بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے مابین نئی دہلی میں ملاقات ہوئی
ہے جس میں مسئلہ کشمیر، بلوچستان و کراچی میں دہشت گردی، ہندوستان کے حاضر
سروس جاسوس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ، سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس اور
پٹھان کوٹ و ممبئی حملوں سے متعلق گفتگو کی گئی۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ
اعزاز احمد چوہدری اور ان کے بھارتی ہم منصب جے ایس شنکر کی جنوری میں
ملاقات طے تھی لیکن پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد ہندوستان نے سیکرٹری خارجہ سطح
کے مذاکرات ملتوی کر دیے اور پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی رہی۔
ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پردونوں ملکوں کے سیکرٹریوں کی یہ ملاقات
نوے منٹ تک جاری رہی۔ اس موقع پر پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط بھی موجود
رہے۔ ملاقات کے بعدپاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بتایاکہ
مسئلہ کشمیر سب سے اہم معاملہ کی حیثیت سے زیر بحث آیا اورانہوں نے واضح
طور پر کہا کہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر
کا حل چاہتے ہیں۔ ملاقات کے دوران جہاں پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے بلوچستان
و کراچی میں دہشت گردی ، کلبھوشن یادیو اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس جیسے
معاملات اٹھائے وہیں ہندوستان کی طرف سے پٹھان کوٹ و ممبئی حملوں کا واویلا
کیا گیا اور کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگی گئی جسے پاکستان نے قومی
سلامتی کا معاملہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیاہے۔
بھارت کی جانب سے پچھلے برس سیکرٹری خارجہ مذاکرات سے صرف اس لئے انکار کر
دیا گیا تھا کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت رہنماؤں سے ملاقات کیوں کی ہے؟
حالانکہ یہ روٹین کی بات تھی اور ہمیشہ سے پاکستان کا یہ رویہ رہا ہے کہ جب
کبھی بھارت کے ساتھ کسی اہم موقع پر مذاکرات یا ملاقاتیں ہونا طے پاتیں
پاکستانی ہائی کمشنرکی طرف سے کشمیری لیڈروں کو مشاورت کیلئے بلایا جاتا
اور ان سے ملاقات کی جاتی لیکن مودی سرکار نے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی
کوشش کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کارویہ اختیار کیا اور دوطرفہ مذاکرات سے انکار کر
دیا گیا۔ بعد ازاں جب پاکستان نے کسی حد تک جارحانہ رویہ اختیار کیا اور
بلوچستان میں ہندوستان کی دہشت گردی کے ثبوت بین الاقوامی سطح پر مہیا کئے
جانے لگے تو بھارت نے چانکیائی سیاست پر عمل کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف
سے دوستی کی باتیں شروع کر دیں اور ایک بار پھر سیکرٹری خارجہ سطح کے
مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا جانے لگا ۔یوں امسال جنوری میں دوبارہ دو
طرفہ مذاکرات طے پائے تو ہندوستان نے ایک مرتبہ پھر پٹھان کوٹ ایئر بیس پر
حملہ کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے سیکرٹری خارجہ مذاکرات سے انکار کر
دیااور مولانامسعود اظہر کی گرفتاری اور جیش محمد کیخلاف کاروائی کے
مطالبات کئے جانے لگے۔ اس حملہ کی ذمہ داری کشمیری تنظیموں کے اتحاد متحدہ
جہاد کونسل نے قبول کی اور کہا کہ اگر بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں
نہتے مسلمانوں کا قتل کر سکتی ہے توکشمیری مسلمان بھی پٹھان کوٹ جیسے حملوں
کا حق رکھتے ہیں۔جہاد کونسل کا واضح طوپر کہنا تھا کہ اس حملہ سے پاکستان
کے کسی ادارے یا تنظیم کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ کشمیریوں نے دنیا کی توجہ
مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت سرکار کے ظلم و ستم کی طرف دلانے کیلئے یہ
کاروئی کی ہے۔یہ بہت مضبوط موقف تھاجس کے بعد حکومت پاکستان انڈیا سے کہہ
سکتی تھی کہ یہ تمہاری آٹھ لاکھ فوج کے ظلم و بربریت کا نتیجہ ہے۔پاکستان
پر الزامات لگانے اور جھوٹے پروپیگنڈا کی بجائے تم کشمیر میں ظلم و بربریت
ختم کرو ایسے حملوں سے تماری جان جھوٹ جائے گی لیکن افسوس کہ ایسا کرنے کی
بجائے مولانا مسعود اظہر و دیگر کئی افراد کو گرفتار اور گوجرانوالہ میں
پٹھان کوٹ حملہ کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اس موقع پر محسوس ہوتا تھا کہ
نواز حکومت شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہے۔ ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ
ہندوستانی بحریہ کا حاضر سروس جاسوس افسر کلبھوشن یادیو پکڑ اگیا۔ یہ
پاکستانی اداروں کی بہت بڑی کامیابی تھی اور اس واقعہ نے پورے ہندوستان کو
ہلا کر رکھ دیا ۔کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد بھارت دفاعی پوزیشن اختیار کرنے
پر مجبور ہو گیاتاہم آہستہ آہستہ ایک بار پھر اب وہ مذاکرات پر آمادگی اور
تعلقات بہتر بنانے کا دانہ پھینک رہا ہے تاکہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر
اس کی جانب سے بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے او رملک کے دیگر حصو ں میں جاری
تخریب کاری ودہشت گردی سے پردہ اٹھانے کا سلسلہ روک دے۔ہمیں بھارت کی
چانکیائی سیاست کو سمجھتے ہوئے اقدامات اٹھانے چاہئیں اور پاکستان میں
پھیلائی جانے والی انڈیا کی دہشت گردی، اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام
بنانے کیلئے کی جانے والی سازشوں اور کلبھوشن جیسے جاسوسوں کی مجرمانہ
سرگرمیوں سے عالمی برادری کو آگاہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔حالیہ
سیکرٹری خارجہ ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے کہ جب کشمیر بھی بھارت کی
ریاستی دہشت گردی عروج پر ہے۔ ہندواڑہ میں چند دن قبل ہندوستانی فوجیوں نے
ایک کمسن لڑکی سے زیادتی کی اور جب کشمیریوں نے اس درندگی کیخلاف احتجاج
کیا تو نہتے مظاہرین پر گولیاں برسا کر چھ نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔
بزرگ کشمیری قائد سید علی گیلانی کو شدید بیماری کے باوجود رہا نہیں کیا
جارہا۔ انہیں نماز جمعہ کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں ہے۔ دختران ملت کی
سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی نے ہندواڑہ میں شہداء کے اہل
خانہ سے ملاقات کی کوشش کی تو انہیں پہلے گھر میں نظربند اور پھر حراست میں
لیکر مقامی پولیس اسٹیشن میں قید کر دیا گیا۔ اسی طرح محمد یٰسین ملک، میر
واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خاں، محمد اشرف صحرائی اوردیگر
کشمیری لیڈروں کو مسلسل نظربندیوں وگرفتاریوں کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے
اور ان کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بھارتی فورسز
نہتے مظاہرین کے احتجاج کو کچلنے کیلئے پیلٹ گنوں جیسے ممنوعہ ہتھیار
استعمال کر رہی ہے جس سے کئی نوجوانوں کی بینائی چلی گئی ہے مگر انسانی
حقوق کے عالمی اداروں اور مغربی ملکوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے
اور کشمیریوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں کی جارہی ۔ہندوستانی جاسوس
افسر کلبھوشن کی گرفتاری کا مسئلہ لے لیں تو اس پر بھی مودی سرکار اپنی
غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے قونصلر سطح تک رسائی کے مطالبات کر رہی ہے
اور اعلانیہ طور پر بیان بازی کی جارہی ہے کہ بھارت اس کی رہائی کیلئے
بھرپور کوششیں کرے گا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے حوالہ سے بھی ہندوستان مسلسل
ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس سانحہ میں 42پاکستانی شہری شہید ہوئے مگر
پاکستان کے بار بار مطالبہ کے باوجودنا صرف یہ کہ انڈیا اس سلسلہ میں کی
جانے والی تحقیقات سے آگاہ نہیں کر رہا بلکہ کرنل پروہت جیسے مسلمہ دہشت
گردوں کو رہا کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ نئی دہلی میں ہونے والی
سیکرٹری خارجہ ملاقات کے دوران بھی انڈیا کی سوئی ممبئی اور پٹھان کوٹ
حملوں پر اٹکی رہی ۔ ملاقات کے بعد خارجہ سیکرٹریوں کی طرف سے الزامات کی
صورت میں الگ الگ بیانات جاری کئے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماحول میں
کشیدگی کم نہیں ہوئی ہے۔پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب کو
وزیر اعظم نواز شریف کے بھارت سے دوستی کے عزم سے آگاہ کیا اور دعوت دی کہ
انہیں پاکستان کا جلد دورہ کرنا چاہیے جبکہ دوسری طرف بھارتی میڈیا نے بعض
امور پر ہونیو الے مذاکرات کو بے نتیجہ قرار دیااور دعویٰ کیا کہ ہندوستان
نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمہ داران
کو کٹہرے میں لائے۔ پاک بھارت سیکرٹری خارجہ ملاقات کے حوالہ سے بھارتی
رویہ کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ
پاکستان سے بات چیت میں اب بھی سنجیدہ نہیں ہے بلکہ اپنے دہشت گردانہ کردار
پر پردہ ڈالنے کی خاطر دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے مذاکرات کی باتیں کی جارہی
ہیں۔ بھارت سے مذاکرات کا کوئی مخالف نہیں ہے لیکن صرف بات چیت پر آمادگی
دیکھ کرہمیں اصل ایشوز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ سیکرٹری خارجہ
ملاقات میں جس طرح مسئلہ کشمیر،کلبھوشن کی گرفتاری ،سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس
اور بھارتی دہشت گردی کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے یقینا یہ خوش آئند امر ہے۔یہ
سلسلہ کمزور نہیں ہونا چاہیے اور ہندوستان کے کسی دھوکہ میں آئے بغیر تمام
بین الاقوامی فورمز پربھارتی دہشت گردی بے نقاب کرنے کا عمل جاری رکھنا
چاہیے۔ بھارتی سازشوں کے توڑ اور وطن عزیز کیخلاف اس کے مذموم منصوبے ناکام
بنانے کیلئے پاکستان کا اپنے اصولی موقف پر قائم رہنا بہت ضروری ہے۔ |