رینجرز مجرموں اور پولیس پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
پاکستان کوفلاحی ریاست بنانے کاسُہانہ خواب
ہمیں ہمارے صفِ اول کے قائدین نے دکھا توتھا۔ جو حقیقتاََ اس کام کے لئے دل
و جان سے مخلص بھی تھے۔لیکن بد قسمتی ہماری یہ رہی کہ قائد اعظم اپنی طبعئی
زندگی، عوارض کے باوجود پوری کر کے قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس قوم
کو داغ مفاقت دے کر روتا بلکتا چھوڑ گئے۔ اب ساری ذمہ داری شہید ملت لیاقت
علی خان کے کاندھوں پر آپڑی مگر پاکستان کے اس مخلصِ اعظم کو بھی وطن دشمن
اقتدار کے بھوکوں نے سفاکی کے ساتھ بھرے مجمع میں راولپنڈی کے موجودہ لیاقت
باغ میں شہید کرا کے بغلیں بجانا شروع کرکے شہید ِپاکستان وشہیدِ ملت کے
خلاف اتہام طرازی کا بازار گرم کر کے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر کیرھ
دیا۔ بیس سالون کے دوران ان وطن فرشو ں نے ہمارے سرفرشوں کا نام بھی مٹی
میں ملا کر اُن بنگالیوں کو جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی بنیادیں رکھی تھیں
غدار قرار دے کر پاکستان سے بغاوت پر مجبور کر کے مسلم بنگال کی اینٹ سے
اینٹ بجواکر قائد اعظم کے پاکستان کو دولخت کردیا۔تاکہ وہ اور ان کی نسلیں
ہمیشہ پاکستان کو لوٹتی رہیں۔یہ ہی وجہ ہے کے پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر نے
میرے پر امن ملک کے پورے معاشرے کو پولیس اسٹیٹ میں بدل کے رکھدیا تھا۔ یہ
اسٹیٹس کو آج تک جاری بھی ہے۔ پاکستان میں تھانہ کلچر کا ایسا رواج پڑگیا
ہے کہ اب کسی کی بھی عزت یہاں پر محفوظ نہیں رہی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ
پاکستان کی پولیس میں کرپشن کے بازار لگنے لگے ہیں۔ہے کسی میں ہمت ہے تو
انہیں روک کے دکھا دے!!!جس علاقے میں پولیس پارٹیاں عوام کے خلاف دندناتی
پھرتی ہیں ۔عوام اور چھوٹی گاڑیوں والے خاص طور پر اپنی عزتیں بچاتے پھرتے
ہیں ۔کوئی اس میگا سٹی ، جنگل جیسے شہر کا پرسانِ حال ہی نہیں ہے۔مجرموں سے
ان کی ہوا خراب ہوتی ہے ۔ شریف شہری ان کا نشانہ ہوتے ہیں۔پولیس گردی کے
حالے سے ذیل میں چند گذارشت پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں
بلال چورنگی کورنگی انڈسٹریل ایریا اورکورنگی ڈیڑھ نمبرکے درمیان چوک پر
پولیس راج نافذ ہے ۔ انڈسٹریل ایریا کا یہ علاقہ کورنگی نمبر چار تھانے کے
پولیس اہلکاروں کے لئے سونے کی کان بنا ہوا ہے۔3 ،اپریل2016 کوبرز اتواراقم
کی بھتیجی کا 16سالہ بیٹا جوINCHمیں زیر تربیت ہے اتوار کو ایمرجینسی ڈیوٹی
سے فارغ ہو کر گھر آرہا تھا ۔کہ شام قریباََ ساڑھے 4 بچے اس کورنر پر کھڑی
پولیس موبائل نے بچے کو روکا اور کئی لایعنی سوالات کے بعد جب کچھ نہ بن
پڑا تو اس سے کہا گیا کہ موٹر سائکل کی نمبر پلیٹ صحیح نہیں ہے۔ تم نے یہ
گاڑی چوری کی لی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھ تھانے چلو بچہ بائک کے کاغذات دکھاتا
رہا۔ پولیس کا ایک موٹا مسڈنڈا اس منحنی سے بچے پر تشدد کرتا رہا، اور بچے
کی بائک پر ایک اور نوجوان پولیس والا دونوں نے بچے کو بیچ میں بیٹھا کر
بائک پر سوار ہو کر بچے کوتھریٹ کرتے اور مارتے ہوئے کورنگی نمبر 4 کے
تھانے کے لاک اپ میں بند کردیا اور بچے سے کہا کہ اپنے گھر والوں کو فون
کرے اور ااُن سے کہے کہ 20000(بیس ہزار روپے ) اگر تجھے لاک اپ سے نکالنا
ہے تولے کر آئیں․․․․ورنہ ڈکیتی کے الزام میں ترا in conter کر دیں گے ۔بچے
نے خوف و دہشت کی حالت میں اپنی والدہ کو روتے ہوئے فون کیا کہ امی مجھے
زبردستی کورنگی 4تھانے کی پولیس تھانے لے آئی ہے اور مجھ سے پولیس والے کہہ
رہے ہیں کہ تجھے ڈکیتی کے الزام میں قتل کر دیں اگر تونے یا تیرے گھروالو ں
نے ہمیں پیسے نہیں پہنچائے۔میری بھتیجی پریشانی کے عالم میں روتے ہوئے
تھانے پہنچی تو اُس سے کہا گیا کہ تمہارے بیٹے کی گاڑی پر نمبر پلیٹ نہیں
ہے اور یہ چوری کی گئی گاڑی استعمال کر رہا ہے۔اُس نے جواب میں کہا کہ گاڑی
پر نمبر پلیٹ لگی تو ہے اور جبکہ اس کے تمام کاغذات بھی موجود ہیں۔ آپ کیسے
کہہ رہے ہیں کہ یہ چوری کی گاڑی ہے؟ اس پر موٹا پولیس والا بولا کہ ایس ایچ
او کا حکم ہے کہ آپ بیس ہزار روپے دیں گی تو اسے چھوڑیں گے ورنہ اس کے ساتھ
لمبی کہانی ہوگی اور آپ پچھتائیں گی۔بچے کی والدہ نے اپنے بھائی کو روتے
ہوئے فون کر کے ساراماجرا بتایا تو اُس نے اپنے جاننے والے ایک اور پولیس
اہلکار کو درمیان میں ڈالا تو بڑی مشکل کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او
سے معلوم کرتے ہیں اگر وہ اجازت دیں گے تو کچھ پیسے کم کیئے جا سکتے ہیں
۔بڑی مشکلوں کے بعد وہ (10000)دس ہزار روپے لے کر بچے کی جان بخشی پر راضی
ہوئے۔جو ایک انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔
اسی طرح 22، اپریل کو میڈیا پر ایک خبر چل رہی تھی جس کے مطابق پولیس نے
گولیمار سے دو نوجوان بھائیوں کو حراست میں لیکر بالکل اسی طرح تھریٹ کیا
اور بے حد تشدد کا نشانہ بنایاتھا۔جس کی ویڈیو بھی میڈیا پر چل رہی تھی
انہیں بھی وہ ہی تھریٹ کیا جا رہا تھا جو انہوں 16 سالہ بچے کو دیا تھا ۔ان
نوجونوں کے خاندان سے تو کئی لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیاتھا ۔رقم نہ دینے
کی صورت میں انہیں مار کر ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر پولیس پوتر ہو
کر انعامات کی سفاشات کروائے گی اور وہ انعام کے مستحق بھی ٹہریں گے۔جس کا
وہ اعتراف بھی کر رہے تھے۔مگر پولیس سے کوئی حساب لینے والا کیا پیدا ہوچکا
ہے؟؟؟نہیں ،تو پھر جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا کہیں سن نہ لے زمانہ
اے دل خاموش ہوجا․․․․․․یہ ادارے جو عوام کے خدمت گار بتائے جاتے ہیں۔ یہ
غریب عوام کے سب سے بڑے مجرم ہیں ۔مگر ان کو سزا دینے والا کوئی پیدا نہیں
ہوا ہے۔رینجرزتو مجرموں کو پکڑرہی ہے اور پولیس پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
دوسری جانب پولیس ٹریفک منجمنٹ کے نام بھی پولیس سرکاری بھتہ وصولی میں
منہمک ہے مگر اس جانب کوئی اس لئے نہیں دیکھتا ہے کہ اوپر سے نیچے تک سب کے
حصے لگے ہوئے ہیں۔پولیس نے جگہ جگہ اپنی مصنوعی پارکنگ بنائی ہوئی ہے۔ جہاں
پر لوگوں کی اگر گاڑیاں پارک کرائی جاتی ہیں تو اُن سے باقاعدہ پارکنگ کے
پیسے بغیر رسید کے وصول کئے جاتے ہیں۔لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تمام پیسے
پولیس کی جیب گرم کرتے ہیں۔بعض مقامات پر نو پارکنگ کے بورڈ لگے ہوتے ہیں
اس کے بعد پارکنگ کی حدود میں اگر کوئی اس نشان کے نزیک گاڑی پارک کر دے تو
اُس کی گاڑی بھی پولیس اہلکار اٹھا کر لیجاتے ہیں اور پھر منہ مانگے پیسے
وصول کئے جاتے ہیں۔جس سے پولیس کی تو چاندی بنی ہوئی ہے مگرعام شہری
انتہائی اذیت کا شکار ہیں۔
یہ ہم کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بستے ہیں یا کسی یا کسی ظالم بستی کے
رہائشی ہیں کہ’’ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے‘‘جو چیتے کی طرح عوام کا شکار کرنے
میں کوئی حیا شرم یا خوف محسوس ہی نہیں کر رہا ۔پولیس کا محمکمہ جو عوام کی
حفاظت کا ذمہ دار ہے وہ ہی عوام کے ساتھ رہزنی پر لگا ہوا ہے اور کوئی ان
بے ضمیروں کو روکنے اور پکڑنے والا نہیں ہے۔یا الٰہی یہ کس معاشرے میں
ہماری سانسیں گھوٹی جا رہی ہیں؟کراچی تو جیسے مال بنانے کا سب سے بڑا مرکز
ہے کہ پہلے بڑی تعداد میں اس کے شہریوں کو دہشت گردوں کے حوالے اس پولیس نے
ہی کیا ہوا تھا ۔اب دہشت گردوں سے عوامکو کچھ سکون ہوا ہے تو دہشتگردوں کے
پروموٹر ہر گلی کے نکڑ پر عوام کو لُوٹنے اور ان کے گلے کاٹنے پر پر آمادہ
ہیں اور اس شہر کی بد قسمتی ہی ہے کہ صوبہ سندھ کے حکمران بھی شائد اس
پولیس گردی سے خائف ہیں۔کراچی میں اسنیپ چیکنگ کے نام پر روزانہ لاکھوں
نوجونوں کو دھمکیاں دے دے کر منظم طریقے سے لوٹا جارہا ہے․․․․ |
|