’میڈیا کا دوہرا رویہ‘
(nazish huma qasmi, mumbai)
میڈیا بڑی عجیب چیز ہے۔ اسے جمہوریت کاچوتھا ستون بھی کہا گیا ہے ۔
اگر میڈیا کسی پر مہربان ہوجائے تو راتوں رات اسے قومی ہیرو کا درجہ دے دیتا ہے خواہ وہ فوج کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر میڈیا کسی کے خلاف ہوجائے تو پلک جھپکتے ہی اسے غدار وطن ثابت کردیتا ہے۔ میڈیا اگر حقیقت بیانی پر آمادہ ہوجائے تو بڑے بڑے اسمگلروں کی گردن دبوچ لیتا ہے لیکن حقیقت کو چھپانے پر آجائے تو لاکھوں کروڑوں کے غبن کو سرد بستے میں ڈال دیتا ہے۔ میڈیا عوامی ذہن بھٹکانے اور جذبات سے کھیلنے میں بھی ماہر ہے ۔ قاتل کو وزیر اعظم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ایشو کو نون ایشو بنانا ہو یا پھر نون ایشو کو ایشو بنانا تو یہ کام بھی میڈیا بڑے خلوص کے ساتھ انجام دیتا ہے ۔ |
|
میڈیا بڑی عجیب چیز ہے۔ اسے جمہوریت
کاچوتھا ستون بھی کہا گیا ہے ۔
اگر میڈیا کسی پر مہربان ہوجائے تو راتوں رات اسے قومی ہیرو کا درجہ دے
دیتا ہے خواہ وہ فوج کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر میڈیا کسی کے خلاف
ہوجائے تو پلک جھپکتے ہی اسے غدار وطن ثابت کردیتا ہے۔ میڈیا اگر حقیقت
بیانی پر آمادہ ہوجائے تو بڑے بڑے اسمگلروں کی گردن دبوچ لیتا ہے لیکن
حقیقت کو چھپانے پر آجائے تو لاکھوں کروڑوں کے غبن کو سرد بستے میں ڈال
دیتا ہے۔ میڈیا عوامی ذہن بھٹکانے اور جذبات سے کھیلنے میں بھی ماہر ہے ۔
قاتل کو وزیر اعظم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کرنے میں اس کا کوئی ثانی
نہیں۔ ایشو کو نون ایشو بنانا ہو یا پھر نون ایشو کو ایشو بنانا تو یہ کام
بھی میڈیا بڑے خلوص کے ساتھ انجام دیتا ہے ۔ کچھ دنوں قبل ہمارے ملک کے ایک
شخص نے کہا تھا کہ اب اس ملک میں بات ہوگی تو بنیادی چیزوں پر بات ہوگی،
ڈبیٹ ہوں گے تو عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر بحث ہوگی، اس ملک کا بنیادی
مسئلہ یہاں کا غریب طبقہ ہے جسے کھانے کیلئے روٹی میسر نہیں ہے، جسے علاج و
معالجہ کیلئے پیسہ نہیں ہے، سرکاری اسپتالوں کا حال اس قدر بْرا ہے کہ ہر
آئے دن کہیں نہ کہیں کوئی مریض ڈاکٹروں کی لاپرواہی کے سبب اپنی جان
گنواتا ہے، مہنگائی کی مار سے غریب تو غریب ملک کا متوسط طبقہ بھی عاجز
آچکا ہے اور ان جیسے بے شمار مسائل ہیں جن پر چرچہ ہونا ضروری ہے جن کے حل
کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، یہ مسائل کوئی عقدہ لاینحل نہیں ہے کہ
انہیں چھوڑ دیا جائے، لیکن بھلا ہو ہماری فعال و متحرک میڈیا کا جو ہمیشہ
برق رفتاری سے خبریں نشر کرتی ہےاور اتنی برق رفتاری سے کہ وہ یہ بھول جاتے
ہیں کہ عوام کے اصل مسائل کیا ہے، پھر چند دنوں بعد بھگوا لیڈر نے بیان دیا
کہ ان نوجوانوں کو سکھانا پڑے گا کہ بھارت ماتا کی جے، بولے، بس پھر کیا
تھا اس سے بڑا ایشو ملک میں اور کوئی تھا ہی نہیں، کیونکہ یہی تو حب الوطنی
کا معیار ہے، یہ جملہ سارے پاپ دھودیتا ہے، لیکن اس بیان پر جو ردعمل سامنے
آیا ہے اس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، جس طرح میڈیا نے اسے
ایشو بنایا ہے اور بھانت بھانت کی کوڑی لاکر عوام کو ورغلانے کی کوشش کی ہے
یہ میڈیا کی بہت بڑی کامیابی ہے،میڈیا اس بار بھی ہمیشہ کی طرح عوام کے
ذہنوں کو موڑنے میں کامیاب رہا ہے، مہاراشٹر کے وزیراعلٰی نے کہا تھا
جو’’بھارت ماتا کی جے‘‘نہیں بولتا اسے ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے۔ مہاراشٹر
کے کسان خودکشی کررہے ہیں، خشک سالی نے رہی سہی امیدوں کو بھی توڑ دیا ہے،
بہت سے وہ علاقہ ہیں جہاں پینے کے پانی کیلئے گھنٹوں لائن لگانا پڑرہا ہے،
وہ بھی مل جائے تو غنیمت انسان تو انسان جانور بھی جانیں گنوا رہے ہیں مگر
اصل مسئلہ تو حب الوطنی کا ہے، وندے ماترم کہدو، بھارت ماتا کی جے کہدو
کافی ہے پھر چاہے تم ملک کا لاکھوں کروڑوں روپے لیکر رفو چکر کیوں نہ ہو
جاؤ لیکن آپ کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا ہے ۔پھر جب پٹھان
کورٹ حملہ کی تفتیش کررہے این آئی اے آفیسر تنزیل احمد کو گولیوں سے
چھلنی کردیا گیا تو لگا کہ اب میڈیا کا رخ بدلے گا، اب عوام کو یہ بتایا
جائے گا کہ ہمارے ملک کے شہداء کے قاتلوں کو پکڑنے والا ہاتھ اب خود مقتول
بن چکا ہے، میڈیا اس پر چیخے گا چلائے گا، ایوان حکومت تک اسکی دلدوز و
دلخراش صدائیں سنائی دیں گی، قوم کے بڑے بڑے لیڈروں کے بیانات آئیں گے،
کچھ سیکولر لیڈر اس کی غمزدہ فیملی کے پاس اظہار تعزیت کیلئے تشریف لے
جائیں گے، قاتلوں کو پکڑنے کیلئے ہر طرف سے صدائیں بلند ہوں گی، کنڈل مارچ
ہوگا، میڈیا کا جم غفیر اس کے گھر کے ارد گرد ہوگا، لوگوں کا تانتا بندھا
ہوگا، اس کے بچوں کو دلاسہ دینے کیلئے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کیا جائے
گا، قاتلوں کو صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا جائے گا۔ کیونکہ
تنزیل احمد کوئی عام آدمی نہیں تھا وہ تو این آئی اے کا ایماندار آفیسر
تھا، وہ اس ٹیم سے وابستہ تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک کی بھی خبر
دریافت کرلیتی ہے، وہ ہر طرح کے جانچ کی اہل ہے، جو دوسروں کے کیس حل کرنے
کا ہنر جانتی ہے لیکن اس کا ایک قابل افسر گولیوں کی نذر ہوگیا اور قاتل
دسترس سے باہر ہے۔ میڈیا خاموش رہی ۔ کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی ۔ کوئی
اینکر اپنا حلق پھاڑ کر یہ نہیں بتایا کہ تنزیل احمد کو کس نے مارا ہے، اس
کے قاتلوں کو پکڑنے کے خاطر خواہ اقدامات کئے جارہے ہیں یا نہیں، اس طرح کی
کوئی بھی بات سامنے نہیں آئی۔ اور آئے بھی کیونکر، تنزیل احمد کی موت
کوئی ایشو نہیں ہے، تنزیل احمد نے گولیاں کھائی تو کیا ہوا، بہت سے فوجی
گولیاں کھاکر جان دیتے ہیں، پولس والوں کی لاشیں گرتی ہے یہ سب تو ملک میں
ہوتا ہی رہتا ہے، یہ کوئی ایشو نہیں ہے جس پر میڈیا اپنا زور صرف کرے، اپنا
قیمتی وقت ضائع کرے، ملک کا اصل ایشو تو یہ ہے کہ آپ نے بھارت ماتا کی جے
کہا یا نہیں، وندے ماترم پڑھتے ہیں یا نہیں ۔ میڈیا کے دوہرے معیار کا
اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ مالیگائوں بم بلاسٹ کے مسلمانوں کو
پھنسانے میں جو کردار ادا کیا اور چیخ چیخ کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے
10 سال تک قید وبند میں ڈالوادیا لیکن جب وہی با عزت بری ہوئے تو کوئی نیوز
نہیں کوئی خبر نہیں کہیں بھی کسی بھی طرح کا کوئی چرچہ نہیں۔
جو ملک کبھی پوری دنیا میں اپنی یکجہتی کیلئے نمونہ سمجھا جاتا تھا اب اس
کی جگہ فرقہ واریت نے لے لی ہے،اب حب الوطنی کا معیار بدل رہا ہے، قانون
بدلے جارہے ہیں، لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے، ہم خود کہتے ہیں کہ میڈیا حقائق
سے چشم پوشی کرتا ہے، میڈیا اپنی اصل ساخت کو فراموش کربیٹھا ہے، میڈیا کا
کام تو محض خبر دینا ہے اب میڈیا فیصلہ سنانے لگا ہے، عوام کی اکثریت اب
بھی میڈیا کو اپنا اصل آلہ علم مانتی ہے، میڈیا کی خبروں پر چرچہ ہوتا ہے
لیکن افسوس کہ میڈیا کے کردار پر کوئی چرچہ نہیں ہوتا، میڈیا کے ذریعہ غلط
بیانی کرنے والوں پر کوئی دفعہ نافذ نہیں ہوتی، عوام کو ورغلا کر اصل مدعی
سے پھیرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی، سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہونا بھی
نہیں چاہئے، عوام کا کام صرف سننا ہے سنانا نہیں، سہنا ہے بولنا نہیں،
دیکھنا ہے اس پر فیصلہ کرنا نہیں، اصل کام تو میڈیا کا ہے، یہ طے کرنا کہ
ملک کو کیا مسائل درپیش ہے، کن وجوہات سے ملک ترقی کرسکتا ہے کون لوگ ہے جو
ملک کی ترقی کے آڑے آرہے ہیں ان کی نشاندہی کرنا ہے اور یہ بتانا کہ ملک
کا سب سے بڑا ایشو کیا ہے اور اس وقت ملک کا سب سے بڑا ایشو اظہر من الشمس
ہے’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کہنا ہی سب سے بڑا ایشو ہے اس کے علاوہ تو جزئیات
ہیں جو قابل توجہ نہیں ہے۔ |
|