اس کے برعکس لادینیت کے خلاف
قائداعظم کا ایک واضح بیان ملتا ہے۔ یہ تقریر انہوں نے کسی مسجد میں نہیں
بلکہ وکیلوں کے سامنے کی تھی۔ وہ خود بھی ایک قانون دان، لندن کے فارغ
التحصیل بیرسٹر تھے۔ اس تقریر میں وہ واضح کرتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کی طرح
اسلام محض ایک پوجا پاٹ‘ انفرادی عبادات اور روحانیت تک محدود مذہب نہیں ہے،
بلکہ انسان کے سارے شعبہ ہائے حیات کو خدائی ہدایت پر ڈھالنے والا مذہب ہے۔
سیاست اور اقتصادیات جیسے ہر شعبے میں بھی ہمیں اللہ اور اس کے رسول کی
ہدایات پر چلنا ہے۔ 25th January, 1948 کے روز کراچی بار ایسوسی ایشن کے
میلادالنبی کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم فرماتے ہیں:”اسلام
صرف پوجا پاٹ، انفرادی عبادات، چند روایات و رسومات کے اہتمام اور کچھ
روحانیت کے اُصولوں کو اختیار کرنے کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک ایسا مکمل
نظامِ زندگی ہے جو ہر مسلمان کی زندگی، رویے، عمل وکردار کے ہر پہلو کو
کنٹرول کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کی سیاست اور معیشت کو بھی۔ یہ اعلیٰ کردار،
وقار، ہر ایک کے ساتھ رواداری اور حق وانصاف کے انتہائی اعلیٰ اصولوں پر
مبنی ہے۔ سارے انسانوں کے ایک خدا اور اس کے آگے سب کی برابری اور مساوات
جیسے انسانیت کے اصول اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ انسان اور انسان
کے درمیان فرق و تمیز پیدا کرنے والی کسی اونچ نیچ کا تصور اسلام میں نہیں
ہے۔ مساوات، حریت، رواداری اور بھائی چارگی اسلام کے بنیادی اُصول ہیں۔“
قائداعظم کا یہ تصورِ اسلام، سیکولرازم اور لادینیت کے نفاذ کے ان اقدامات
کی نفی کرتا ہے جنہیں جنرل پرویز مشرف اور زرداری حکومت نے پاکستان پر مسلط
کرنے کی کوشش کی ہے۔ قائداعظم نے اس پر بھی زور دیا ہے کہ وہ حصولِ پاکستان
کے ذریعے محض یہی نہیں کہ مسلمانوں کو ہندو راج کے زیرِ نگیں آنے سے بچانا
چاہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ برصغیر میں ”اسلام“ کو بھی مٹنے سے بچانا چاہتے
ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مسلمان جدید جمہوریت کے نام پر ہندو اکثریت
کے تحت ہندو راج کی غلامی میں رہنے پر مجبور ہوگئے تو پھر یہ آہستہ آہستہ
اسلام سے بھی دور ہوتے چلے جائیں گی، اور جس طرح اسپین میں مسلمانوں کے
عیسائیوں کے زیرِنگیں آنے کے بعد اس ملک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دیا
گیا اور مسجدوں کو عیسائی کلیساؤں میں تبدیل کردیا گیا، آج بھی مسلمانوں کے
بادشاہ جس مسجد ِ قرطبہ میں نماز پڑھا کرتے تھے اس کے بیچوں بیچ گرجا گھر
بنا کر اسے ساری دنیا کے سیاحوں کو دکھایا جاتا ہے، اسی طرح برصغیر میں بھی
اگر مسلمان ہندو راج کے تحت زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تو ان کو اسلام
سے ہٹانے کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔ انڈیا کی نئی نسل اب اس قابل بھی نہیں
رہی کہ کئی صدیوں سے وہاں مسلمانوں کی جو زبان تھی اُس زبان میں اسلامی یا
دوسری کتابیں پڑھ سکے۔ سب کو ہندی پڑھنی آتی ہے لیکن اپنے آباؤ اجداد کی
زبان اردو نہیں پڑھ سکتے۔ انڈیا میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کی شدھی تحریک،
بابری مسجد کی شہادت اور گجرات میں حکومت ِ وقت کے وزیرِاعلیٰ مودی کی
زیرِنگرانی مسلمانوں کے قتلِ عام جیسے واقعات قائداعظم کی اس دوربینی اور
دوراندیشی کی شہادت دیتے ہیں کہ تحریک ِ پاکستان صرف مسلمانوں کو بچانے کے
لیے ہی نہیں بلکہ برصغیر میں اسلام کو بچانے کے لیے بھی چلائی گئی
تھی۔14اپریل 1941ء کو مدراس میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس
میں اپنے خطبہ صدارت میں قائداعظم نے فرمایا:”پاکستان محض ایک قابلِ عمل
منزلِ مقصود ہی نہیں، بلکہ یہی وہ واحد منزلِ مقصود ہی، اگر آپ چاہتے ہوں
کہ اِس ملک میں اسلام کو مکمل ملیامیٹ ہونے سے بچایا جائے۔“ 62 برس بعد
پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کی طرف قدم بڑھانے کے بجائے لادینیت لانے کے
حکومتی اقدامات مقصد ِ پاکستان کو قتل کرنے کے مترادف ہیں۔
قارئین کرام یہ تحریر ہماری نہیں ہے بلکہ جناب حسین خان صاحب نے ٹوکیو سے
یہ تحریر روزنامہ جسارت کراچی کے لئے بھیجی تھی اور یہ تحریر تین حصوں میں
روزنامہ جسارت میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہم نے
اس کو یہاں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کیا ہے۔ اس امید کے ساتھ یہ تحریر آپ کو
پسند آئے گی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوگا کہ کس طرح قائد اعظم کے
نام پر بد دیانتی کر کے ملک کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
شکریہ |