مسلم کانفرنس کس نے توڑی؟آخری قسط

سچ تو یہ ہے کہ مسلم کانفرنس شروع ہی سے گروپ بندی کا شکا ررہی اس میں ایک مفاداتی گروپ ہر دور میں لگائی بجھائی میں مصروف رہا۔ مخالفین نے کبھی بھی صدق دل دل سے مجاہد اول کی قیادت کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ مرد درویش کو کبھی تو اقتدار کے لئے بطور زینہ اور کبھی دفاع کے لئے بطور ڈھال استعمال کرتے رہے۔

1975 ء میں سردار محمد عبدالقیوم خان آزاد کشمیر کے صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان صدر مسلم کانفرنس، میاں منظر مسعود سپیکر قانون ساز اسمبلی اور راجہ ممتاز حسین راٹھور آزاد کشمیر حکومت کے سینئر وزیر تھے۔ لیکن جب مجاہد اول پر برا وقت آیا تو وہ تینوں نہ صرف ساتھ چھوڑ گئے بلکہ پورے دم خم کے ساتھ مقابلے کے لئے مخالفین کی صفوں میں چلے گئے۔

1985 ء کے عام انتخابات سردار محمد عبدالقیوم خان کی قیادت میں جیتے گئے ۔ آزاد کشمیر کے عوام اور ممبران اسمبلی کی واضح اکثریت انھیں وزیر اعظم دیکھنا چاہتی تھی لیکن مخالفین نے اس دلیل کے ساتھ سردار سکندر حیات خان کو مجاہداول کے مقابلے میں لاکھڑا کر دیا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں صد ر جماعت ہی لیڈر آف دی ہاؤس ہوتا ہے۔ اس موقع پر مسلم کانفرنس کی تقسیم کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ لیکن مجاہد اول نے خود اُمیدواری سے دستبردار ہو کر وزارت عظمی کا تاج اپنے ہاتھوں سردار سکندر حیات کے سر پر سجا دیا۔

1989 ء میں مجاہد اول مسلم کانفرنس کے صدر بنے تو مخالفین پھر سردار سکندر حیات کے کندھوں پر سوار ہو کر میاں نواز شریف کے پاس جا پہنچے اور آزاد کشمیر میں عملی طور پر مسلم لیگ نواز گروپ کی داغ بیل ڈال دی۔ اس گروپ بندی کے ماحول میں 1990 ء کے عام انتخابات میں مسلم کانفرنس کو حزیمت اٹھانا پڑی۔

1994 میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعظم اور سردار سکندر حیات خان صدر ریاست تھے۔ سردار سکندر حیات نے اپنے محسن و مربی اور اپنی ہی جماعت کے قائد ایوان مجاہد اول کے حکومتی اقدامات کے خلاف ایک پینتالیس(45) نکاتی چارج شیٹ تیار کر کے نہ صرف وفاقی اداروں کو ارسال کی بلکہ پریس کو بھی جاری کر دی۔وفاق میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے بذریعہ ہیلی کاپٹر آزاد کشمیر بھر میں گرایا۔ یہی جارچ شیٹ1996 کے جنرل الیکشن میں مسلم کانفرنس کی انتخابی شکست کا موجب بنی۔ لیکن تصویر کا روشن پہلو دیکھئے کہ مجاہد اول نے اس چارج شیٹ کا جواب دیا اور نہ ہی برا منایا بلکہ 1996 ء میں جنرل الیکشن سے تین ماہ قبل اپنے خلاف پیش کی جانے والی چارج شیٹ کے محرک سردار سکندر حیات خان کو صدارت سے استعفی دلوا کر انھیں اُسی اسمبلی سے دوبارہ آئندہ پانچ سال کے لئے صدر آزاد کشمیر منتخب کروا کر سیاست میں اعلی ظرفی ، بلند کرداری اورسیاسی روادری کی ایک نئی مثال قائم کی۔ کیا یہ مسلم کانفرنس کو متحد رکھنے کی کوشش نہیں تھی؟

وفاقی حکومت نے 1996 ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کر دی۔ جس کے نتیجے میں بیرسٹر سلطان محمود وزیر اعظم آزاد کشمیر اور مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن منتخب ہوئے۔ بیرسٹر سلطان محمود کی ساز باز سے 1997 ء میں مسلم کانفرنس باقاعدہ ’’ق‘‘ اور ’’س‘‘ گروپوں میں تقسیم ہو گئی دو سال بعد 1998 ء میں سکندر حیات گروپ نے پیپلز پارٹی کیساتھ ساز باز کر کے مجاہد اول کی بزرگی ، سیاسی رتبے اور احسانات کی پروا کئے بغیر انتہائی بھونڈے طریقے سے مجاہد اول کے خلاف عدم اعتماد کر کے حکومتی ارکان کی ساز باز سے راجہ ممتاز حسین راٹھور کو آزاد کشمیر اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن بنوا دیا ۔ یاد رہے کہ یہی وہ ممتاز حسین راٹھور تھے جنہوں نے 1991 ء کی انتخابی مہم کے آخری روز نکیال کے جلسہ عام میں نہ صرف سردار سکندر حیات خان کو ماں بہن کی گالیاں دی تھیں بلکہ فتح پور تھکیالہ کا نام بدل کر کملا پور بادشاہ کے نام سے منسوب کئے جانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس جلسہ عام میں پانچ روپے رشوت کے الزام میں سرکاری ملازم کی بر طرفی کی صدا باز گشت سنائی دی تھی۔ لیکن سکندر حیات گروپ مجاہد اول کے خلاف بغض معاویہ میں اتنا آگے نکل چکا تھا کہ انھیں راجہ ممتاز حسین راٹھور کی کوئی گالی بھی یاد نہ رہی۔

یہاں مسئلہ عہدے کا نہیں مجاہد اول زندگی میں کبھی کسی عہدے کے محتاج رہے اور نہ ہی انھوں نے کبھی کسی عہدے کی فرمائش کی وہ جس عہدے پر بھی رہے اُس یادگار اور باعزت بنا دیا۔ لیڈر آف دی اپوزیشن کا عہدہ اُن کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ بات اسمبلی کے وقار کی اور اسمبلی کے تشخص کی ۔ بات ہو رہی ہے مخالفین کے ظرف کی جن سے یہ چھوٹا سا عہدہ بھی برداشت نہ ہو سکا۔

دو سال بعد مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان یہ سب کچھ بھول کر پھر نکیال جا پہنچے اور سردار سکندر حیات خان کو مسلم کانفرنس میں واپس لے آئے ۔ مسلم کانفرنس میں واپسی کے وقت ’’س‘‘ گروپ والوں کو اقتدار نظر آ رہا تھا اس موقع پر انھیں ’’س‘‘ گروپ کی تنظیم کا خیال رہا اور نہ ہی انھوں نے اپنی مجلس عاملہ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی سمجھی ۔ لو گ خود انصاف کریں کہ مسلم کانفرنس کے اتحاد کا فائدہ ’’س‘‘ گروپ کو ہوا یا مجاہد اول کی ذات کو ، یہ فیصلہ عوام الناس پر چھوڑتے ہیں۔

2001 ء کے انتخابات کے بعد فوجی حکمران مسلم کانفرنس کے کسی جونیئر رہنماء کو وزیر اعظم بنوانا چاہتے تھے لیکن مجاہد اول نے پارلیمانی پارٹی کی نہ صرف مخالفت بلکہ مزاحمت کے باوجود اُس سردار سکندر حیات خان کو دوسری بار آزاد کشمیر کا وزیر اعظم نامزد کر دیا جس نے کبھی بھی آپ کے ساتھ رواداری کا ذرا بھر بھی مظاہر ہ نہ کیا ۔ کیا یہ مسلم کانفرنس کو جوڑنے کی کوشش نہ تھی؟

2002 ء میں صاحبزدہ اسحاق ظفر کی وفات سے خالی ہونے والی نشست پر جب ضمنی انتخاب کا وقت آیا تو مسلم کانفرنس کی صفوں میں موجود ایک گروپ راجہ فاروق حیدر کو ٹکٹ دینے کے حق میں نہ تھا ۔ لیکن مجاہد اول نے اپنی مرضی استعمال کرتے ہوئے نہ صرف راجہ فاروق حیدر کو ٹکٹ دے دیا بلکہ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود اُن کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر اُن کی متوقع ناکامی کو کامیابی میں بدل کر کے رکھ دیا۔ کیا کہیں گے ہمارے علمائے کرام اس بارے میں؟

غالباً یہ 2003 ء کی بات ہے کہ سردار سکندر حیات خان مسلم کانفرنس کے ہمخیال گروپ کے اقدامات سے عاجز آکر غازی آباد جا پہنچے اور ہتھیار پھینک کرمجا ہد اول کو حکومت بنانے کی پیشکش کی ۔ تاہم مجاہد اول نے انھیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی اور ہم خیال گروپ کے اراکین کی سرزنش کی ۔ اس ہم خیال گروپ میں وہی لوگ شامل تھے جنہوں نے آج نواز لیگ میں پناہ لے رکھی ہے۔جنہوں نے راجہ فاروق حیدر کے خلاف عدم اعتماد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اور جنہوں نے راجہ نصیر کو محکمہ لوکل گورنمنٹ کا پورٹ فولیو نہ لینے دیا۔

مخالفین کا استدلال ہے کہ راجہ فاروق حیدر خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد نہ ہوتا تو مسلم کانفرنس تقسیم نہ ہوتی لیکن جو لوگ اندر کا حال جانتے ہیں انھیں پتا ہے کہ راجہ فاروق حیدر خان کے اقدامات سے نہ صرف پارلیمانی پارٹی تقسیم ہو کر رہ گئی تھی بلکہ مقتدر حلقے بھی خوش نہ تھے۔ خطرہ تھا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو دفعہ 56 کے تحت برطرف کر دیا جائے۔ ایسے میں سردار عتیق احمدخان نے سسٹم کو بچانے کے لئے کڑوا گھونٹ پیا۔ وگرنہ وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار تھے اور نہ ہی اخلاقی لحاظ سے اس کو مناسب سمجھتے تھے۔

سردار عتیق احمد خان پر الزام لگانے والوں سے پہلا سوال یہ ہے کہ جس پیپلز پارٹی کو آج آپ تمام مسائل کی جڑ اور کرپشن کا گڑھ قرار دے رہے ہیں اُسے 2009 میں کس نے سردار عتیق احمد خان کے مقابلے میں حکومت میں شامل کیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آج جس سردار یعقوب خان کو آپ جاہل اور گنوار قرار دے رہے ہیں اُسے کل وزیر اعظم آزاد کشمیر کس نے بنایا تھا؟
Raja Latif Hasrat
About the Author: Raja Latif Hasrat Read More Articles by Raja Latif Hasrat: 9 Articles with 6694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.