کیا آپ ہیلین تھامسن کو جانتے ہیں یا آپ نے
کبھی اس کا نام سنا ہے؟ خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم جس کی بات کر رہے
ہیں اس کا نام ہیلین ہے یا کچھ اور اصل بات یہ ہے کہ وہ مغربی دوغلے
معیارات اور اظہار رائے کی آزادی کا تازہ ترین شکار ہیں۔ ہیلین کے بارے میں
کچھ بتانے سے پہلے بات ہوجائے زرا اظہار رائے کی آزادی کی۔ آج سے کم و بیش
پانچ سال قبل جب پہلی بار گستاخانہ خاکے بنائے گئے اور اس پر عالم گیر
احتجاج ہوا تو کہا گیا کہ مسلمان تو بڑے تنگ نظر ہیں کہ وہ کسی کو اظہار
رائے کی آزادی بھی نہیں دینا چاہتے ہیں۔ کیا ہوا جو ایک اخبار جیلیٹن پوسٹ
کے ایک کارٹونسٹ نے گستاخانہ خاکے بنائے ہیں۔ یہ اس کا حق ہے اور ہم اس کا
حق اس سے نہیں چھین سکتے ہیں۔ اس طرح پوری مغربی دنیا نے اس گستاخ کارٹونسٹ
کا دفاع کیا۔
معروف خاتون صحافی نواسی سالہ ہیلین تھامسن ٤ اگست ١٩٢٠ کو پیدا ہوئیں،
انہوں نے اپنے ککریر کی ابتدا واشنگٹن کے ایک چھوٹے سے اخبار مں بطورایک
کاپی گرل سے کی، اس کے بعد وہ رپورٹنگ کے شعبے میں آگئیں۔ رپورٹنگ کے شعبے
میں آنے کے بعد ان کے جوہر کھلے، وہ ایک بے باک صحافی کے طور پر سامنے آئی
اور اس کے تند و تیز اور تلخ سوالات مخالفین کو پریشان کردیتے۔ صدر جان ایف
کینیڈی کے ابتدائی دور میں ہیلین نے وائٹ ہاؤس کی بریفنگ کی رپورٹنگ شروع
کی۔ اور اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس وقت سے لیکر ٧ جون ٢٠١٠
تک وہ باقاعدگی سے وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ میں شریک ہوتی رہیں۔ انہوں نے
دس امریکی صدور کے ساتھ کام کیا۔ وہ وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ کی رپورٹنگ
کرنے والی واحد صحافی تھی جس کی وائٹ ہاؤس میں ذاتی نشست تھی جبکہ وائٹ
ہاؤس میں پریس کی نشستیں صحافیوں کے بجائے اداروں کے نام ہوتی ہیں۔ انہوں
نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے لیکر صدر بارک اوبامہ تک تمام صدور کے
ساتھ کام کیا۔ صحافتی حلقوں میں وہ ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتی ہے اور امریکی
صدر بارک اوبامہ بھی اسے اپنی ذات میں ایک ادارہ قرار دے چکے تھے۔
پھر ایک دن ایک واقعہ ہوتا ہے ٢٧ مئی کو وائٹ ہاؤس میں منقعدہ ایک تقریب
میں ایک یہودی ربی ڈیوڈ نیسن آف نے اس سے پوچھا تھا کہ “ اسرائیل کے بارے
میں آپ کی کیا رائے ہے؟ “ اور ہیلین تھامسن نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے اس
کو کہہ دیا کہ “ یہ لوگ قابض ہیں اور فلسطین سے نکل جائیں “ جب پوچھا گیا
کہ کہاں نکل جائیں تو اس نے کہا کہ “ جرمنی، ہنگری، پولینڈ امریکہ الغرض
جہاں جہاں سے یہ یہودی فلسطین میں جمع ہوئے ہیں وہ تمام واپس اپنے ملکوں کو
واپس چلے جائیں کیونکہ یہ ان کا وطن نہیں ہے بلکہ یہ فلسطنینوں کا وطن ہے۔“
ہیلین کی اس گفتگو کے بعد ایک طوفان کھڑا ہوگیا، زرائع ابلاغ اس کی کردار
کشی اور مذمت کرنے میں لگ گئے اور بالآخر اس کو وائٹ ہاؤس نے نکال دیا گیا
جہاں وہ پانج دہائیوں سے رپورٹنگ کررہی تھی۔ ان کے ادارے Hearst نے (اس
ادارے سے وہ گزشتہ دس سالوں سے وابستہ تھی) ان کو نوکری سے نکال دیا۔ جبکہ
اس کی ایجنسی نائین اسپیکرز نے اعلان کردیا کہ ہم نے ہیلین کو اس کے بیان
کے سبب ادارے سے الگ کر دیا ہے۔ جبکہ اس کی مشہور کتاب کے شریک مصنف کریگ
کرافورڈ نے آئندہ اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ۔امریکی صدر بارک
اوبامہ نے ان کے جبری استعفیٰ کو درست قرار دیا اور اس کے رویے کو نامناسب
اور جارحانہ قرار دیا ہلیین کے ساتھ یہ سب کچھ صرف اسرائیل کے بارے میں سچ
بولنے کی پاداش میں کیا گیا۔ اور وہی مغربی دنیا جو کہ تمام مسلمانوں کو
رواداری اور تحمل و برداشت کا درس دیتی آئی ہے۔ جو کہ آزادی اظہار رائے کی
قائل ہے اسی مغربی دنیا نے ہیلین کے معاملے میں ایک دفعہ بھی آزادی اظہار
رائے کو سامنے نہیں رکھا، اس معاملے میں ان کا صبر جواب دے گیا اور تحمل،
رواداری اور برداشت کا جو درس وہ مسلمانوں کو دیتے آئے ہیں وہ کہیں بھی نظر
نہیں آیا۔ جبکہ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ گستاخانہ خاکوں کو اظہار
رائے کی آزادی قرار دینے والے مغربی ممالک میں یہودیوں کے نام نہاد ہولو
کاسٹ کے خلاف بات کرنا سنگین جرم ہے۔ اس طرح مغرب کے دہرے معیار کا اندازہ
کیا جاسکتا ہے۔
جیلیٹن پوسٹ میں خاکوں کی اشاعت سے لیکر مئی ٢٠١٠ تک کئی بار گستاخانہ خاکے
شائع کئے گے اور اس کے خلاف جب بھی احتجاج ہوا تو مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ
ہماری ہی صفوں سے مغرب کے جانثاروں نے اس احتجاج کے خلاف آواز اٹھائی اور
ہمیں یہ باور کرانےکی کوشش کی کہ اس گلوبل ولیج بنتی دنیا میں اب یہ ممکن
نہیں ہے کہ ہم سب کے اوپر اپنی مرضی تھوپیں اس لئے جو کچھ ہورہا ہے وہ “
آزادی اظہار رائے “ ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانا انتہاپسندی اور قدامت
پرستی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب فیس بک پر گستاخانہ خاکے شائع کئے
گئے اور اس کے باعث پاکستان میں فیس بک پر عارضی طور پر پابندی لگائی گئی
تو کئی مغرب نواز اینکرز اور مغربی تہذیب کے دلدادہ نام نہاد دانشور میدان
میں کود پڑے اور فیس بک پر پابندی کے خلاف آواز اٹھائی اور ہمیں یہ درس
دینے کی کوشش کی کہ فیس بک پر پابندی غلط فیصلہ ہے اور اس سے دنیا میں
پاکستان کا امیج خراب ہورہا ہے۔ ( ان نام نہاد مفکرین میں کامران خان اور
ڈاکٹر پرویز ہود بھائے شال ہیں ) اب ہیلین تھامسن کے ساتھ ہونے والے واقعے
کے بعد ان لوگوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ “ جناب وہ جو آپ آزادی اظہار رائے
“ کا راگ الاپ رہے تھے وہ جو آپ دنیا میں امیج بہتر بنانے کی بات کررہے تھے
وہ جو آپ فیس بک پر پابندی کو غلط فیصلہ قرار دے رہے تھے، اس معاملے میں آپ
کیا کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں سے یہ
گزارش کرونگا کہ مغربی تہذیب اور روشن خیالی کے جال میں نہ آئیں یہ سب کچھ
کھلا دھوکہ ہے بلکہ اپنی روشن اور پاکیزہ اسلامی تہذیب سے رشتہ استوار کریں۔ |