آئیے احتساب کریں ․․․مگر!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
آئیے احتساب کریں، سفاک احتساب، کڑا احتساب،
بے لاگ احتساب، غیر جانبدار احتساب۔ کسی سے کوئی رعایت نہ ہو، کسی سے بے
انصافی نہ ہو، کسی سے ظلم بھی نہ ہو اور کوئی احتساب سے بچنے بھی نہ پائے۔
آئیے احتساب کریں، خود سے آغاز کریں، پہلے اپنا احتساب کریں۔ اب قوم نے
احتساب کرنے کی ٹھان لی ہے، اب لگتا ہے کہ ہم لوگ احتساب کرکے ہی رہیں گے،
کیونکہ ہم نے جان لیا ہے کہ احتساب سے ہی زندگی ہے۔ اب ہم جینے کا تہیہ
کرلیا ہے، اب ہم جی کر ہی رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب کا جادو سر چڑھ کر
بول رہا ہے، اس جادو کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی بول رہے ہیں، ’’ہو کر رہے گا
احتساب‘‘ ’’کر کے رہیں گے احتساب‘‘۔ ہم شاید یہ کام ابھی نہ کرتے، مگر ہمیں
مختلف ’’لیکس‘‘ نے اس کام کے لئے مجبور کردیا ہے۔ اب انتظار کی گھڑیاں لد
گئیں، اب چکر دینے اور ٹال مٹول کرنے والے اپنی دکان بڑھا چکے، اب لوٹ مار
کرنے والے منہ چھپاتے پھریں گے، کرپشن کرنے والوں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں
ملے گی، احتساب کے مخالف بھی اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے۔ احتساب تو ہو
کر رہے گا، مگر اس کام میں کچھ تبدیلی کرنا ہوگی، وہ یہ کہ احتساب ضرور ہو
مگر پہلے دوسروں کا۔ اپنے بارے میں خیالات کچھ اور ہیں، کیونکہ ہمارا
احتساب تو پہلے بھی بہت دفعہ ہوچکا ہے، لوگ پہلے بھی ہمیں ووٹ دیتے رہے ہیں،
پہلے بھی ہماری حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں، پہلے بھی ہم عوام کی خدمت کرتے
رہے ہیں، مخالفوں کی حکومتیں بھی آئیں اور جابروں کی بھی، مگر ہمیں عوام نے
اپنے اعتماد کا ووٹ دیا۔ اس سے بڑا احتساب اور کیا ہوگا۔
پانامہ لیکس کی بات ہے تو ایسے الزامات بھی پہلے لگتے رہے ہیں، پہلے بھی
دامن شفاف تھا اب بھی ہے۔ اور ہمارے وزیراعلیٰ تو میز پر مکوں کی بارش کرکے
بارہا دہرا چکے ہیں کہ کرپشن کا ایک روپیہ بھی ثابت ہو جائے تو ’’نام بدل
دینا‘‘ ’’پھانسی لگا دینا‘‘ ’’لٹکا دینا‘‘۔ سیاست چھوڑنے کی اطلاع، گھر چلے
جانے کی خبر اور بھی نہ جانے کون کون سی دھمکیاں ہیں جو اپنے نام پر دی
جارہی ہیں۔ موجودہ حکومت کے حالیہ اقتدار میں تین برس پورے ہونے کو ہیں، کس
تھانے میں کرپشن ختم ہوئی، کس دفتر میں رشوت کا بازار ٹھنڈا ہوگیا، کونسا
کمیشن مافیا تائب ہوکر دیانت داری پر تُل گیا۔ درست ہی تو کہا جاتا ہے کہ
پاکستان میں کمیشن ہی ایک ایسا کام ہے جو نہایت دیانتداری سے ہوتا ہے،
کیونکہ ہر محکمے میں کمیشن کی مد میں رقم کی فیصد طے ہوتی ہے، اور وہ
مطلوبہ آدمی کو مل جاتی ہے۔ ممکن ہے کچھ ملازمتوں کو میرٹ کے دائرے میں
لایا گیا ہو، مگر ابھی تک بے شمار ملازمتیں ہیں جن کی خرید وفروخت ہوتی ہے،
ہمارے بے شمار معزز ممبران اسمبلی لوگوں کے کام کروانے اور ان کو روز گار
کے مواقع بہم پہنچانے کے لئے ان سے لاکھوں روپے بٹورتے ہیں، بعض اوقات ایسا
بھی ہوتا ہے کہ یہ روپیہ بھی کام نہیں دیتا، یعنی رقم دی مگر کام نہ ہوا۔
سرکاری گاڑیوں کے بے دریغ استعمال کو اپنے حکمران کرپشن قرار نہیں دیتے، ان
کے خیال میں یہ مراعات کا حصہ ہے، کہ کسی بھی سطح کا افسر اپنی سرکاری گاڑی
جس وقت اور جہاں مرضی لے جائے اسے مکمل آزادی حاصل ہے، مہینہ بھر میں کتنا
پٹرول استعمال ہوا، فیملی کی کتنی سیریں ہوئیں، ان کی شاپنگ، بچوں کو سکول
پہنچانا اور دوستوں تک کی گاڑیوں میں سرکاری پرچی سے پٹرول ڈلوانا ایک
معمول کی بات ہے۔ قریبی یا ساتھ والے ضلع میں ذاتی رہائش ہونے کی بنا پر
سرکاری گاڑی روزانہ لے جانا کوئی پریشانی والی بات نہیں۔ روزانہ کا حساب
لگایا جائے تو یقینا کروڑوں روپے روزانہ کرپشن ہورہی ہے۔ مگر اپنے حکمران
ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ ان کی مصروفیات اور بھی بہت ہیں۔
اپنے ہاں تعمیرات کا حال دیکھ لیں، سڑک بنتی ہے، اور چند برسوں میں بیٹھنا
یا ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہے، پھر بھاری فنڈ سے اس کی مرمت کا آغاز ہوتا ہے،
اور یہ دھندہ مستقل صورت اختیار کرلیتا ہے۔ خیر اب احتساب شروع ہے، کیونکہ
اب اپنے سپہ سالار نے بھی اس کارِ خیر کا آغاز کردیا ہے، تمام سیاستدان بھی
ایک دوسرے کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ پہلے خود سے احتساب کا آغاز ہونا
چاہیے، تاہم سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ احتساب کا مطالبہ کرنے والا ہر فرد
دوسرے سے ہی احتساب کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔اس لئے آئیے ہم بھی احتساب کریں
مگر دوسروں کا۔
|
|