عہدوایمان کی پاسداری اور اسلامی واقعات
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
عہد و پیمان کی وفا کا مسئلہ اجتماعی زندگی
کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس کے بغیر کوئی اجتماعی ہم کاری اور تعلق
ممکن نہیں ہے اور اگر انسان اسے ہاتھ سے دے بیٹھے تو اجتماعی زندگی اور اس
کے ثمرات کو عملی طور پر کھو بیٹھتا ہے ۔ اسی بنا پر اسلامی مصادر او رکتب
میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ شاید بہت کم کوئی اور چیز ہو جسے اس
قدر وسعت سے بیان کیا گیا ہو کیونکہ اس کے بغیر تو معاشرہ ہر ج مرج اور عدم
اطمینان کا شکار ہو جائے گا، جو نوع انسانی کے لئے سب سے بڑی اجتماعی مصیبت
ہے ۔
ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد صلی ٰ اﷲ علیہ وسلم کی امانت ،دیانت اور
ایفائے عہد کے واقعات بے شمار ہیں ۔آپ عہد اور وعدے کے اس قدر پکے تھے کہ
بعثت سے قبل ہی کفار مکہ آپ کو ’’صادق وامین ‘‘کہہ کر پکارتے اورآپ کے پاس
امانتیں رکھواتے ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے ان عظیم الشان
واقعات سے سبق سیکھنے کے بجائے آج ہمارا معاشرہ بالکل مخالف سمت میں چل
رہاہے ۔اس وقت پورے معاشرے میں دھوکہ دہی ،جھوٹ ،بددیانتی ،خیانت جیسی موذی
بیماریاں انتہائی تیز رفتاری سے بڑھتی جارہی ہیں۔بات با ت پر جھوٹ بولنا
اورمعاملات میں بد دیانتی کرنا لوگوں کا شعار بنتی جارہی ہے ۔ایک دوسرے سے
قرض لے کرقرض خواہ کوزندگی بھر دربدر کرنا رواج بنتاجارہاہے ۔لوگوں کے عہد
وپیمان کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ آپ اگر کسی دوکان پرکوئی چیز خریدنے جائیں
تو صاحب ِدوکان آپ کو مطمئن کرنے کے لیے انتہائی یقین کے ساتھ وعدہ دیتاہے
کہ یہ چیز آپ کے معیار کے مطابق ہے ،اس میں ذرا بھی خرابی نہیں،لیکن جب آپ
اسے استعمال کرنے لگتے ہیں تو اپنے مسلمان بھائی کی اس بد دیانتی پر
متحیرہوجاتے ہیں ۔ یہ بد عہدی نہ صر ف عام لوگوں میں بڑھتی جارہی ہے بلکہ
اچھے خاصے سمجھداراور پڑھے لکھے لوگ بھی اس میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔
ہرطبقے اور ہر شعبے کے لوگوں تک اس کے خطرناک جراثیم پہنچتے جارہے
ہیں،سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک ،سکولوں ،کالجوں سے لے کر
ہسپتالوں تک ہر جگہ بد عہدی کی وباء پھیل چکی ہے۔چنانچہ سرکاری اداروں میں
کام کرنے والے لوگ سرکار سے امانت اور سچائی کا عہد لے کر نوکری کرتے ہیں
لیکن اپنے اس عہد کا ایفاء نہیں کرتے اور کام چوری جیسی مذموم حرکات کاسر
عام ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
نبی ﷺ کے ایفائے عہد کے واقعات:حضرت حذیفہ بن یمانؓ مشہور جلیل القدرصحابہ
کرام ؓ میں سے ہیں۔آپ ؓ قبیلہ بنو عبس سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے وطن ہی
میں اپنے والد ماجد’’حضرت حسل‘‘(جن کا لقب یمان تھا) کے ساتھ اسلام لے آئے
تھے ۔اسلام لانے کے بعدیہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہونے کے لیے
روانہ ہوئے ۔اتفاق سے یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم غزوہ بدر
کی تیاری فرمارہے تھے اور آپ کے مقابلہ کے لیے ابوجہل کا لشکر مکہ مکرمہ سے
روانہ ہوچکا تھا ۔حضرت حذیفہ بن یمان اور آپ کے والدکی راستے میں ابوجہل کے
لشکر سے مڈبھیڑ ہوگئی ۔انہوں نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور کہا کہ تم
محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جارہے ہو۔انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو مدینہ
جارہے ہیں۔اس پر ابوجہل کے لشکر والوں نے ان سے کہاکہ ہم تمہیں اس وقت تک
آزاد نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے ساتھ یہ معاہدہ نہ کرو کہ تم صرف مدینہ
جاؤ گے ،لیکن ہمارے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ نہیں دو گے ۔مجبوراً ان حضرات
نے یہ معاہد ہ کرلیا ،اور اس کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت
میں پہنچ کر یہ سار اواقعہ ذکر کیا ۔اُس وقت حق وباطل کا سب سے پہلا معرکہ
درپیش تھا ۔مقابلہ ان کفار ِ قریش سے تھا جو اسلحہ میں غرق ہوکر آئے تھے ،اور
جن کی تعدا د مسلمانوں کے مقابلہ میں تین گنا سے بھی زائد تھی ۔ادھر
مسلمانوں کے لیے ایک ایک آدمی بڑا قیمتی تھا،لیکن حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے اتنے سنگین اور مشکل حالات میں بھی معاہدے کی خلاف ورزی کو برداشت
نہ کیا اور ارشاد فرمایاکہ ’’ہم اُ ن کے عہد کو پورا کریں گے اور کفار کے
خلاف اﷲ عزوجل سے مد د مانگیں گے ‘‘(صحیح مسلم ) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کو اس بنا پرپہلے اسلامی معرکے (غزوہ بدر) میں شرکت
کی اجازت بھی نہیں دی۔
دوسرا واقعہ:آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت اور ایفاء عہدکا ایک اور واقعہ
یہ ہے کہ عبداﷲ بن ابی الحمساء ؓایک صحابی ہیں ان کا بیان ہے کہ بعثت سے
پہلے میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کا کوئی معاملہ کیا ،پھرجوکچھ
میں نے دینا تھا اس کا کچھ حصہ تو میں نے وہیں دے دیااور کچھ ادا کرنا باقی
رہ گیا ،تو میں نے آپ سے وعدہ کرلیا کہ میں اسی جگہ لے کر آتاہوں۔اتفاق سے
تین دن تک مجھ کو اپنا وعدہ یا د نہ آیا ،تیسرے دن جب وعدہ گاہ پر پہنچا
توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا ،لیکن اس وعدہ خلافی سے آپ کی
پیشانی پر بل تک نہ آیا ،صرف اس قدر فرمایا کہ’’ تم نے مجھے مشکل میں ڈالا
اور زحمت دی ، تین دن سے میں اسی مقام پر موجود ہوں‘‘۔(ابوداؤد)
تیسرا واقعہ:آپ ﷺ کی امانت اور ایفائے عہد کاایک اور واقعہ یہ ہے کہ رسول
اﷲ ﷺصلح حدیبیہ سے جونہی فارغ ہوئے ، حضرت ابوجندلؓ خون میں لہولہان اور
پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تشریف لائے ۔ آکر مسلمانوں سے عرض کناں ہوئے کہ
انہیں مدینہ لے جایا جائے ۔ آپﷺنے اہل مکہ سے بات کی تو وہ نہ مانے ، تو آپ
ﷺ نے معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے حضرت ابوجندلؓ کو واپس بھیج دیا ۔
عبداﷲ بن مبارک کا ایفائے عہد: مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداﷲ بن
مبارک بیان کرتے ہیں میرا ایک جہاد میں ایک مجوسی سے مقابلہ ہو رہا تھا کہ
نماز کا وقت آ پہنچا، میں نے مجوسی سے عہد کیا کہ جب تک میں نماز سے فارغ
نہیں ہو جاتا تُو مجھ پر حملہ نہیں کرے گا۔ چنانچہ اس نے وعدے پر عمل کیا
یہاں تک کہ میں نے نماز مکمل کی، جب سورج غروب ہونے لگا تو اس نے کہا اب
تُو بھی مجھے میری عبادت کا موقع دے یہاں تک کہ میں سورج کو سجدہ کر لوں،
آپ نے عہد کر لیا مگر جب وہ سورج کو سجدہ کرنے لگا تو آپ نے اسے شرک کرتے
برداشت نہ کیا اور اس پر حملہ آور ہونے لگے ، ضمیر نے آواز دی’’اوفو ا
بالعقود‘‘ اپنے عہد کو پورا کرو، آپ یہ آواز سنتے ہی واپس پلٹے ، مجوسی نے
فراغت کے بعد آپ سے پوچھا! عبداﷲ بن مبارک آپ تو مجھ پر حملہ کرنے والے تھے
پھر کس چیز نے آپ کوواپس پلٹنے پر مجبور کر کیا آپ نے فرمایا جب تُو آفتاب
کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو میری غیرت نے گوارہ نہ کیا، میں نے تجھے قتل کرنا
چاہا مگر ضمیر نے پُکارا’’ جب تم عہد کرو تو پورا کرو‘‘۔ مجوسی یہ سن کر
بولا کہ آپ کا رب کتنا اچھا ہے کہ اپنے دوست پر اپنے دشمن کے لئے تنبہہ
فرماتا ہے ، یہ کہا اور پُکار اٹھا اشھد ان لا الہ الاﷲ واشھد ان محمد رسول
اﷲ اور زمرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
وعدہ خلافی، وقت کی پابندی نہ کرنا ، معاہدوں کو اہمیت نہ دینا ، کسی سے
کیا گیا پیمان صرف نظر کردینامعاشرے کی وہ خرابیاں ہیں جن سے باہمی تعلقات
، محبت والفت ، میل جول کی بجائے فتنہ وفساد پھیل جاتا ہے ، آج اکثر لوگ
معاشرے میں ہونے والی بہت ساری خرابیوں کا رونا روتے ہیں وہاں اس بات پر
بھی شکوہ کناں نظر آتے ہیں کہ انکی اصلاح کا فریضہ انجام دینے والے کم
ہوگئے ہیں ، حالانکہ ہرشخص اگر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرلے تو نوے فیصد
معاملات خود بخود حل ہوجاتے ہیں ۔لوگوں کے ذہنوں میں آج عہد ، معاہدے ، وقت
کی پابندی کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ، لوگ سمجھتے ہیں صرف قرض یا لین
دین کا ہی وعدہ سے تعلق ہے ، حالانکہ زندگی کے ہر معاملہ میں عہدوپیماں سے
گذرتے ہیں ، لین دین، رشتے ناطے ، اپنے ہوں یا بیگانے ان سے معاہدے ، مسلم
ہو یا غیرمسلم اسے سے برتاؤ، اسلام ہر معاملہ میں سچائی ، راست بازی،
ادائیگی حقوق کا حکم دیتا ہے ۔ اسلام میں عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا
گیااورعدہ خلافی کو کبیرہ گناہ میں شامل گیا ، عہد شکنی کی مذمت کی گئی ،
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ عہد کو پورا کرو ، کیونکہ قیامت کے دن عہد کے بارے
میں انسان جواب دہ ہوگا ‘‘(بنی اسرائیل) قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے
جو وعدے کو پورا کرتے ہیں ، اﷲ نے اہل ایمان کی صفات میں عہد کو پورا کرنے
کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ،اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی ان اہل ایمان میں داخل کریں
اور ہمیں اسلام کی دولت سے مالامال کر کے ایفائے عہد کا پاسدار بنا
دے(آمین) |
|