احساسِ شرمندگی
(Tariq Hussain Butt, UAE)
کرپٹ معاشرے کیا کرپٹ حکمرانوں کا محاسبہ
کر سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کرپٹ معاشرے کے پاس نہیں ہو
سکتا۔اگر ہم سارے پاکستانی معاشرے کا طائرانہ جائزہ لینے کی کوشش کریں تو
ہمیں اس بات پر یقین کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو گی کہ پاکستانی معاشرہ
تضادات کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا
ہے۔سیاستدانوں،پارلیمنٹ،عدلیہ،میڈیا۔بیوو کریسی،فوج،صحافیوں ،پولیس اور
ڈاکٹرز سمیت ملک کے بڑے بڑے ادارے کرپشن میں ملوث ہیں۔بیووکریسی تو کرپشن
میں گوڈھے گوڈھے دھنسی ہوئی ہے۔افسروں کا رہن سہن اور ان کے معمولاتِ زندگی
مغلیہ شہزادوں کے معیار سے میل کھاتے ہیں۔ان کی مراعات اور ان کے اخراجات
میں کہیں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنی پارسائی
کی قسمیں کھانے سے باز نہیں آتے۔وہ اپنی خداترسی اور قومی مفادات کے تحفظ
کی جس دل آویز انداز میں منظر کشی کرتے ہیں اس سے ان پر کسی ولی کا گمان
ہوتا ہے یہ الگ بات کہ ان کا کرادار ان کے افکار و اقوال کا منہ چڑھا رہا
ہوتا ہے اور عوام ان کی گندی کرتوتوں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔گفتار کا غازی بن
تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا والا معاملہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ
عوام میں اپنی امانت و دیانت کی قسمیں کھانے سے باز نہیں آتے حالانکہ جن سے
وہ مخاطب ہوتے ہیں انھیں علم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک دشمن انسان کا
سامنا کر رہے ہیں جسے ہوسِ دولت کے علاوہ کسی چیز سے کوئی دلچسپی
نہیں۔چونکہ پوری قوم ہی کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے لہذا کسی کو احساسِ
شرمندگی نہیں ہوتااور کوئی اتنا سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا کہ
کرپشن اس ملک کو تباہ کر کے رکھ دیگی اور ہماری آنے والی نسلیں قرض کے بوجھ
تلے زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہو جائیں گی۔
کہتے ہیں کہ روزانہ ۱۲ ارب روپے کی کرپشن ہو تی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ
سالانہ کھربوں روپوں کی کرپشن اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔وہ پیسہ جو
عوامی فلا ح و بہبود پر خرچ ہونا تھا اور جس سے تعلیم اور صحت کے معاملات
سیدھے ہونے تھے وہ سیدھا راشیوں کی جیبوں میں چلا جارہا ہے۔ہسپتالوں کی جو
کیفیت ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔ہزاروں لوگ علاج کی سہولیات کے فقدان کی وجہ
سے زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔غریب آدمی کے لئے اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم
سے آراستہ کرنا انتہائی کٹھن ہو تا جا رہا ہے۔ وزرا اور حکمران طبقہ دولت
لوٹنے اور اسے ملک سے باہر بھیجنے میں جٹا ہوا ہے اور کوئی اس سے پوچھنے
والا نہیں ہے جبکہ غریب آدمی مناسب علاج معالجے اور سستی دواؤں کو ترس رہا
ہے۔حکومت اور اپوزیشن ارتکازِ دولت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ
میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو گی
وہ اتنا ہی کامیاب و کامران تصور ہو گا۔انھیں خبر ہے کہ موجودہ دور میں
دولت کے بغیر انتخابات جیتنا ممکن نہیں رہا اس لئے دولت کی ہوس سیاست دانوں
کی کمزوری بنتی جا رہی ہے ۔اب اگر عوام میں دولت کی خواہش حکمرانوں سے کم
ہوگی تو شائد ان کیلئے حکمرانوں کا محاسبہ کرنا آسان ہو جائے لیکن یہاں تو
عوام بھی حکمرانوں کی طرح دولت کو الہ سمجھ کر اس کی پوجا کر رہے ہیں ۔ اب
تو حالت یہ ہے کہ کرپشن میں چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹ گیا ہے۔جس کے ہاتھ جو
لگ رہا ہے وہ اٹھا کر بھاگ رہا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایسا کرنے سے ملک
تباہ و برباد ہو جائیگا۔عوام اپوزیشن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ حکومت کا
احتساب کرنے میں عوام کی راہنمائی کرے گی لیکن یہاں تو اپوزیشن بھی حکومت
کے ساتھ ساز باز کئے ہوئے ہے کیونکہ اسے خطرہ ہے کہ حکومت کو ننگا کرتے
کرتے وہ خود بھی ننگی ہو جائیگی کیونکہ اپنے دورِ حکومت میں اس نے بھی لوٹ
مار سے صرفِ نظر نہیں کیا تھا ۔پی پی پی اپوزیشن جماعت ہے لیکن پانامہ لیکس
پر اس کا موقف سمجھ سے بالا تر ہے۔اس کا یہ اعلان کے ہم میاں نواز شریف سے
نہ تو استعفے طلب کریں گئے اور نہ ہی حکومت کے خلاف کسی دھرنے میں شریک ہوں
گئے مسلم لیگ (ن) کو کرپشن میں بڑھاوا دینے کے مترادف ہے ۔ کیا ایک دفعہ
پھر مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی باہمی مک مکا ؤکی سیاست کرنے جا رہے ہیں؟کیا
پی پی پی ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) کو بچانے کے جتن کر رہی ہے ؟ کیا ایک
دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) پی پی پی کے ہاتھوں صیح و سالم موجودہ بحران سے نکل
جائیگی؟ سینیٹ کے چیرمین رضا ربانی کو کو کمیشن کا سربراہ بنانے کی پی پی
پی کی تجویز انتہائی احمقا نہ ہے کیونکہ اپوزیشن کا کوئی فرد حکومت کی
انکوائر ی نہیں کر سکتا؟کیا دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ اپوزیشن حکومت
کا احتساب کرے ؟مجھے نہیں علم کہ اس طرح کی تجویز کس زر خیز ذہن کی پیداورا
تھی ؟رضا ربانی ایک با اصول انسان ہیں لہذا انھوں نے تجویز پیش ہوتے ہی اسے
رد کر دیا۔ایسی تجو یزیں رد کئے جانے کے قابل ہی ہوتی ہیں۔پی پی پی کو سب
سے زیادہ جو فکر کھائے جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی آئینی مدت
پوری کر لے چاہے پورے ملک کا ستیا ناس ہو جائے،یہ تو بھلا ہو پناما لیکس کا
جس نے قوم میں بیداری کی لہر دوڑا دی ہے۔ہمارے ہاں اپنی آئینی مدت پوری
کرنے کا ایک نیا تصور جنم لے چکا ہے جس میں کرپشن غیر اہم عنصر تصور ہو رہا
ہے۔وہ مخصوص طبقہ جو قیامِ پاکستان سے اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے اس کیلئے
کرپشن نمبر ون مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اقتدار کی ٹرم پوری کرنا نمبر
ون مسئلہ ہے۔پچھلے لانگ مارچ میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا تھا ۔عمران خان
کے لانگ مارچ سے پی پی پی مسلم لیگ (ن) سے زیاد ہ پریشان تھی اور اس کی
سانسیں پھولی ہوئی تھیں کیونکہ شفاف تحقیقات کے نتیجے میں پی پی پی کی باری
بھی آ سکتی تھی۔ملک کی کوئی سیاسی جماعت اپنا احتساب نہیں چاہتی بلکہ اپنی
موج مستیاں اپنے معمول کے مطابق جاری رکھنا چاہتی ہے ۔انھیں اس بات کی فکر
دامن گیر نہیں ہے کہ آف شور کمپنیوں میں شریف فیملی نے پیسہ کہاں سے لیا ہے
کیونکہ ان کا اپنا پیسہ بھی آف شور کمپنیوں میں لگا ہوا ہے اور اس پیسے کی
ان کے پاس کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ
کرپشن ایک ایسا حمام ہے جس میں سارے ننگے ہیں ۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک
ننگا دوسرے ننگے کو رسوا کرے کیونکہ اس طرح وہ خود بھی رسوا ہو جائیگا
کیونکہ اس کی اپنی دولت بھی عوامی خزانے کی لوٹ مار کے نتیجے میں اس کے
ہتھے چڑھی تھی جسے اس نے بڑے کمال سے چھپا لیا تھا لیکن جس کے طشت از بام
ہونے کا وقت آ گیا ہے۔،۔
پناما لیکس میں پی پی کی پسپائی ایک ایسی کہانی سنا رہی ہے جس سے بہت کچھ
اخذ کیا جا سکتا ہے۔پی پی پی متوسط اور پسے ہوئے عوام کے حقوق کی علمبردار
جماعت ہے اور اس کے قائدین نے عوامی حقوق کی جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے
پیش کر کے عوامی محبت سمیٹی تھی لیکن بد قسمتی سے پی پی پی کی حالیہ
پالیسیوں سے عوام فلاحی ریاست کے تصور سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔اپنے پانچ
سالہ دور میں پی پی پی نے جس طرح عوامی مفادات کو نظر انداز کیا تھا اس کی
وجہ سے عوام نے سندھ کے علاوہ پورے ملک سے اس جماعت کو نظر انداز کر دیاتھا
۔سندھ میں پی پی پی کو سیاسی نہیں بلکہ جذباتی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ
سندھ میں بھٹو خاندان کو ایک ایسی علامت تصور کیا جاتا ہے جو دلوں پر راج
کرتی ہے۔وہاں پر پرفارمنس اور گڈ گوورنس کا تصور نہیں ہے بلکہ وہاں پر بھٹو
خاندان کی شہادتیں پی پی پی کی کامیابی کی بنیاد ہیں اور اس بنیاد کو منہدم
کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔میری ذاتی رائے میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن)
باہم متحد ہیں اورایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں تا کہ کسی نہ کسی انداز
میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے اور ان کا دھندا چلتا رہے ۔ عمران خان حکومت
کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں لیکن ان کی پوزیشن اتنی مستحکم نہیں ہے کہ وہ مسلم
لیگ (ن) کی حکومت کو چلتا کر سکیں۔عمران خان کی باتوں میں گھن گرج توہے
لیکن ان کے پاس کوئی ایسی سٹریٹیجی نہیں ہے جس سے حکومت تحلیل ہو جائے اور
پاکستان تحریکِ انصاف اقتدار کی مسند پر قابض ہو جائے ۔ میری ذاتی رائے کے
مطابق پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے باہمی اتحاد کے بعد کسی طرح کی آئینی
تبدیلی کا امکان انتہائی کم ہو گیا ہے۔میاں نواز شریف اپنے طبی معائنے کے
بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں اور انھیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے
کیونکہ کئی قابلِ ذکر جماعتیں ان کے ساتھ ہیں۔،۔ |
|