پاک فوج میں احتساب کی اعلی روایت۔۔۔۔۔۔سول میں کب۔۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
پاک فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل ،ایک
میجر جنرل ،تین بریگیڈئیرز،اور ایک کرنل سمیت دیگر اعلی افسران کو کرپشن
الزامات پر برطرف کر دیا گیا ہے برطرفیاں پاک فوج کے داخلی تحقیقات کی
روشنی میں کی گئی ہیں برطرف ہونے والوں میں انسپکٹر جنرل آرمڈ اینڈ
ویپنزجنرل عبیداﷲ خٹک ،میجرل جنرل اعجاز شاہد ،بریگیڈئیر اسد
شہزاد،بریگیڈئیر سیف اﷲ ،بریگیڈئیر عامر اور ایل ٹی کرنل حیدر شامل ہیں ان
فوجی افسران سے سرکاری اعزازات۔زرعی زمینوں،و دیگر تمام مراعات واپس لے لی
گئی ہیں تاہم پینشن اورمیڈیکل کی سپولیات حاصل رہیں گی ،کچھ روز قبل پاک
فوج کے سربراہ کا بیان کی امن و امان کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ احتساب
بلا امتیاز اور سب کا ہونا ضروری ہے جس کے کچھ روز بعد ہی سب سے پہلے اپنے
گھر سے شروعات کی گئی کہ کوئی اب مقدس گائے کے الفاظ استعمال نہ کر سکے
،جنرل راحیل شریف اس قدر مقبول ہیں کہ کوئی سیاستدان مقبولیت کے میدان میں
ان کا سامنا نہیں کر سکتا ہے وہ وطن عزیز سے غداری کرنے والوں کا دشمن ہے
اب جبکہ آپریش ضرب عضب کے باعث دہشت گردی کا تقریبا خاتمہ ہو گیا ہے ۔۔۔تو
لوگوں کے دلوں میں بس گیا ہے ،گزشتہ دنوں اپنے ایک دوست معروف قانون دان
تنویر اکبر چوہدری کے آفس گیا تو دانشور لوگوں کا میلہ لگا ہوا تھا اور
موضوع جنرل راحیل شریف تھا کہ ہمارا محسن تو راحیل شریف ہے ہمیں سیاستدانوں
سے کیا لینا۔۔باتیں عروج پر تھی ۔۔47ء میں قائداعظم بہت مقبول لیڈر تھے اب
جنرل راحیل شریف قائد اعظم کو ماننے والا جنرنیل بہت مقبول ہے اتنا ہر دل
عزیز پے کہ جہاں جاؤ اسی کا تذکرہ ہو تا ہے۔۔۔۔۔فوج کی مقبولیت ہضم نہیں
ہوتی خاص طور پر پاکستان کے دشمنوں کو جو آجکل جنرل راحیل شریف کے پکے دشمن
بنے ہوئے ہیں اب پاک فوج کی پرانی دشمنی کے پرانے خواب کا تازہ ایڈیشن
سامنے آیا ہے ۔اس مرتبہ سیاسی قائدین جہموریت کے خدائی خدمت گاروں کے ذریعے
میڈیا مین اا کر الٹی سیدھی باتیں لانے مین لگے ہوئے ہین جب پپیلز پارٹی کے
قائد آسف علی زرداری نے فوج سے متعلق باتین کی جو انہوں زیب نہیں دیتہ تھی
۔۔۔بس تکلیف اتنی سی تھی کہ کرپشن کے خلاف کام کیوں شروع ہو گیا ہے ۔۔۔؟اور
اب بقول چوہدری نثار کے الطاف حسین نے تو پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا
ہے انہیں دکھ ہے کہ ان کی ’’ دہیاڑیاں ‘‘ کیوں رک گئی ہیں جس کا اعتراف خود
الطاف حسین نے کیا ہے کہ اب گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔۔۔ہمارے ملک کا وزیر
دفاع خود فوج کے خلاف ہزاہ سرائی کرتا ہے پتہ نہیں موصوف کے والد صاحب اگر
زندہ ہوتے تو آمرانہ حکومتوں کی تعریف ہی کرتے۔۔۔بات کدھر سے کدھر نکل گئی
۔۔۔احتساب کا اب نعرہ نہیں ہے ۔۔۔ابتدا جی ایچ کیو نے کر دی ہے اپنے جنرل
کے خلاف فیصلہ دے کر اس کی سروس ،اس کے میڈلز، اس کی پینشن، اسکی میڈ یکل
کی سہولیات سب واپس اور نوکری سے فارغ۔۔۔۔ اب کی باری ۔۔۔۔احتساب ہو گا
۔۔۔سب کا ہو گا۔۔۔سیاستدانوں کا۔۔۔افسروں کا۔۔۔ صحافیوں کا۔۔۔ ججوں کا۔۔۔
فوجیوں کا۔۔۔ سرمایہ داروں کا سب کا ہو گا جنرل راحیل شریف کی مقبولیت سے
خائف لوگ جو مرضی کر لیں قوم کی نظریں جنرل راحیل شریف پر لگی ہوئی ہیں جو
دن بدن اپنی مقبولیت کے ریکارڈز توڑ رہے ہیں ۔۔۔۔۔یہ مقبولیت ان کو اپنے
کردار کی بدولت ملی ہے کردار ہی انسان کو بلند مقام عطا ء کرتا ہے اس نے
ملکی دولت لوٹ کر تو بیرون ملک نہیں پنچائی جنکی دولت باہر ہے مجھے ان کے
نام لکھنے کی ضرورت نہ ہے عوام سب جانتی ہے ۔۔۔میرے نزدیک تو عوام کی دولت
لوٹ کو بیرون ملک منتقل کرنا بھی غداری کے مترادف ہے۔۔۔گزشتہ کتنے برسوں سے
کرپشن، بدعنوانی،اور لاقانونیت ہو رہی ہے ،لورڈ شیڈنگ نے کتنے اور سال رہنا
ہے۔۔۔؟ بہت سے من پسند منصوبے کا ٓغاز ہونا ہے۔۔۔؟ ابھی سیلاب جیسے کئی
سانحے اور ہونے ہیں ۔۔۔؟ بہت سے ناہل لوگوں کو نوازانا ہے۔۔۔؟ بہت مال
کھانا ہے ۔۔۔فاران اوکاوئنٹس کا پیٹ بھرنا ہے۔۔۔؟ کئی کاغذی ہاوسنگ سوسائٹی
شروع کرنی ہیں ۔۔۔؟ مگر اب شاہد حکومت مین رہنے والے ایسے افراد کے خواب
شرمندہ تعیبر نہ ہوں ۔۔۔کیوں کہ اب صرف اور سرف احتساب ہونا ہے کہیں نامور
لوگ سلاخوں کے پیچھے جانے والے ہیں۔۔۔میرٹ کی بجائے اپنی مرضی کے مطابق
لوگوں کا احتساب کرنے والا ادارہ قومی احتساب بیورو(NAB) اپنی غلطیوں یا
پھر اپنے خالق فوجی آمر کے دور کے اسکینڈلز کو دبا دینے پر کسی کے آگے
جوابدہ نہیں ہے ، صرف یہی نہیں بلکہ ادارے کے کئی چیئرمین ایسے ہیں جن پر
مالی فوائد حاصل کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں جن میں ایک بااثر ملزم سے
ایل پی جی کا کوٹہ لینے جیسے الزامات بھی شامل ہیں ،بیورو کے ایک سربراہ نے
ریکارڈ پر کہا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے انہیں کہا تھا کہ ان کے دور
کے کچھ بڑے اسکینڈلز کی تحقیقات نہ کی جائیں ،نیب کو استعمال کرتے ہوئے
اپنی دولت میں اجافہ کرنے والوں کا احتساب ہوا نہ ہی نیب نے ایسے لوگوں کے
خلاف کاروائی شروع کی جن کو مشرف دور کے اسکینڈلز کی انکوائری /انوسٹی
گیشنز روکنے کے لئے بیورو دباؤپر ڈالا تھا، قومی احتساب آرڈیننس (این اے
او) کی شق نمبر31کے مطابق کوئی بھی شخص جو نیب کے مقدمات میں جاری تفتیش
میں رکاوٹ ڈالتا ہے ،اسے نقصان پہنچاتا ہے اسے سبوتاژ کرتا ہے یا انکوائری
میں گمراہ کرتا ہے تو اسے نیب کے قوانین کے تحت دس سال قید با مشققت کی سزا
ہو سکتی ہے ،نیب کے سابق چیئرمین جنرل (ر) شاہد عزیز نے ایک انگریزی اخبار
کو اپنے انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ انہوں نے کچھ ہائی پروفائل مقدمات پر
کاروائی نہیں کی کیونکہ انہیں براہ راست پرویز مشرف اور ان کے دفتر سے آنے
والے دباؤ کا سامنا تھا ،ان کے انٹرویو میں کہا گیا کہ ’’مجھے کئی بار کہا
گیا کہ مسائل پیدا نہ کریں اور حکومت کو غیر مستحکم نہ کریں‘‘بصورت نظام
تباہ ہو جائے گا،انہوں نے (صدر اور ان کی ٹیم )نے عجب منطق پیش کی کہ وہ
کرپشن اور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،شاہد عزیز کے انٹر ویو میں
کہا گیا کہ سابق چیئر مین جنرل خالد مقبول نے انہیں قائل کرتے ہوئے کہا کہ
’’اگر آپ کرپشن روکیں گے تو ترقی کیسے ہو گی‘‘اگر سیاست دان اور وزراء کو
ٹھیکوں میں ذاتی فوائد نہ دئے گئے تو یہ لوگ ترقیاتی اسیکمیں کیوں شروع
کریں گے،انہیں ذاتی مراعات دینا پڑتی ہیں اور ان کے بیٹوں اور شتہ داروں کو
ٹھیکے دینا پڑتے ہیں ،ان انکشافات کا ذکر بعد ازاں ان کی اپنی کتاب میں بھی
کیا ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ بحیثیت وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی پہلی مدت سے
لیکر تقریبا ہر منتخب وزیر اعظم پر نیب نے مقدمات درج کئے ہیں جس میں پیپلز
پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دووزیر اعظم بھی شامل ہیں ،لیکن پرویز مشرف اور ان
کے وزیر اعظم یا کسی بھی ارکان کابینہ کے خلاف کرپشن کا ایک بھی کیس نہیں
بنایا گیا ،مختصرا نیب نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے گزشتہ
آٹھ سالوں کے دوران نیب نے پرویز مشرف کے دور کے کرپشن کے بڑے اسکینڈلز کے
حوالے سے سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ساری
توجہ سیاسی حکومتوں اور سیاستدانوں پر مرکوز کی گئی ہے جبکہ پرویز مشرف کے
9سال کے دوران کو بڑی ہی آسانی سے نظر انداز کردیا گیا ،ایسا نہیں ہونا
چائیے کہ پرویز مشرف کے دور کے اسکینڈلز کے حوالے سے نیب کے پاس شکاتیں
نہیں تھی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ نیب اپنی مرضی کے مطابق پرویز مشرف کے دور کے
معاملات نہیں ا’ٹھا رہی ہے ۔ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پندرہ
سالوں کے دوران سب سے زیادہ کرپٹ دور ’’پرویز مشرف‘‘ کا رہا ہے جنرل پرویز
مشرف کے حوالے سے نیب نے تحقیقات شروع کی تو وہ فوجہ زمینوں کو سیاسی رشوت
کے طور پر اپنے من پسند افراد میں تقسیم کیں لیکن بعد ازاں ااس ادارے نے
لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا ،2005ء میں اسٹاک ایکسچینج کی ہیرا
پھیری سے لیکر پاکستان اسٹیل ملز کی نکاری تک ،چینی کے اسکینڈل سے لیکر صاف
پانی کے اربوں روپے مالیت کے پراجیکٹ تک،دفاعی خریداری کے معاملوں میں
خردبرد جس میں فضائیہ کے لئے جاسوسی جہاز خریدنے کے معاملات شامل ہیں ،فوجی
زمینیں جے یو آئی (ف) اور اپنے نجی استاف میں تقسیم کرنے کے کیس بھی شامل
ہیں ،اور تو اور 2005ء کے زلزلے فنڈز میں ہیرا پھیری اور جعلی پنشن
اسکینڈل،جکارتا میں پاکستانی جائیداد فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چیف آف
اسٹاف کو فائدہ پہنچانے کے لئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی کا
کیس،اور لا تعداد غیر آئینی اور غیر قانونی تقرریاں ایسے معاملات ہیں جن کو
نیب مسلسل نظر انداز کر رہا ہے ،اپنے دور حکومت میں ملک کے اندر اور ملک سے
باہر اثاثوں کے ساتھ پرویز مشرف ارب پتی بن جانے والے سے کسی نے سوال تک
نہیں کیا ۔۔۔۔؟ کیوں یہاں پر نیب کو آنکھوں پر پٹی باندھنے کا مشورہ کہاں
سے اور کیوں آیا۔۔۔۔؟ کیوں فوجی آمروں کا احتساب نہیں کیا جا رہا ۔۔۔۔؟ اس
کے دور حکومت میں ہونے والے میگا کرپشن اسکینڈلز پر تحقیقات اور مقدمات درج
کیوں نہیں کئے جارہے ہیں ۔۔۔۔؟ امید ہے ان دانشوروں اور میر ے متحرم کالم
نوئیس بھائیوں کو شاہد یہ بر’ا لگے مگر سچ تو یہ ہے کہ نیب میں اب اصلاحات
ناگزیر ہیں اور وزیر اعظم کا کہنا درست ہے کہ نیب شریف شہریوں کی پگڑیاں
اچھال رہا ہے ۔۔۔۔؟ مگر وزیر اعظم صاحب خالی بیب ہی نہیں پولیس اور ہر
تھانے میں شریف شہریوں کی روزانہ پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں خدارا اس طرف
بھی توجہ دیں ادھر بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔کہیں ممکن ہو کہ وزیراعظم
پی پی پی کی چیخ وپکار سن کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ’’ اک تم ہی نہیں
تنہا ہم بھی ہیں ‘‘ اور اک تھوڑا صبر کر و کہ اس کے کان مروڑتے ہیں ،گویا
وہ ترازو کے پلڑے برابر کر رہے ہیں
،۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|