ہنگامہ ہے کیوں برپا ، کرپشن تو نہیں کی ہے

رشوت بد عنوانی ایک ایسی قسم ہے جس میں پیسے یا تحفہ دینے سے وصول کردہ کا طرز عمل تبدیل ہوتا ہے ، رشوت کو جرم سمجھا جاتا ہے ۔ قانونی لغتی معنوں میں کسی سرکاری افسر یا کسی عوامی یا قانونی امور کے مجاز کے عمل کو متاثر کرنے کیلئے کسی قدر کی شے کی پیش کش ، دینا ، وصولی ، یا مانگنا رشوت کہلاتا ہے ، رشوت کا مقصد وصول کندہ کے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے یا ہوسکتی ہے ، پیسہ، چیز ، جائیداد ، ترجیح ، استحقاق ، معاوضہ ، قدر کی شے ، فائدہ یا محض کسی سرکاری یا عوامی اہلکار کے عمل یا ووٹ پر اثر انداز ہونے یا ترغیب دینے کا وعدہ یا عہد۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بعض قسم کی رشوت کو قدرے مقبولیت حاصل ہے ، مثلاََ امریکہ میں سیاست دانوں کو نقد رقوم بطور سیاسی مدد دی جاسکتی ہے جوبعض ممالک میں غیر قانونی رشوت تصور ہوتی ہے ، عرب ممالک میں اہلکاروں کو "کشیش"ادا کی جاتی ہے جوغیر قانونی نہیں سمجھی جاتی ، بد ترین قسم کی رشوت وہ ہے جو قیدیوں کے لواحقین سے وصول کی جاتی ہے اور اس کے بدلے قیدیوں سے بد سلوکی نہیں کی جاتی ، اس کا رواج پرانے زمانہ میں برطانیہ جیسے ممالک میں بھی رہا ہے اور موجودہ زمانہ میں پاکستان اور ہندوستان میں بھی ملتا ہے۔پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے کرپشن فری پاکستان اور احتساب بلا امتیاز کا بیان دیکر اور پھر پہل کرکے ر سیاسی حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کی قوم کا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ اگر فوج کی طرف سے کوئی بیان آجاتا ہے تو ان کا ذہن فوری طور مارشل لا کیجانب چلا جاتا ہے کہ اب فوج نے کسی سیاسی حکومت کو وارننگ دے دی ہے اس لئے اس حکومت کا چلنا مشکل ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں میں اقتدار کے متلاشی عناصر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور کچھ اپوزیشن جماعتیں جو اپنے دور اقتدار میں چنگانہائی ہوئی ہوتی ہیں وہ نام نہاد جمہوریت کے بچاؤ کیلئے ایک غیر اعلانیہ اتحاد بنا لیتی ہیں ، عوام بھی جمہوریت پسند نہیں ہے وہ بہت جلد سیاسی جماعتوں کے رویوں سے اکتا کر ہر معاملے میں فوج کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور تصور پختہ کرلیتے ہیں کہ سیاسی حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور کرپشن کیساتھ اقربا پروری اور شاہانہ ڈھاٹ اپنائے سیاسی لیڈروں کو سسکتی عوام کا کوئی خیال نہیں ہے اسلئے اسی حکومت کو برطرف کردینا ہی بہتر ہے۔بنیادی طور پر پاکستانی قوم تھوڑی جلد باز واقع ہوئی ہے مسائل پیدا کرنے میں جتنے تغیر پذیر واقع ہوئے ہیں اس سے زیادہ سیاسی چھلانگ لگانے میں بھی ان کا ثانی نہیں ہے اور چاہتے ہیں کہ مسائل جو خود ان کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہوئے ہیں ، وہ آناََ فاناََ حل ہوجائیں۔کیا ہم اپنے ضمیر اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ اگر ہم نے سرکاری نوکری حاصل کرنی ہو تو اس کیلئے سفارش اور بھاری رشوت دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ، کسی ٹھیکدار کو سرکاری ٹھیکہ حاصل کرنا ہو تو اسے43فیصد ادائیگیاں رشوت کی مد میں کرنی ہوتی ہیں ۔ کسی اچھے تعلیمی ادارے میں اگر میرٹ پر داخلے ہو رہے ہوں وہاں ایسے با رسوخ تعلقات پیدا کرکے میرٹ کی دھجیاں کیا ہم نہیں اڑاتے ، یہاں تک المیہ ہے کہ امتحانات میں اچھے نمبر لانے کیلئے امتحانی مراکز میں بوٹی مافیا کو رشوت اور اگر کوئی بااثر شخصیت کی اولاد ہے تو اس کے الگ کمرہ اور اگر اس سے بھی زیادہ بارسوخ ہے تو امتحانی کاپیاں گھر بھی پہنچانے کا بہم انتظام مہیا کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں میرٹ کی دھجیاں اس طرح اڑائی جاتیں ہیں کہ اس فعل کو بُرا ہی نہیں سمجھا جاتا کہ میرٹ کے بغیر سیاسی وابستگی کے حامل سیاسی افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے ، ایک چپڑاسی سے لیکر ملک کے ہر اہم نشست کیلئے رشوت کا زہر خود ہمارے ہاتھوں پھیلا ہوا ہے ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کریں تو رشوت دینے میں پہل ہم ہی کرتے ہیں ، پولیس کسی کو گرفتار کرلے تو رشوت دینے والے ایجنٹس کی خدمات ہم ہی لیتے ہیں ، عدالتوں میں جائیں تو پہلے ایسے وکیل ڈھونڈے جاتے ہیں جن کی ایڈجسمنٹ متعلقہ عدالت سے اچھی ہو اور وہ" ڈن "پر وکالت نامے پر سائن اور من پسند فیس بمعہ رشوت لیتا ہے۔وکیل اپنی فیس کیلئے یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا کلائنٹ سچا ہے کہ جھوٹا ، اس نے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے جان کی بازی لگا دینی ہے کیونکہ وہ وکیل ہے اس کا پیشہ یہی ہے ۔ میڈیاہاوسز غیر جانبدار نہیں رہ سکتے اگر بن گئے تو انھیں سرکاری اشتہارات کیسے ملیں گے ، اگر کسی پرائیوٹ کمپنی کے غیر قانونی دھندوں کا پردہ فاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اشتہاری کمپنیوں کے ذریعے میڈیا ہاوسز کے "بڑوں"کو لیٹر جاری کردیئے جاتے ہیں۔فیکٹریوں میں غیر قانونی طور پر چائلڈ لیبر سے لیکر لیبر قوانین کی خلاف ورزی کھلم کھلا کی جاتی ہے کیونکہ ان کی مانٹرنگ کرنے والے جو رشوت لیتے ہیں ، محکموں کی کرپشن کی مانٹرنگ کرنے والے ادارے خود کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں۔ سیاسی انتقامی کاروائیوں کیلئے بطور رشوت بیورو کریسی کو اپنے مخالفین کے علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں وہ اپنے آقا کا کام بھی کرتا ہے اور کرپشن کا بازار بھی گرم رکھتا ہے۔ غیر ملکی ٹھیکوں میں حکومتیں براہ راست بھی ملوث ہوتی ہیں اور کک بیکس کو قانونی شکل ماناجاتا ہے ۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پورے دنیا میں ہر قسم کی امداد ، قرض لینے پر بھی کرپشن لی جاتی ہے ۔ عالمی ادارے ان اداروں کے سربراہوں کو براہ راست رشوت دیتے ہیں جو ان کی مصنوعات چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو ، اس کو منظور کرلیں۔ایک عام آدمی سے لیکر ریاست کے چاروں ایوانوں میں کرپشن دیمک کی طرح پھیل چکا ہے۔ کرپشن فری معاشرہ قائم کرنے کیلئے پہلے اس دنیا کو نائیڈروجن بم سے تباہ کرنا ہوگا ، پھر باوا آدم کی طرح ایک نئی نسل پیدا ہو اور اگر اس وقت کوئی دانش ور ڈکشنری میں رشوت کا لفظ شامل نہ کرے اور اس کی اقسام و شارٹ کٹ نہ بتائے تو پھر ممکن ہے کہ معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ہوجاتا ہے ورنہ دیکھا تو یہی گیا ہے کہ جن ممالک میں کرپشن کرنے پر سزا موت ہے وہی سب سے زیادہ کرپشن کرتے نظر آتے ہیں ۔ہم خود اپنے گھر سے کرپشن کا آغاز کرتے ہیں کہ بچے کو کچھ گھریلو اشیا لینے کو بھیجتے ہیں تو ساتھ میں الگ سے پیسے دیتے ہیں کہ اپنے لئے بھی کچھ لے لینا، مہنگے یا سستے ہوٹل میں جاتے ہیں ، اس ہوٹل کا ملازم باقاعدہ تنخواہ لیتا ہے لیکن اسے ٹپ نہ ملے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آتی۔سب سے بڑی بات خود اسلام میں ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔لیکن کسی کا ایمان تک ڈگمگاتا نہیں ہے کہ اس کا یہ عمل اسے جہنم کے دروزے تک لے جارہا ہے۔سیاسی حکومت یامحض چہرے بدلنے سے ، معاشرے میں تبدیلی ممکن نہیں ہے ، بلکہ نظام بدلنے سے ہی معاشرے میں سدھار آسکتا ہے۔کیا ہمارے ملک میں کرپشن کے نام پر کئی بار حکومتوں کا تختہ نہیں الٹا گیا ۔ تو کیا س سے کرپشن ختم ہوگئی ، نہیں بلکہ کرپشن کے ریٹ اور بڑھ گئے ، جس قدر ڈالر کے ریٹ بڑھتے ہیں اس طرح رشوت کے ریٹ بھی اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں ، ریٹ بڑھانے کیلئے تجاوزات کے نام پر آپریشن اور پھر دوبارہ تجاوزات کا قائم ہوجانا ، ایسا ہی ہے جیسا شیئرز کا کاروبار ۔ پاکستان کرپشن مارکیٹ میں کبھی مندی کا رجحان چلتا ہے تو کبھی تیزی آجاتی ہے ۔ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو پہلے اپنے گھر سے کرنا ہوگا ، خود سے کرنا ہوگا ، ، کرپشن فری معاشرہ صرف اسلام کے درست نفاذ سے ہی ممکن ہے ۔ جس میں مسلک ، فرقہ نہ ہو بلکہ امت واحدہ اور اس کا نظام قران کریم کے اصولوں و قوانین کے مطابق ہو ۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے والوں کا اسلامی نظام سے کوئی تعلق نہیں۔نظام اسلام صرف قرآن کریم ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 663282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.