مزید جگالی!

 میں نے وفاقی وزیر مملکت کی ایک تقریب میں کی جانے والی گفتگو اخبار میں پڑھی، خبر پڑھ کر مجھے دیہات کا زمانہ یاد آگیا۔ گرمیوں کے موسم میں لوگوں کے پاس بہت فرصت ہوا کرتی تھی، بس گیار بارہ بجے دن کے بعد کوئی کام نہیں ہوتا تھا، اور شام کو پانچ بجے سے پہلے تک لوگ درختوں کے نیچے دبکے رہتے، ٹیوب ویلوں، راجباہوں، نلکوں اور کھالوں میں نہاتے اور گیلے کپڑے اوپر لے کر سو جاتے، گھنے درختوں تلے ان کے مویشی بندھے ہوتے اور ایسے ہی ماحول میں ان کی چارپائیاں پڑی ہوتیں۔ دیہاتیوں کی مصروفیات ہوتی کیا ہیں، کھیتوں میں ہل چلانا، مویشیوں کو چارہ ڈالنا اور کھیتوں کو پانی لگانا۔ اگرچہ دیگر فصلوں کے چننے کا بندوبست اور کئی فصلوں کے برداشت کی مصروفیات بھی ہوتی ہیں، تاہم یہ سب کچھ اب مشینی ترقی نے قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔ حتیٰ کہ دیہاتیوں کی مصروفیات بھی شہریوں جیسی ہی ہو چکی ہیں۔ دیہات میں صرف کسان ہی گرمیوں میں فارغ نہیں ہوتے، بلکہ مویشی بھی پوری دوپہر فراغت میں ہی گزارتے ہیں، اس دوران جب یار لوگ گہری نیند بھی سو جاتے ہیں، ایسے میں مویشی ایک کام کرتے ہیں اور کرتے ہی چلے جاتے ہیں، وہ ہے جگالی۔ کیا بھینس، کیا گائے، بیل ہو یا بکری، ایک ہی کام پر لگے ہوئے ہیں، کبھی اونگھ بھی لیتے ہیں، کبھی کسی مکھی وغیرہ کے تنگ کرنے سے دُم کو حرکت دیتے ہیں، جب بیٹھ بیٹھ کر تھک جاتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں تو کچھ دیر کے لئے بیٹھ جاتے ہیں۔

جگالی وہ کام ہے جس میں نہ وقفہ ہے اور نہ رکاوٹ، اس میں بیٹھنے اور اٹھنے کی بھی پابندی نہیں، جس صورت میں چاہیں، جگالی کرتے جائیں۔ جگالی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس سے جانور تھکتا نہیں، یقینا یہ ان کی فطرت کا حصہ ہے، او ر جب کوئی کام فطرت کے خلاف کیا جائے تو انسان ہو یا حیوان اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ جب ہم کوئی بات بار بار کرتے ہیں اور تکرار پر اصرار کرتے ہیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں بات کی جگالی کی جارہی ہے۔ یہ جگالی ہر طبقہ کرتا ہے، ہم کالم لکھنے والے جگالی نہ کریں تو کالم لکھنا ممکن نہ رہے، کیونکہ ہمارے سامنے وہی ایشوز ہوتے ہیں، جو ہر روز دہرائے جاتے ہیں، وہی کرپشن، وہی مراعات، وہی عیاشیاں، وہی پِٹ سیاپا، وہی سوال ، وہی جواب، وہی دعوے، وہی وعدے ۔ سب کچھ وہی، سب کچھ جوں کا توں، سب کچھ حسبِ سابق، سب کچھ ویسے کا ویسے۔ اگر اپوزیشن حکومت پر مختلف الزامات لگاتی ہے تو حکومت بھی روایتی جواب دیتی ہے۔ دلائل کا زور کم، دعووں اور جواب دعووں کی کہانی زیادہ۔ کرپشن کرنے اور اسے ثابت کرنے کی جگالی۔ پسماندگی کے رونے اور ترقیاتی کاموں کی فراوانی کی جگالی، بے روز گاری اور روزگار کے مواقع کی جگالی، ناخواندگی، سکولوں میں سہولتوں کے کم ہونے کی جگالی ، تعلیمی ترقی اور دانش سکولوں کے قیام کی جگالی۔

جنوبی پنجاب میں محرومیوں کی جگالی، جنوبی پنجا ب میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھانے کے دعووں کی جگالی۔ لوڈشیڈنگ کا ہنگامہ، لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے اعلان کی جگالی۔ پانامہ لیکس کے دعوے اور ان سے ایک جنبش میں نکل باہر کھڑے ہونے کی جگالی۔ اپوزیشن کے جلسے، حکومت کے جوابی جلسے بھی جگالی۔ سو وہ کونسا کام ہے جو جگالی کی ذیل میں نہیں آتا، کون سا طبقہ ہے جو مویشیوں کی طرح جگالی نہیں کرتا۔ ہم صحافی، وہ سیاستدان، وہ مذہبی رہنما، وہ این جی اوز اور دیگر تمام طبقات اپنے اپنے مقام پر رہ کر جگالی میں مصروف ہیں، بس خوراک میں کچھ تبدیلی ہو سکتی ہے، مگر جگالی ہر صورت میں ہوگی۔ بات چلی تھی اپنے معزز وزیر مملکت برائے تعلیم میاں بلیغ الرحمن کی ایک تقریب میں بات چیت سے اور پہنچ گئی جگالی تک، جو ہم سب کرتے ہیں۔ جگالی کو ایک طرف کریں، ایسے ہی موضوع خراب کرنے والی بات ہے۔ وزیرمملکت نے دیگر کے ساتھ دو بہت اہم باتیں کیں، ایک یہ کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ بارھویں جماعت تک قرآن پاک باترجمہ پڑھنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، جس پر بہت جلد عمل شروع ہوجائے گا۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں بہت سے بچے سکولوں سے باہر ہیں انہیں بہت جلد سکولوں میں لانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ چونکہ یہ دونوں باتیں ایک معزز وزیر مملکت نے فرمائی ہیں، اس لئے سچ ہی ہونگی، تاہم ’’بہت جلد‘‘ والی بات حوصلہ افزا ہے، ورنہ عوام تو یہی بات اس سے قبل بھی سیکڑوں مرتبہ سن چکے ہیں۔ میں نے کالم لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے، ورنہ مزید جگالی کی گنجائش ابھی باقی تھی۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.