افغانستان.....امریکا حیران وپریشان

کابل میں حالیہ خودکش حملے کے بعدتواب ممکنہ امن مذاکرات کاباب بندہی نظر آتاہے۔ امن مذاکرات کے بارے میں موجودہ افغان حکومت نے افغانستان میں امریکی فوج کوجونہی ضرورت قراردیاتواس کے بعدطالبان نے کابل میں براہِ راست حملہ کرکے اپنے ردّعمل کااظہار کر دیاہے۔۱۹/اپریل کوطالبان کی جانب سے افغان انٹیلی جنس ہیڈکوارٹرپرکیاجانے والاخودکش حملہ کابل کی تاریخ کاسب سے بڑاخوفناک حملہ تھاجس کے نتیجے میں این ڈی ایس ہیڈکوارٹرکی کابل سے ملحق''ڈیپارٹمنٹ۱۰''کی عمارت مکمل طورپرزمین بوس ہوگئی۔روسی خبری پورٹل ریانووستی کے کابل میں موجودنامہ نگارنے بتایاہے کہ زیادہ ترہلاکتیں کاربم دہماکے میں ہوئیں اورانٹیلی جنس ہیڈکوارٹرکی اہم عمارت گرنے سے متعدداہم سرکاری افسراان واہلکارملبے تلے دب کر ہلاک ہوگئے ہیں جن کاتعلق وی آئی پی پروٹیکشن یونٹ سے تھا۔ طالبان فدائیوں نے کابل کے انتہائی ہائی سیکورٹی زون میں اس وقت خودکش حملہ کیاجب این ڈی ایس ہیڈکوارٹرمیں اسپیشل گارڈزکی گریجوایشن تقریب کا انعقادہورہا تھاجہاں اہم شخصیات طالبان کاہدف تھیں۔

الجزیرہ ٹی وی کے مطابق طالبان فدائیوں کے مزیدحملے روکنے کیلئے افغان اورغیرملکی فورسزکی کاروائی اگلے کئی گھنٹے جاری رہی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوسکی ۔ادھر نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکورٹی کے ایک ترجمان نے جرمن نیوزایجنسی ڈی پی اے سے گفتگومیں تصدیق کی ہے کہ ابتدائی جائزے کے مطابق ان کے پندرہ اہلکاروافسران دہماکے میں ہلاک ہوگئے ہیں جس کے بعد افغان صدراشرف غنی کی ہدائت پرامریکی اورافغان اسپیشل سیکورٹی ''کرائسس رسپانس یونٹ''کی خصوصی ٹیم نے طالبان کامقابلہ کرنے کیلئے کاروائی کا آغاز کیا لیکن خاطرخواہ کامیابی نہیں ہوسکی جبکہ بھارتی اخبارٹائمزآف انڈیاکے نمائندے نے کابل میں بھارتی سیکورٹی حکام کے حوالے سے تسلیم کیاہے کہ دہماکے کے نتیجے میں پوری انٹیلی جنس عمارت زمین بوس ہوگئی جبکہ نصف درجن کے قریب طالبان فدائیوں نے قریبی عمارت میں گھس کرمزیدخوفناک تباہی مچائی ۔خودکش دہماکے اورطالبان فدائیوں کے دھاوے میں متعددغیرملکی فوجی بھی ہلاک ہوگئے ہیں جن کی تعدادکوفی الحال خفیہ رکھاجارہاہے۔

کابل میں ایک بھارتی سفارت کارکاکہناہے کہ طالبان کی جانب سے موسم گرما کے ''عمری آپریشن''کایہ سب سے بڑاخوفناک حملہ ہے حالانکہ چین،پاکستان امریکااورافغانستان کی جانب سے طالبان قیادت پر مسلسل دباؤ ڈالاجارہاہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میزپربیٹھ کرافغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں لیکن طالبان نے اس ضمن میں پاکستان اورامریکاکے دباؤ کوبھی خاطرمیں نہ لانے کاعزم کیاہے اورآپریشن عمری کے ذریعے افغان اور امریکی افواج کویہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ طالبان اب بھی ناقابل تسخیرہیں۔افغان اینالائس نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگارتھامس رٹنگ کا کہناہے کہ طالبان کے نئے امیرنے کابل دہماکے کے ذریعے یہ واضح پیغام دیاہے کہ وہ اپنی مرضی کے تحت مذاکرات اور جنگ کریں گے۔

طالبان کے دوٹوک مؤقف نے منتشرطالبان دھڑوں کو بھی آپس میں متحدکردیا اورملااخترمنصورکے سب سے بڑے مخالف ملّاقیوم ذاکرنے ملااختر منصور کی بیعت کرکے نہ صرف طالبان کومتحدکردیاہے بلکہ موسم گرمامیں طالبان کیلئے ایسا پلیٹ فارم بھی فراہم کردیاہے جس نے افغانستان میں غیر ملکیوں پر بڑے پیمانے پرحملوں کاابھی سے آغازکردیاہے کیونکہ گوانتاناموبے جیل جانے سے قبل ملاذاکرافغانستان میں طالبان کے فوجی سربراہ رہ چکے ہیں،ان کو اس لئے گرفتارکیاگیاتھاکہ وہ افغان طالبان کے ملٹری سربراہ تھے۔ اب ان کے واپس آنے ،ان کے وہ ساتھی جوکیوبامیں ان کے ساتھ قیدتھے اور۳۳۹طالبان کمانڈروں سمیت وہ ہزاروں طالبان جنگجوجوگزشتہ سال مصالحتی کمیشن کی مداخلت پر کرزئی دورمیں بگرام جیل سے رہاہوئے تھے،وہ سب عبدالقیوم ذاکرکے ساتھ مل گئے تھے جس سے وہ طالبان میں ایک مضبوط دھڑا تصور کیا جارہا تھا۔ عبدالقیوم ذاکر کا صرف ایک ہی اختلاف تھاکہ وہ کسی صورت امریکی انخلاء سے قبل مذاکرات کے حق میں نہیں تھے کیونکہ امریکانے گوانتانا موبے میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو دہشتگردقراردیکرنہ صرف انسانیت سوزتشددکیا بلکہ ان مسلمانوں کوذہنی ٹارچردینے کیلئے قرآن مجیداورکتب احادیث کی ناقابل بیان بے حرمتی محض اس لئے کی کہ ان کوذہنی طور پرمفلوج کردیاجائے لیکن الحمد اللہ وہ اپنے مقصدمیں قطعی کامیاب نہیں ہوسکااوربالآخرانہیں رہاکرناپڑا بلکہ رہائی ہی امریکاکی شکست کی ابتدا ہے۔

ملّاعبدالقیوم ذاکرکاپہلے دن سے یہی مؤقف ہے کہ امریکامذاکرات کی آڑمیں افغانستان میں اپنے قیام کوطول دیناچاہتاہے اوراس کاواحدحل جنگ کے سوا کچھ اورنہیں ۔ مذاکرات شروع کرنے کے طالبان کے فیصلے پرملّاعبدالقیوم ذاکر ناراض تھے لیکن اب طالبان کی جانب سے امریکی انخلاء تک مذاکرات نہ کرنے کی شرط پرعلماء کے مصالحتی وفدکواپنی جانب سے طالبان کے ساتھ اپنے اختلافات مکمل طورپرختم کرکے ملامنصورکے ہاتھ پربیعت کرلی ہے اوراب طالبان ایک بہت بڑے مضبوط دھڑے کے ساتھ سامنے آئے ہیں جس کے بعدافغان حکومت نہ صرف شدیددباؤمیں ہے بلکہ مصالحتی کمیشن کے اندربھی شدید اختلافات پیداہوگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اگرطالبان پرمذاکرات کیلئے مزیددباؤڈالاگیاتوطالبان سخت لائحہ عمل اختیارکریں گے ،اس لئے اندرونِ خانہ افغان مصالحتی کمیشن کے سربراہ پیرسیدگیلانی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح طالبان کودوبارہ مذاکرات کیلئے آمادہ کیاجاسکے۔ذرائع کے مطابق طالبان کے ساتھ رابطے ضرورہوئے ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ملی مگروہ مسلسل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ملّاعبدالقیوم ذاکر کی ملامنصورکے ہاتھ پر بیعت کے بعد افغان حکومت پردباؤ بڑھ گیاہے جبکہ افغان حکومت کے حامی عطاء محمدنوراورنائب صدر رشیددوستم کے درمیان شمالی افغانستان میں حالات کشیدہ ہورہے ہیں جس سے نہ صرف افغان حکومت مشکلات کاشکارہے بلکہ ایک بار پھرافغان صدر نے پاکستان پرالزامات عائدکرناشروع کردیئے ہیں کہ پاکستان،افغانستان میں غیراعلانیہ جنگ بندکرے۔ اب اگرطالبان مذاکرات نہیں کرتے تواس میں پاکستان کیاکر سکتا ہے۔پاکستان نے جوکوششیں کیں ان کوافغان حکومت نے ہربار سبوتاژ کیاجس کی وجہ سے آج تک مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے اورحامدکرزئی جاتے ہوئے اپنے مربّی وآقاامریکاکے ساتھ بھی ہاتھ کر گیا اوراس نے معاہدے پردستخط نہیں کئے اوراسے موجودہ صدر کیلئے چھوڑدیا اورموجودہ صدرنے دستخط کرکے اپنے لیے مشکلات بڑھا لیں اوراب کرزئی نے درپردہ کوششیں شروع کردی ہیں کہ لوگ کہیں کہ موجودہ صدربھی افغانستان میں ناکام ہیں جوطالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکے۔

ایک طرف کرزئی امریکیوں کویہ باورکرارہاہے کہ اشرف غنی مذاکرات کیلئے اہل نہیں ہیں اوران کا کنٹرول ختم ہورہاہے اور دوسری طرف افغان قوم کو یہ باورکرانے کی کوشش کررہاہے کہ انہوں نے امریکاکے ساتھ معاہدے پردستخط نہیں کئے اور انہیں تحفظات تھے۔اس وقت نہ صرف کرزئی شمالی اتحاد اورہندوستان کے ساتھ مل کرپاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور مذاکرات سبوتاژ کرنے کے منصوبوں میں لگاہواہے بلکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کوبدنام بھی کررہاہے۔ دوسری جانب امریکا کرزئی کی جانب سے مذاکرات کوسبوتاژکرنے پربرہم ہے۔ بالاخر امریکاکوکہناپڑاہے کہ کرزئی سی آئی اے کی تنخواہ پرکام کررہے تھے جس کے بعد کرزئی بظاہرتوخاموش ہوگئے تاہم اب انہوں نے قبائلیوں کویہ باورکراناشروع کرادیاہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ۔تاہم طالبان کاکہناہے کہ امن مذاکرات کی کامیابی کی کنجی امریکاکے پاس ہے اوراگر امریکاچاہے توایک دن میں بھی مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ادھرطالبان کی جانب سے آپریشن شروع کرنے کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے کابل میں امریکی سفارت خانے نے امریکی شہریوں کے لیے ایک ہنگامی وارننگ جاری کرتے ہوئے امریکی شہریوں کو ہوشیار رہنے کی تاکیدکی کہ انہیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ افغان مزاحمت کار کابل میں ایک بڑے ہوٹل پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔رواں سال موسم سرمامیں طالبان نے شمالی افغانستان میں قندوزپرتھوڑے عرصےکیلئے قبضہ کرنے کے علاوہ جنوبی صوبے ہلمند کے بڑے حصے کو اپنے تسلط میں لے چکے ہیں۔ہلمند جہاں گزشتہ ایک عشرے سے جاری جنگ میں امریکااوربرطانیہ کے ہزاروں فوجی طالبان سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، افغانستان کی افواج کئی علاقوں کو خالی کرچکی ہیں اورصوبائی دارالحکومت لشکر گاہ پر اپنے قبضہ قائم رکھنے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔گمان یہ ہے کہ آئندہ چندماہ میں اس خطے میں امریکا اپنی ناکامی پرجھنجلاکردنیاکوایک مرتبہ پھرحیران اورپریشان کرسکتاہے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 389977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.