مر جاؤ یا ما ر دو

اگر میں منتخب ہو گیا تو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دومنٹ کے اندر رہائی دلوا لو نگاکیونکہ پاکستان کو امریکہ نے بڑی امداد دی ہے اور آج تک دے رہا ہے اسی لیے وہ (پاکستانی) انکار نہیں کر سکیں گے یہ تھپڑری پبلکن پارٹی کے امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ نے جمعرات کو امریکی چینل فاکس نیوز پر دوران انٹرویو پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر دنیا کے سامنے مارا ۔دراصل انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکمران بکاؤ مال ہیں انہیں جہاں سے پیسہ ملتا ہے، پاور ملتی ہے یہ اپنوں کو بھی کاٹنے سے نہیں جھجکتے،جس کو چھڑانے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ للکارا مارا وہ بھی پاکستانی غدار اور جن سے چھڑوانے کے لئے اتنی بڑی بات پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے کی وہ بھی پاکستانی حکمران ,سر شرم سے جھک گیا کہ مغرب کا ہمارے بارے میں کیسا خیال ہے ؟ ہم کس قماش کے لوگ ہیں کہ جعلی ویکسینیشن کے ذریعے پوری دنیا کو کو مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے دوران مروا دیا۔چند ٹکوں اور اعلیٰ مراعات کیلئے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے وہ کچھ کر دکھایا جو مغرب بڑا اتحاد سالہا سال سے نہ کر سکا پاکستانی عدالتوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 2012 میں 33 سال کی قید کی سزا سنائی۔ مغربی حکمرانوں نے بھر پورکوشش کی تھی کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو نکال لیا جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے لیکن عوامی موڈ کو دیکھتے ہوئے حکومت نے حامی بھرنے کی ہمت نہ کی۔آخر کب تک ہم اس طرح اوروں کے آگے ناچتے رہیں گے اپنے اقتدار کو طول دینے اور خیرات میں ملنے والوں ڈالروں کے ذریعے معاشی صورتحال کو تسلی بخش قرار دیتے رہیں گے۔ پاکستانی عوام بڑی خوددار ہے وہ بھوکی پیاسی تو رہ سکتی ہے لیکن ایسی بات جس سے قوم کی دنیا کے سامنے اس طرح بے عزتی ہو کو قطعا برداشت نہیں کر سکتی، کسی پاکستانی حکمران کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر احتجاج کرتا ۔محکمہ خارجہ کو بھی سانپ سونگھ لیا،محکمہ خارجہ سے اوپر تو صدر اور وزیر اعظم رہ جاتے ہیں جنہیں ملک میں جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی مقبولیت دکھانے اور خود کو پانامہ لیکس سے بچانے کے علاوہ کسی بات کی فکر نہیں اگر ہو بھی تو ایسی بے عزتی ہم کئی بار کروا چکے ہیں اور ایک حکم پر سب کچھ کرنے کوتیار ہیں کا پاکستانی ریکارڈ بھی موجود ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو علم تھا کہ پاکستانی قیادت قرضوں کے ایسے جال میں پھنسی ہوئی ہے کہ اسے سر کھجانے کی فرصت نہیں ویسے بھی جس ملک کے حکمران تاجر ہوں انہیں ایسے بے عزتی ،بے عزتی نہیں بلکہ شرف عزت محسوس ہوتی ہے تاجر کو صرف اپنے کاروبار اور نفع سے غرض ہوتی ہے باقی کسی سے کیا لینا دینا۔کسی اپوزیشن والے، حکومت والے ایم این اے ،ایم پی اے نے بھی ملی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ پر تھوک دیتا، کیا ہم صرف نیوز چینلز پر اپنے اپنے لیڈران کے دفاع کیلئے اسمبلیوں میں آئے ہیں ٹی وی مذاکروں مباحثوں میں ہم کیسے اپنی وفاداری جتانے کیلئے دوسروں کی ذاتیات کو ادھیٹرنے سے گریز نہیں کرتے مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ لیڈر کی نظر میں ہماری اہمیت بڑھ جائے ملکی وقار اور فائدہ ہمارے لئے ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ وطن عزیز کی وجہ سے ہی آج ہماری عزت ہے ہماری شان و شوکت ہے،ہمارا رعب دبدبہ ہے لیکن اس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے کتے کیا کر رہے ہیں کیا کہہ رہے ہیں ہمیں کوئی سروکار نہیں جب ملک نہ رہا ، صدارت وزارت نہ رہی تو پھر دیکھتے ہیں کہ شاہوں کے وفاداروں کی حالت۔ خدا کیلئے اس ملک کیلئے بھی سوچیں جس نے آج آُ پ کو یہ رتبہ اور عزت دی ؟ جن مغربی آقاؤں کے لئے آپ اتنا کچھ کر گزرنے کیلئے بے چین ہوتے ہیں ذرا ان کی سرزمین پر اتر کر ٹریفک کی خلاف ورزی کر کے ہی دکھا دیں تو وہ قوم آپ کو دن میں تارے دکھا دے گی۔لیکن ایکہمہیں کہ اپنی بھائیوں بہنوں محسنوں کے گلے اغیار کی خوشی کیلئے کاٹنے سے گریز نہیں کرتے۔امریکہ کیلئے ہم نے چین ، ایران و دیگر عرب ریاستوں کو دوسرادرجہ دے رکھا ہے اور یہ وہ ممالک ہیں بالخصوص چائنا کہ جنہوں نے ہر آڑے وقت میں ہمارا ساتھ دیا لیکن جب بھی آزمائش کا وقت آیا دوستوں اور امریکیوں میں سے چناؤ کرنا پڑا تو ہم نے ہمیشہ دوست کو پیٹھ دکھائی اور امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوئے لیکن امریکہ نے ہمیشہ ہمیں استعمال کیا اس وقت تک خیرات دیتا رہتا ہے جب تک اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے لیکن جہاں سے اس کے نقصانات کا آغاز ہوتا ہے یا وسیع المقاصد پر حرف آتا ہے وہ طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتا ہے۔

ضرب عضب کی کامیابیاں ابتدا میں تو امریکیوں کیلئے بڑی خوشی کی خبر تھی لیکن امریکن کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ضرب عضب کے مقاصد پورا صفایا کرنے کے ہیں امریکہ کا اندازہ تھا کہ جہاں تک وہ چاہے گا آپریشن جاری رہے گا لیکن اب جب اس کے پروردہ بھی منظر عام پر آنے لگے تو اس نے پاکستانی زرخریدوں کے ذریعے طرح طرح کے بہانے اور جواز ڈھونڈنے شروع کر دئے کہیں اختیارات کا تنازعہ کھڑا کیا گیا تو کہیں رانگ قانون سازی تاکہ ضرب عضب کو فائنل مرحلے تک نہ جانے دیا جائے اور اپنے دوستوں کو بحفاظت انڈر گراؤنڈ کر لیا جائے لیکن یہ آپریشن اب چل تو پڑا ہے تو ضرور کسی نہ کسی انجام کو پہنچا کر دم لے گا ابھی تو ابتدائے عشق والی بات ہے۔ جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ پنجاب میں کچھ بھی نہیں مکمل امن ہے تو چھوٹو نے ان کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی اور اب چھوٹو کی پٹاری سے جو نکلے گا اس کے خوف سے ہی ہماری نیندیں اجڑ چکی ہیں خیر بات ٹریک سے ہٹ گئی ہماری کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے امریکی انتظامیہ نے ایف 16 طیاروں کی فروخت کا معاہدہ پاکستانی حکومت کے ساتھ کر لیا جس پر بڑی بغلیں بجائی گئیں اور اسے سفارتی کامیابی قرار دیا جانے لگالیکن اندر کی خبر رکھنے والوں نے تو اسی وقت اسے لولی پاپ قرار دیا تھا۔ اب امریکی پٹاری سے وہی دوموہیا سانپ برآمد ہوا ہے کہ ہم پاکستان پر امریکی پیسہ خرچ نہیں کر سکتے لہٰذا پاکستان کو ایف 16 کیلئے ڈالرز نہیں دے سکتے، وجہ یہ ہی ہو سکتی ہے کہ جیسا آپریشن امریکہ چاہتا تھا اور جتنا چاہتا تھا بات اس سے آگے بڑھ گئی اور اس حد تک جا پہنچی ہے جہاں سے وطن کیلئے ٹھنڈی ہواؤں کا آغاز ہو چلا ہے۔پاکستان آرمی چن کر وطن دشمن اور غیروں کے آلہ کاروں کو ننگا کر رہی ہے جس میں امریکی، افغانی اور انڈین کو بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیا یہ ممکن تھا کہ انڈین کے حاضر سروس نیوی افسر کو پاکستان سے جمہوری حکومت گرفتار کرتی ،یہ ہمت بھی ہماری افواج نے کی ۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں اب ڈو مور کا مطالبہ ممکن نظر نہیں آرہا ۔امریکیوں کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان آرمی کا جاری آپریشن کسی نہ کسی طرح ادھورا رہ جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے ماضی میں پاکستان کے اداروں نے اتنی مضبوطی حاصل نہیں کی تھی جو افواج پاکستان کے بولڈ اقدامات کی وجہ سے اب ہے پاکستان کا ہر فورم پاکستان آرمی کی طرح اب بولڈ فیصلے کرتا نظر آرہا ہے پاکستان آرمی چیف نے جس طرح آرمی میں کرپشن پر ایکشن لیا ہے نہ تو ماضی میں اس کی مثال ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں شاید ایسا ہو سکے۔یاد رہے کہ اتنے بولڈ فیصلے امریکہ کا ہاضمہ خراب کرنے کیلئے کافی ہیں کیونکہ انہیں اپنے پیدا کئے آستین کے سانپوں کے فکر پڑ گئی ہے اور اسے اپنا پاکستان کے حوالہ سے ایجنڈا لیرو لیر ہوتا نظر آرہا ہے، ایف 16 معاہدہ سے امریکہ کا بھاگنا بڑی معمولی سی بات ہے اب اگلا قدم انڈیا، افغانستان کے ذریعے دباؤ رہ گیا ہے جو آئندہ چند روز میں ہم دیکھ لیں گے۔ لیکن امریکہ کو یاد رکھنا چاہے کہ اب پاکستان میں تبدیلی آرہی ہے کیونکہ اس سے اصلی محبت کرنے والوں نے مرو یا ماردو کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
Dr Khalid Hussain
About the Author: Dr Khalid Hussain Read More Articles by Dr Khalid Hussain: 20 Articles with 11762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.