دوپہلوانوں کے درمیان ریسلنگ کا مقابلہ ہو رہا تھا اچانک
ریفری نے چیخ کر ایک پہلوان سے کہا ''ٹانگ مروڑنا بند کرؤ'' ایک پہلوان نے
غصے سے کہا ''نہیں آج میں اسے توڑ کر ہی دم لوں گا ''ریفری نے اسے سمجھاتے
ہوئے کہا '' بیوقوف یہ تمہاری اپنی ٹانگ ہے قارئین آپ بھی کہیں گے کہ کیا
یہ بات ماننے والی ہے کوئی اپنی ٹانگ بھی توڑ سکتا ہے آپ اس سے اتفاق تو
نہیں کریں گے لیکن میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ
وہ اپنی ٹانگ ہی نہیں اپنا سب کچھ توڑنے کے درپے رہتے ہیں حتی کہ اپنے ملک
کو بھی توڑنے سے دریغ نہیں کرتے اگر آج کل کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو آپ
میری بات سے ضرور اتفاق کریں گے چند دن قبل ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے
کہا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی انہوں نے یہ بات جس تناظر میں کہی تھی اس کے
بارے میںسب جانتے ہیں لیکن چونکہ انہوں نے بات بلی کے حوالے سے کی ہے اس
لیے ہم اس وقت بات بلی کے حوالے سے ہی کریں گے لیکن چونکہ بلی کے ساتھ چوہے
کا ذکر بھی ضروری ہے اس لیے اس وقت ہمیں چوہوں کے حوالے سے اپنے شہر کے
بارے میں بڑی فکر لاحق ہے آجکل ہمارے شہر میں چوہے کچھ ضرورت سے زیادہ
ہوگئے ہیں یہ چوہے اتنے موٹے تازے ہیں کہ ان سے بلیاں بھی ڈرتی ہیںچونکہ
پورے شہر میں چوہے رات کو اس بے باکی اوربے خوفی سے مٹر گشت کرتے ہیں کہ اس
دلیری اور بے خوفی سے آج کل پولیس بھی گشت نہیں کرتی اسی لیے شہریوں کی اس
پریشانی کو عدلیہ نے بھی محسوس کیا اور سوموٹو ایکشن لیا جس کے بعد اس کی
بازگشت صوبائی اسمبلی میں بھی سنی گئی لیکن جب حکومت نے اس کے خلاف مہم
شروع کی تو یار لوگوں نے اس کو مذاق بنا دیا اور کچھ مخالف پارٹی کے وزراء
کو بھی مذاق کا موقع ہاتھ آیابعض سیاسی لیڈروں نے بھی لگے ہاتھوں اس مشغلے
سے فائدہ اٹھایا اور اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے جس کی وجہ سے ایک اچھی بھلی
مہم کا ستیاناس ہوگیا اورحکومت نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا اب صرف ایک ادارے
کا ہی دعوی ہے کہ وہ اس مہم کو کامیابی سے چلا رہا ہے حالانکہ ایسی کوئی
سرگرمی نظر نہیں آرہی لگتا ہے شہریوں کو ان چوہوں کے لیے بھی باہر سے موٹی
تازی بلیوں کا بندوبست کرنا پڑے گا کیوں کہ مقامی بلیوں نے تو چوہوں کے
ساتھ ساز باز کر رکھا ہے اوروہ چوہوں کے قریب سے گزر کر منہ پھیر لیتے ہیں
ویسے بھی ہم ہر چیز باہر سے منگوانے کے عادی ہیں اور اس میں فخر بھی محسوس
کرتے ہیں حتی کہ ہمارے حکمران معمولی چیک اپ کے لیے بھی ملکی ہسپتالوں کو
زحمت دینے کی بجائے باہر جانا زیادہ پسند کرتے ہیں مقامی ہسپتالوں میں
قباعت یہ ہے کہ ڈاکٹر اپنی جگہ سرگرداں رہیں گے اور انتظامیہ پریشان رہے گی
اورہسپتال کو سیکورٹی حصار میں رکھے گی جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکے گی
اس لیے وہ قوم کے مفاد میں باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں بات ہو رہی تھی بلی
کی ہم نے چوہے بلی کے کھیل کا سنا تو تھااور دیکھا بھی تھا لیکن بلی کا
تھیلے سے باہر آنا یا تھیلے میں جانے کا سنا تو تھا دیکھا نہیں تھا لیکن اب
جب ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے بلی اور تھیلے کا ذکر کیا تو ہم نے سوچا کہ
چلیں لگے ہاتھوں بلی کے تھیلے سے باہر آنے کی تھوڑی سی تاریخ دیکھ لیتے ہیں
ہمیں اس حوالے سے مایوسی نہیں ہوئی کہتے ہیں کہ بلی کا وجود قبل از مسیح سے
موجود ہے اب ہم اس تاریخ کو جھٹلانے کی پوزیشن میں تونہیں ہیں دنیا میں بلی
کی اپنی ایک تاریخ ہے اسے جھٹلانے والے ہم کون ہوتے ہیں تاہم پاکستان کی
تاریخ میں بھی بلی کی اور بلی کے تھیلے سے باہر آنے کے بہت سے واقعات ملے
ہیںجسے اگر ہم بیان کریں تو بات بڑی لمبی چلی جائے گی اور پڑھنے والے بھی
بور ہوجائیں گے اس لیے لمبی تاریخ کو چھوڑ کر ہم نے بھی لوگوں کی طرح شارٹ
کٹ کا طریقہ استعمال کرنے کا سوچا اور ضیا الحق کے دور سے بلی کے تھیلے سے
باہر آنے کی تاریخ پر توجہ مرکوز کرلی اس دور میں موٹرسائیکل اتنے عام نہیں
ہوا کرتے صرف ویسپا سکوٹر ہی تھے ایسا ہی ایک کٹارہ سکوٹر ایک سٹوڈنٹ لیڈر
کے پاس ہوا کرتا تھا یہ لیڈر تقریریں تو بہت جوشیلی کرتا تھا لیکن اس کے
اپنے حالات کچھ زیادہ جوشیلے نہیں تھے کٹارہ سکوٹر اور جوشلی تقریریں کرنے
والا ضیا الحق کے ہاتھ لگ گیا پھر کیا تھا کہ اس کی قسمت چمک اٹھی ایم کیو
ایم کا یہ رہنما یقینا جانتے ہوں گے کہ پہلی بلی اس وقت تھیلے میں تھی اس
کے بعد باہر آگئی تھی ضیاالحق کو چونکہ اقتدار میں آئے ہوئے ابھی چند برس
ہی ہوئے تھے اور اسے پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لیے ایک بلی کی ضرورت تھی جو
تھیلے سے باہر آجائے سو اس نے اس بلی کو استعمال کرنے کا سوچا پھر اس بلی
کو پال پوس کر انہوں نے جوان کیا اسے دودھ اور شہد پلا کر موٹا تازہ کیا یہ
بات بھی یقینا ایم کیو ایم کے اس رہنما صاحب کو معلوم ہو گی پھر جب یہ بلی
جوان ہوئی تو اس نے چوہوں کا شکار کرنے کی بجائے انسانوں کا شکار کرنا شروع
کردیا اور پھر اس بلی نے ایسی دہشت طاری کردی کہ اس کا نام سنتے ہی بڑے
بڑوں کا پتہ ہلنے لگتا یہ بلی جوچاہتی کرتی اس کو روکنے اور ٹوکنے کی کسی
میں جرات نہیں تھی ایم کیو ایم کا یہ رہنما صاحب اس سے بھی یقینا واقف ہوں
گے کیونکہ انہوں نے وہ دن بھی بڑی اچھی طرح دیکھے تھے انہیں یہ بھی علم
ہوگا کہ اس بلی نے خود کو ''بڑے'' لوگوں کی ضرورت بنا لیا تھا یہ بلی لوگوں
کے کام تو آتی لیکن اپنی شرائط پر اور پھر خود بھی ان کے پہلووں میں بیٹھ
کر اپنا کھیل کھیلتی رہتی یہ ''سنہرے'' دن بھی انہی رہنما کو یاد ہوں گے
۔بلی تو بلی ہوتی ہے لیکن اس بلی نے پھر خونخوار بھیڑئیے کی شکل اختیار
کرلی جو دن دھاڑے عروس البالاد قرار دئیے جانے والے اس پورے شہر میں
دندناتا پھرتا اس کے منہ کو خون لگ گیا تھا اور یہ خون بڑھتا ہی رہا جس نے
ایک دریا کی صورت اختیار کرلی اس دریا کو پاٹنے کا جب سوچا گیا تو کچھ
باہمت لوگ آگے آئے اور اس بلی کی گردن کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے پھر کیا
تھا ایک شور مچ گیا اور یہ شور اب بھی جاری ہے لیکن اب اس شور مچانے کا
کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے کیوں کہ لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ دینے کے
باوجود باہمت لوگ اس بلی کو پھر تھیلے میں بند کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں اب
دیکھنا یہ ہے کہ یہ بلی تھیلے میں پوری طرح کب بند ہوتی ہے ؟کیونکہ نہ
توبلی کو دودھ پلانے والے اس وقت موجود ہیں اور نہ ہی بلی کے دودھ پیتے سب
ساتھی اس کا ساتھ دے رہے ہیں ۔قارئین میرے بلی اور چوہے کا کھیل تو یہی تک
تھالیکن اسی دوران ایک ای میل ملی جو موقع کی مناسبت سے بڑی درست ہے اس لیے
میں اسے آپ کساتھ شیئر کرنا چاہوں گا اس ای میل میں جو سوال ہے اس کا جواب
کون دے گا نہیں معلوم لیکن اس سوال کا جواب بھی صاحب ای میل نے دے دیا
؟ہماری محترم قاری روبینہ ''قائد!ہم شرمندہ ہیں'' کے عنوان سے لکھتی
ہیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک اولوالعزم،محنتی اور دانش مند رہنماتھے۔
انہوں نے زندگی کی ہر مشکل کو اپنی فطری صلاحیتوں اور عزم و ہمت سے شکست
دی۔محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اپنی آئینی جدوجہد اور بے
مثال و بے نظیر قیادت سے ان گنت مشکلات ،حوصلہ شکن حالات،جگر خراش واقعات
اور بے انتہا مخالفت کے با وجود پاک و ہند کے نو کروڑ مسلمانوں کو ایک
جھنڈے تلے متحد ومنظم کر کے غلامی اور محرومی سے ابدی نجات دلا کر آزادی
جیسی نعمت کا تحفہ دیا ۔قائد اعظم کو اللہ تعالی نے بے شمار قائدانہ
صلاحیتوں اور اعلیٰ راہنما کی تمام صفات سے نوازا تھا۔ قائد اعظم محمد علی
جناح پاکستان کو اسلامی نظریہ حیات کے اصولوں سے ممیز اسلامی ریاست بنانا
چاہتے تھے۔آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں اور بالخصوص ہمارے راہنما اور سیاست
دان جو سلوک قائداعظم کے پاکستان سے کر رہے ہیں ،اس پر یوم محشر قائد کے
ہاتھ یقینی طور پرہم سب کے گریبانوں پر ہوں گے۔ قائد کی شخصیت،ان کی محنت
اور جدو جہد کو ہم گنوا رہے ہیں۔قائد کی روح ہم سب سے یہ سوال کرتی ہے کہ
قائد کے پاکستان میں انصاف،رواداری،قومی مفاد،منصفانہ تقسیمِ دولت،غریبوں
کی ترقی کے مواقع اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اسلامی،جمہوری اور فلاحی
ریاست کی فضا کب پیدا ہوگی ؟اس سوال کا عملی جواب مل گیا تو پاکستان
مستحکم،مضبوط، خودکفیل، خوشحال اور پائندہ تر ہو جائے گا۔ " |