سیاسی صف بندی۔۔۔نواز حامی اور مخالف کیمپ تقسیم۔۔۔۔؟

آیا یہ کسی نئے ’’اسکرپٹ ‘‘ کاحصہ ہے یا نہیں لیکن نئی ابھرتی ہوئی سیاسی صف بندی واضح طور پر نواز شریف حامی اور نواز مخالف کیمپ میں تقسیم ہو چکی ہے ایک کی قیادت وزیر اعظم میاں نوز شریف کے پاس ہے جبکہ دوسری کی چیئرمین عمران خان تحریک انصاف کے پاس ہے اور اب پی پی پی کے بلاول بھٹو نے بھی وزیراعظم سے استعفی مانگ لیا ہے اور گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور لگانے کی بات کی ہے ۔اب اگر آج تمام مرکزی دھارے کی اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہو جاتی ہیں اور 02مئی کو حکومت مخالف مہم شروع کرنے پر حکومت کے لئے مشکلات اور مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ،اس کاکوئی آؤٹ آف باکس حل نہیں ہے لیکن جوابی حملہ سے صرف اپوزیشن کوفائدہ پہنچے گا لیکن عمران خان اور ان کے نئے اتحادیوں کے لء آسان نہیں ہو گا کیونکہ ان میں سے کئی کاماضی بھی داغدار ہے ،گرینڈ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوتا تو راقم ایک مشترکہ تحریک کو دیکھ سکتا ہے لیکن یہ کام عید سے قبل نہیں ہو گا ،اس درمیان میں جو ہوگا وہ دیکھنے کے لائق ہو گا ،گرینڈ اپوزیشن اب بھی تقسیم ہے کہ مہم کرپشن کے خلاف ہو کہ نوز کے ۔۔۔۔؟ یہ یقین کرنے کی وجوہات ہیں کہ داغدار تشخص والے سیاست دانوں کی جانب سے کرپشن کے خلاف تحریک کے نام پر پاناما پارٹ ٹو میں آ گئے تو پھر۔۔۔۔۔؟ سو آفتاب شیر پاؤ کی پارٹی ،خیبر بینک کیس اور ضیاء اﷲ آفریدی کے معاملے پر عمران خان اور جماعت اسلامی کے فیصلے نے مسلم لیگ ن کوجوابی وار اور صورت حال کا فائدہ اٹھانے کاموقع فراہم کردیا ہے ،موجودہ مسلم لیگ حکومت کے دور میں پہلی بار عمران خان نے سولو فلائیٹ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے کیا مشترکہ تحریک کی مدد لینے کا فیصلہ کارآمد ہو گا یا پھر ناکام ہو جائے گا تنہا پرواز اور مشترکہ نقل و حرکت ان کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے انہیں 2008ء میں قائم کردہ اتحاد سے نقصان ہوا تھا لیکن انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود مسلم لیگ ن نے آخری وقت میں انتخابات میں حصہ لیا تھا 2014ء میں عمران خان نے دھرنہ کے لئے سولو فلائیٹ لی لیکن بعد میں عمران خان کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری بھی شامل ہو گئے وہ سب کچھ ختم ہو گیا جب انہوں نے وزیراعظم کے استعفی کامطالبہ چھوڑنے اور پارلیمنٹ میں واپس آنے سمیت عدالتی کیمشن تسلیم کرنے اور دیگر جماعتوں کامشورہ مانا تھا، ،نیب کے سابق چیئرمین جنرل (ر) شاہد عزیز نے ایک انگریزی اخبار کو اپنے انٹرویو میں دعوی کیا تھا کہ انہوں نے کچھ ہائی پروفائل مقدمات پر کاروائی نہیں کی کیونکہ انہیں براہ راست پرویز مشرف اور ان کے دفتر سے آنے والے دباؤ کا سامنا تھا ،ان کے انٹرویو میں کہا گیا کہ ’’مجھے کئی بار کہا گیا کہ مسائل پیدا نہ کریں اور حکومت کو غیر مستحکم نہ کریں‘‘بصورت نظام تباہ ہو جائے گا،انہوں نے (صدر اور ان کی ٹیم )نے عجب منطق پیش کی کہ وہ کرپشن اور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،شاہد عزیز کے انٹر ویو میں کہا گیا کہ سابق چیئر مین جنرل خالد مقبول نے انہیں قائل کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر آپ کرپشن روکیں گے تو ترقی کیسے ہو گی‘‘اگر سیاست دان اور وزراء کو ٹھیکوں میں ذاتی فوائد نہ دئے گئے تو یہ لوگ ترقیاتی اسیکمیں کیوں شروع کریں گے،انہیں ذاتی مراعات دینا پڑتی ہیں اور ان کے بیٹوں اور شتہ داروں کو ٹھیکے دینا پڑتے ہیں ،ان انکشافات کا ذکر بعد ازاں ان کی اپنی کتاب میں بھی کیا ہے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ بحیثیت وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی پہلی مدت سے لیکر تقریبا ہر منتخب وزیر اعظم پر نیب نے مقدمات درج کئے ہیں جس میں پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے دووزیر اعظم بھی شامل ہیں ،لیکن پرویز مشرف اور ان کے وزیر اعظم یا کسی بھی ارکان کابینہ کے خلاف کرپشن کا ایک بھی کیس نہیں بنایا گیا ،مختصرا نیب نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران نیب نے پرویز مشرف کے دور کے کرپشن کے بڑے اسکینڈلز کے حوالے سے سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ساری توجہ سیاسی حکومتوں اور سیاستدانوں پر مرکوز کی گئی ہے جبکہ پرویز مشرف کے 9سال کے دوران کو بڑی ہی آسانی سے نظر انداز کردیا گیا ،ایسا نہیں ہونا چائیے کہ پرویز مشرف کے دور کے اسکینڈلز کے حوالے سے نیب کے پاس شکاتیں نہیں تھی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ نیب اپنی مرضی کے مطابق پرویز مشرف کے دور کے معاملات نہیں ا’ٹھا رہی ہے ۔ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران سب سے زیادہ کرپٹ دور ’’پرویز مشرف‘‘ کا رہا ہے جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے نیب نے تحقیقات شروع کی تو وہ فوجہ زمینوں کو سیاسی رشوت کے طور پر اپنے من پسند افراد میں تقسیم کیں لیکن بعد ازاں ااس ادارے نے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا ،2005ء میں اسٹاک ایکسچینج کی ہیرا پھیری سے لیکر پاکستان اسٹیل ملز کی نکاری تک ،چینی کے اسکینڈل سے لیکر صاف پانی کے اربوں روپے مالیت کے پراجیکٹ تک،دفاعی خریداری کے معاملوں میں خردبرد جس میں فضائیہ کے لئے جاسوسی جہاز خریدنے کے معاملات شامل ہیں ،فوجی زمینیں جے یو آئی (ف) اور اپنے نجی استاف میں تقسیم کرنے کے کیس بھی شامل ہیں ،اور تو اور 2005ء کے زلزلے فنڈز میں ہیرا پھیری اور جعلی پنشن اسکینڈل،جکارتا میں پاکستانی جائیداد فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چیف آف اسٹاف کو فائدہ پہنچانے کے لئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی کا کیس،اور لا تعداد غیر آئینی اور غیر قانونی تقرریاں ایسے معاملات ہیں جن کو نیب مسلسل نظر انداز کر رہا ہے ،اپنے دور حکومت میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر اثاثوں کے ساتھ پرویز مشرف ارب پتی بن جانے والے سے کسی نے سوال تک نہیں کیا ۔۔۔۔؟ کیوں یہاں پر نیب کو آنکھوں پر پٹی باندھنے کا مشورہ کہاں سے اور کیوں آیا۔۔۔۔؟ کیوں فوجی آمروں کا احتساب نہیں کیا جا رہا ۔۔۔۔؟ اس کے دور حکومت میں ہونے والے میگا کرپشن اسکینڈلز پر تحقیقات اور مقدمات درج کیوں نہیں کئے جارہے ہیں ۔۔۔۔؟ امید ہے ان دانشوروں اور میر ے متحرم کالم نوئیس بھائیوں کو شاہد یہ بر’ا لگے مگر سچ تو یہ ہے کہ نیب میں اب اصلاحات ناگزیر ہیں ا وزیر اعظم کا کہنا درست ہے کہ نیب شریف شہریوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے ۔۔۔۔؟ مگر وزیر اعظم صاحب خالی بیب ہی نہیں پولیس اور ہر تھانے میں شریف شہریوں کی روزانہ پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں خدارا اس طرف بھی توجہ دیں ادھر بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔کہیں ممکن ہو کہ وزیراعظم پی پی پی کی چیخ وپکار سن کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ’’ اک تم ہی نہیں تنہا ہم بھی ہیں ‘‘ اور اک تھوڑا صبر کر و کہ اس کے کان مروڑتے ہیں ،گویا وہ ترازو کے پلڑے برابر کر رہے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 49014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.