے۔اب جبکہ یہ پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں سے منظور ہو چکا ہے، تب بھی یہ
تنازعات سے پاک نہیں ہے۔تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر
تجویز کی گئی چند سخت ترین سزاؤں اور شقوں میں ردوبدل کی گئی ہے، مگر اب
بھی ایسا بہت کچھ ہے جس کا غلط فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، آزادی اظہار اور
اختلافِ رائے کو دبانے، اور آگہی کی کمی کی وجہ سے سرزد ہونے والے اقدامات
کو طویل قید اور بھاری جرمانے عائد کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا
ہے۔مختلف مراحل میں اس بل پرجو تنقید سب سے زیادہ ہوئی ہے، اس میں یہ بھی
ہے کہ بل ان افراد نے تحریر کیا ہے، جو کہ ڈیجیٹل دنیا کی اونچ نیچ اور
حقائق سے لاعلم ہیں۔ صرف ایک ٹیکسٹ میسج بھیجنے کی سزا 3 ماہ قید تک قرار
پا سکتی ہے۔منفی مقاصد کے لیے ویب سائٹ قائم کرنے پر" تین سال قید اور
بھاری جرمانہ۔ منفی مقاصد میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟اس بات میں کوئی شک
نہیں کہ نفرت انگیز تقاریر و بیانات کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔لیکن
کوئی بھی شخص جو یہ جانتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں اختلافِ رائے
کا گلا کس طرح گھونٹا گیا تھا، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مذہب یا فرقے کی
بنیاد پر تنازعات پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ
کسی چیز کے نفرت انگیز ہونے یا نہ ہونے کی غلط تشریح بھی آسانی سے کی جا
سکتی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو سائبر سرگرمیوں کو ضوابط
میں لانے کے لیے ایک فریم ورک درکار ہے کیونکہ ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں
ٹیکنالوجی کا غلط استعمال عسکریت پسندی اور دہشتگردی سے لے کر افراد کی نجی
زندگی میں مداخلت، یعنی ذاتی معلومات کی چوری، بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیکنگ
تک میں کیا جاتا ہے۔یہ قانون ابھی سینیٹ میں جائے گا۔ اس میں موجود مسائل
کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔
سوشل میڈیا ایک ہی پلیٹ فارم تھا جہاں اپنی رائے کا اظہار کرسکتے تھے مگر
اس پر بھی پابندی لگا کر حکومت نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ فیس
بک اور ٹویٹر ہی ایسا چینل تھا جہاں آپ اپنی مرضی سے کسی پارٹی، گروپ اور
نظریے کی حمایت کر سکتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے نام انہاد حکمرانوں نے عام
لوگوں سے یہ حق چھین لیا ہے۔ عوام کی سوچ، ذہن اور خیالات کے اظہار پر
پابندی کی بجائے اس قانون میں مزید ترامیم کرنی چاہئے۔ |