مصنفہ نے اپنی تحقیق سے بتایا کہ
قائداعظم نے یہ الفاظ کبھی نہیں استعمال کیے۔ جسٹس منیر نے جو حوالہ دیا ہے
اس میں کہیں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں، جسٹس منیر نے خود ہی اپنی طرف سے یہ
الفاظ گھڑ کر قائداعظم کے نام سے پیش کر کے دنیا کو دھوکا دیا ہے۔ مصنفہ نے
اس جھوٹ کو کیسے پکڑا جسے25 سال سے پاکستان کے سارے دانشور سچ سمجھتے چلے
آرہے تھے، یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔ جسٹس منیر کی کتاب میں قائداعظم کے نام
سے یہ الفاظ دیکھ کر مصنفہ پریشان ہوگئیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قائداعظم
ایسی دوغلی باتیں کریں۔ کیونکہ مصنفہ کے سامنے قائداعظم کا یہ بیان بھی تھا
جو انہوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے لوگوں کے لیے فروری 1948ء میں
ریڈیو پر نشر کیا تھا:”مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا دستور جمہوری طرز کا
ہوگا، جو اسلام کے بنیادی اُصولوں پر مبنی ہوگا....اسلام اور اس کی اُصول
پسندی نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ
مساوات، انصاف اور ہر ایک کے ساتھ حُسنِ سلوک کا درس دیا ہے۔“ یہ اور اس
طرح کے کئی اور بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک لادینی
یا سیکولر ریاست نہیں بلکہ اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اور اسلامی ریاست
میں جمہور نہیں بلکہ حاکمیت کا انحصار اللہ پر یعنی اللہ کی دی ہوئی شریعت
پر ہوتا ہے جسے کوئی عوامی یا جمہوری طاقت تبدیل نہیں کرسکتی۔ یہ تصور
”عوام کی حاکمیت والی جدید جمہوری حکومت“ سے مختلف ہے۔ اس لیے مصنفہ کو شبہ
ہوا کہ جسٹس منیر کے حوالے میں ضرور کہیں غلطی ہے۔ مصنفہ نے جسٹس منیر کے
حوالے کو بار بار خوب غور سے پڑھا تو اُنہیں اس میں انگریزی زبان کی بھی
ایک غلطی نظر آئی۔ بظاہر غلطی معمولی تھی کہ جسٹس منیر کو جہاں لفظ will
استعمال کرنا تھا، وہاں انہوں نے would استعمال کیا تھا۔ مصنفہ کو یقین تھا
کہ قائداعظم انگریزی زبان کی کبھی ایسی غلطی نہیں کرسکتے۔ جسٹس منیر نے
قائداعظم کے نام سے جو جھوٹا حوالہ دیا تھا، اس کے الفاظ یہ تھے:
The new state would be a modern democratic state with soveregnity
resting in the people and the members of the new nation having equal
rights of citizenship regardles of religion, caste or creed - Munir
1980, p.29, Empasis added by Munir جسٹس منیر کی کتاب کا ذکر کئے بغیر ڈان
کے کالم نگار اردشیر کاؤس جی نے 2000ء میں اپنے ایک کالم ''Back to Jinnah''
میں بھی قائداعظم کے تصور پاکستان کو لادینیت پر مبنی قرار دینے کی کوشش
میں اسی مذکورہ بالا جملے کا حوالہ دیا تھا۔ مصنفہ نے جب ان سے ایک ای میل
کے ذریعے پوچھا کہ اس جملے کا اصلی متن کہاں مل سکتا ہی؟ تو انہوں نے گول
مول جواب دیا کہ انہوں نے کہیں یہ پڑھا تھا لیکن انہیں یاد نہیں رہا کہ
کہاں؟ لیکن کاؤس جی نے مذکورہ بالا جملے کی انگریزی صحیح کر کے اپنے کالم
میں اسے پیش کیا تھا۔ انہوں نے جسٹس منیر کی غلط انگریزی کو صحیح کر کے
اپنے کالم میں would کی جگہ will کا لفظ استعمال کیا تھا۔ شاید وہ اسی لیے
جسٹس منیر کا نام لینے سے پرہیز کررہے تھے کہ انہوں نے جسٹس منیر کے اصلی
حوالے میں اپنی طرف سے ایک لفظ کی ہیر پھیر کردی تھی۔ اس سے مصنفہ کی تشویش
اور بڑھ گئی کہ جسٹس منیر نے قائداعظم سے منسوب کرکے غلط انگریزی کیوں لکھی
ہے۔ جب کاؤس جی بھی اس غلط انگریزی کو اپنے کالم میں استعمال نہیں کررہے
ہیں تو پھر بھلا ایسی غلط انگریزی قائداعظم کیسے استعمال کرسکتے ہیں! انہیں
یقین ہوگیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ مصنفہ نے قائداعظم کو سیکولر قرار
دینے والے دوسرے بڑے بڑے دانشوروں کی کتابیں پڑھیں، جن کے نام یہ ہیں:
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (سابق وزیر اور سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی)،
عبدالستار غزالی(صحافی)‘ پروفیسر پرویز امیر علی ہود بھائی اور پروفیسر
حمید نیر۔ ان سب دانشوروں نے قائداعظم کے تصور ِ پاکستان کو سیکولر قرار
دینے کے لیے جسٹس منیر کی کتاب کے مندرجہ بالا حوالے کو اپنی بنیاد بنایا
تھا۔ جسٹس منیر کا کہنا تھا کہ 1946ء میں نئی دہلی میں خبر رساں ایجنسی
رائٹرز کے نمائندہ Donn Campbell کوانٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے یہ الفاظ
استعمال کیے تھے۔ مصنفہ نے بہت تلاش کیا لیکن کہیں اس انٹرویو کا اصلی متن
نہیں مل سکا۔ یہ انٹرویو ملا تو ایک دوسری تاریخ کا تھا May 21, 1947 کی
تاریخ کا۔ Donn Campbellکے انٹرویو کا اصل متن بزمِ اقبال کی طرف سے خورشید
احمد خاں یوسفی کی مرتّبہ 4 جلدوں میں سے چوتھی جلد میں ملا۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ جسٹس منیر نے اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لیے اس انٹرویو کی تاریخ ہی غلط
بتا دی تاکہ اگر کبھی کوئی اس کو تلاش کرنے کی کوشش کرے تو اصل متن ہی نہ
مل سکے جس سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک ہو۔ اس پورے متن میں کہیں بھی اس جملے
کا کوئی وجود نہیں ہے جسے جسٹس منیر نے اپنی طرف سے گھڑ کر قائداعظم سے
منسوب کردیا ہے۔ چوتھی جلد میں یہ انٹرویو آج بھی ہر شخص پڑھ کر دیکھ سکتا
ہے کہ اس طرح کی کوئی بات قائداعظم نے کہیں نہیں کہی۔ اس کتاب میں اس
انٹرویو کو روزنامہ ڈان May 22, 1947 کے حوالے سے شائع کیا گیا ہے۔ مصنفہ
نے قائداعظم کو سیکولر کہنے والے سارے دانشوروں کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے
دلائل کا جواب بھی دیا ہے اور یہ چیلنج بھی کیا ہے کہ قائداعظم نے اپنے
سارے بیانات، تقاریر اور انٹرویوز میں کہیں بھی کبھی بھی Secular کا لفظ
ایک جگہ بھی استعمال نہیں کیا۔ جس شخص نے اپنی زندگی میں کبھی بھی جس بات
کا کہیں ذکر ہی نہ کیا ہو اُس کو زبردستی سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرنا
سراسر زیادتی نہیں تو اور کیا ہے!
(جاری ہے) |