آئینہ

اخبار کے فرنٹ پیج پر تصویر چھپی تھی۔ ’’آپریشن ضرب عضب میں جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے ایک شہید کی اہلیہ کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف میڈل عطا کر رہے ہیں۔‘‘ تصویر کے اردگرد اور بھی خبریں تھیں۔مگر یکسر مختلف۔ کہاں قوم کے لئے جان دینے والوں کا تذکرہ اور کہاں لوٹنے والوں کااحوال۔ ایک طرف پانامالیکس کی تحقیقات کے حوالے سے ایک خبر تھی تو دوسری طرف قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی۔ جس میں سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے دوسو ارب ڈالرکی موجودگی کا انکشاف کیا گیا تھا۔ کہیں ہمسایہ ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا ذکر تھا تو کہیں ’’را‘‘ کے جاسوسوں کی گرفتاری،کہیں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی فہرست تھی تو کہیں کرپشن کی داستان، کہیں چھوٹے صوبوں کے ’’لیڈروں‘‘ کی طرف ’’حق تلفی‘‘ اور ’’محرومی‘‘ کا رونا توکہیں اپوزیشن کی طرف سے احتجاج و دھرنے کی دھمکیاں۔ ایک کونے میں چھوٹو گینگ کے بارے میں بھی خبر تھی جو ہماری پولیس فورس کی ’’کارکردگی اور اہلیت‘‘ کا کھلے عام اظہار کررہی تھی۔

ہر روز کا اخبار ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ جس میں ہم اپنے قومی افق کے چہرے چاند ستاروں کی روشنی اور تاریکیوں کے بدنما داغوں اور زخموں کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔کون اس ملک کے لئے قربانی دے رہا اور کون اسے قربانی کا بکرا بنا کر اپنا الو سیدھا کر رہا ہے۔کون اپنے فرائض پورے کررہا ہے ۔ کون اپنی نااہلیت کا خراج اس غریب قوم سے وصول کررہا ہے۔ اس چہرے پرنشان ِعبرت بھی واضح ہیں لیکن ہم انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ ہم اپنی منزل کو بھول چکے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے جو راستہ متعین کیا تھا، ہم اس سے بھٹک چکے ہیں۔ ہماری منزل اسلامی، فلاحی مملکت کا قیام تھا۔بھائی چارہ، عدل و انصاف اور مساوات اس کے بنیادیں ہونی چاہئے تھیں۔مگر ہماری اس خواہش اور تمنا کا حال تماشائے عام ہے:
یادیں ہیں، حسرتیں ہیں، تمنائے خام ہے
باتیں ہیں، ذلتیں ہیں تماشائے عام ہے

ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں عام آدمی کے لئے عدل وانصاف ہے نہ مساوات کا رواج ۔ دھنیا چور اندر ہے اوردھن چور آزاد گھوم رہا ہے۔چند خاندان خود کو’’شاہی‘‘ قرار دے کر قومی دولت کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔وہ قومی املاک اور اثاثوں پر براجمان ہو کر انہیں اپنا اثاثہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان کے اللے تللے ختم ہونے کو نہیں آتے۔نجانے کیوں ہمارے عوام انہیں اپنا نجات دہندہ خیال کرتے ہیں؟ ہر الیکشن میں وہ انہیں اپنی قسمت بدلنے کا مینڈیٹ دیتے ہیں۔کامیاب ہونے والے تو اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ جاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کی حالت زار ستر سال بعد بھی نہیں بدلی۔ ترقی اور خوشحالی کے دعوؤں کے باوجود سچائی یہ ہے کہ ملک کے اسی فی صد سے زائد خاندان خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ نوے فی صد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ مختلف موذی امراض کا شکارہیں اور علاج معالجہ کے ناقابل برداشت اخراجات کی وجہ سے بے بسی اور یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری ہسپتال تو ڈاکٹروں اور سٹاف کے سہولت کار ہیں جہاں بیٹھ کر وہ اپنے نجی کلینکس اور لیبارٹریوں کے لیے ’’گاہک‘‘ گھیرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو ان ہسپتالوں میں نظم و نسق کے فقدان، ڈاکٹروں کے کڑوے مزاج اور مریضوں کی بے بسی کا خیال تو درکنار وہ وہاں جاناتک پسند نہیں کرتے۔ ، وہ بیمار ہوں تو سرکاری خرچے پربرطانیہ یا امریکہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہی حال تعلیم کے شعبے کا ہے۔ اول تو بہت سے بچے غربت کی وجہ سے سکول افورڈ نہیں کرسکتے۔جو تھوڑے بہت ہمت کرکے پہنچ جاتے ہیں ہمارا نظام وطریقہ کار ان کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔ سرکاری ، نیم سرکاری، نجی، مدرسے، کیمرج ․․․․ یہ تمام نظام یہاں رائج ہیں۔ہر نظام ایک مخصوص طبقے اورکلاس کو ظاہر کرتا ہے۔ انگریزی اور اردو میڈیم کی تفریق صرف ماتحت اور افسر کا تعین کرتی ہے۔ ہمارے حکمران، اپوزیشن لیڈر اور سیاسی زعماء جو قوم کا مقدرتبدیل کرنے کی باتیں کرتے ہیں ان کے اپنے بچے بیرون ملک ٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہ ’’ولی عہد‘‘ جب بھی واپس آئیں، ہماری لگامیں موروثی طور پر انہیں منتقل ہوجاتی ہیں۔ ان کی تمام کمزوریوں، نالائقیوں اور ناتوانیوں کے باوجو د ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنی گردنوں میں ان کی غلامی کا طوق پہن لیتے ہیں۔

آزادی سے قبل ہماری سیاست کے اتار چڑھاؤ لندن میں طے ہوتے تھے۔ آج کا منظر نامہ دیکھئے، آج بھی ہماری سیاست کا دارالخلافہ لندن ہے؟ بساط یہاں بچھی ہے اور چالیں لندن سے چلائی جارہی ہیں۔ پانامہ لیکس کے بعد ہماری سیاسی قیادت کی لندن روانگی اس کی حالیہ مثالوں میں سے ہے۔ پانامہ لیکس کے طوفان کی زد میں آئے حکمران اس سے نکلنے کی تدبیر کررہے ہیں تو اپوزیشن اس صورتحال میں ایک مرتبہ پھرپتلی گلی سے اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے کے کوشش کررہی ہے۔ الزام در الزام لگا کر جھوٹ اور سچ میں فرق مٹا دیا گیا ہے۔ عوام ٹینس کورٹ میں بیٹھے تماشائیوں کی طرح کبھی ایک طرف دیکھتے ہیں تو کبھی دوسری طرف۔انہیں پراپیگنڈہ کے گردوغبار میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔

پانامہ لیکس کا طوفان ابھی تھما نہیں کہ ’’چھوٹو گینگ‘‘ کے تھپیڑوں نے افسر شاہی اور پنجاب پولیس کی استعداد اور کارکردگی کا پول کھول دیا۔ پنجاب پولیس کے 1500اہلکاراپنے اعلیٰ افسروں کی بھرپور ’’پلاننگ‘‘ کے بعد جب راجن پور میں ابھی اپنی صفیں سیدھی کررہے تھے کہ سات پولیس اہلکار ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ 24کو یرغمال بنا لیا گیا۔ پولیس کی’’ پیشہ ورانہ صلاحیتوں‘‘ سے تو بچہ بچہ آگاہ ہے۔ عام شہریوں سے عیدی اکٹھی کرنے کے سوا انہیں آتا ہی کیا ہے، اتنے بڑے گینگ کے سامنے سرکس کے یہ شیر کیسے پاؤں جما سکتے۔اس ہزیمت کی وجوہات جاننے سے قبل پولیس فورس کے کرتا دھرتاؤں سے یہ پوچھا جائے کہ ’’چھوٹو ‘‘ گینگ اتنا بڑا کیسے ہوگیا؟ اردگرد اضلاع کے ایس پی، تھانیداراور پولیس اہلکار کہاں سوئے ہوئے تھے کہ انہیں چھوٹوگینگ کی بھنک تک نہ پڑی۔ آئی جی پنجاب جتنی مرضی وضاحت کریں ، یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اتنی بڑی پنجاب پولیس کی غفلت اور نااہلیت کا بوجھ بھی اب فوج کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ فوج پہلے ہی سرحدوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے خلاف ملک بھر میں برسرپیکار ہے۔بہرحال حکم ملتے ہیں فوج نے پیشہ ورانہ انداز سے ڈاکوؤں کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق ’’چھوٹو گینگ‘‘کے ہتھیار ڈالنے کی متضاد خبریں آرہی ہیں۔اس سلسلے میں آگے کیا ہوتا ہے وہ تو حالات ہی بتائیں، مگر یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ اگر ملک میں کوئی ادارہ صحیح معنوں میں ایمانداری اور منظم انداز سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے تو وہ صرف افواج پاکستان ہیں۔ فاٹا اور سوات میں بھی سول انتظامیہ کی ناکامی کے بعد فوج کو طلب کیا گیا تھا۔ فوج نے وہاں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ان کا قلع قمع کردیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے فوجی جوان ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ان کا خون اس چمن کی آبیاری کے کام آرہا ہے۔ مگر ان کے لئے کیا الفاظ استعمال کئے جائیں جو عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹ رہے اور جو نااہل اہم عہدوں سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ ہر روزکا اخباران کے بھیانک چہروں سے پردہ اٹھاتا ہے مگرجانتے بوجھتے ہوئے بھی ہم کیوں ان بچھوؤں کو باربار ڈسنے کا موقع دے دیتے ہیں؟
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69465 views Columnist/Journalist.. View More