رواں سال کی ستائیس فروری کی برطانوی نشریاتی ادارے کی
رپورٹ ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان بیلینا ڈبلیووائٹ نے پاکستان
کودہشت گردی سے نمٹنے اورشورش سے مقابلے کیلئے جاری آپریشن میں مددفراہم
کرنے کیلئے ہم مجوزہ آٹھ ایف سولہ طیاروں کی فروخت کی حمایت کرتے ہیں۔اب تک
حالیہ آپریشن میں ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کے ایف سولہ طیارے نے کامیابی
میں اہم کرداراداکیا ہے۔امریکہ میں پاکستان کے سفارت خانے نے
اوباماانتظامیہ کے اس مجوزہ فروخت کے ارادے پرقائم رہنے کاخیرمقدم کیا
ہے۔امریکی حکومت نے بارہ فروری کواعلان کیاتھا کہ وہ پاکستان کوآٹھ اضافی
ایف سولہ طیاروں کے ساتھ ساتھ راڈاراوردیگرآلات فروخت کرے گااس معاہدے
کاتخمینہ ۹۹۶ ملین ڈالرلگایا گیا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق
امریکی رکن کانگرس مالٹ سالمن نے سماعتی کمیٹی کوبتایا کہ ان کے سمیت
دیگرارکان کانگریس کوایف سولہ طیارے پاکستان کوفروخت کرنے کے اوباما
انتظامیہ کے فیصلے پرگہری تشویش ہے ۔انہوں نے کہا ایسے وقت میں جب پاکستان
بھارت کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ان طیاروں کی ملک کوفراہمی خطے کے
امن کیلئے خطرہ ہوسکتی ہے۔کیونکہ پاکستان طیارے دہشت گردوں کے بجائے بھارت
یاپھرکسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات
بھی باعث تشویش ہے کہ پاکستان کوجس طرح کی فوجی معاونت فراہم کی جارہی
ہے۔اس سے پاکستان اوربھارت کے درمیان طاقت کاتوازن بھی بگڑ سکتا ہے۔( جب
بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے کیے جارہے تھے اس وقت توان ارکان کانگریس کویہ
خدشہ دکھائی نہیں دیا کہ اس سے پاکستان اوربھارت میں طاقت کاتوازن بگڑ سکتا
ہے)ایک اوررکن کانگریس براڈ شرمین نے کہا کہ ہمیں پاکستان کوہتھیاروں
کاایسانظام پیش کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ دہشت گردی کاشاندارمقابلہ
کرسکے۔تاہم یہ نظام بھارت یاکسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ میں استعمال نہ
ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کوفوجی معاونت کے بدلے ہمیں ملک سے دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں مزیدتعاون کامطالبہ کرناچاہیے۔امریکی محکمہ خارجہ کے
ایک اعلیٰ افسرنے بی بی سی کوبتایا کہ اوباماانتظامیہ اب بھی پاکستان کوایف
سولہ طیاروں کی فروخت کے حق میں ہے لیکن اس کیلئے امریکی پیسہ خرچ نہیں
کیاجاسکتا ۔ افسرکاکہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ کویہ فیصلہ سینیٹ کی خارجہ
امورکمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب کارکرکے حکم پرکرناپڑا ہے۔ کیونکہ کانگریس
کے پاس ہی یہ رقم جاری کرنے یا نہ کرنے کااختیارہوتا ہے۔انہوں نے یہ بھی
بتایا کہ انتظامیہ نے اس سال کیلئے پاکستان کودی جانے والی ۴۷ کروڑ بیس
لاکھ ڈالرکی فوجی امدادکاجوبجٹ کانگریس کے سامنے پیش کیاتھا اس کی منظوری
کاعمل بھی فی الحال روک دیاگیا ہے۔ان کاکہناتھا کہ یہ رقم پاکستان کونہیں
دی جاسکتی لیکن کانگریس اگراپناذہن تبدیل کرلے تواسے جاری کیاجاسکتا
ہے۔امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ان آٹھ طیاروں اوران سے
منسلک دوسرے آلات کی قیمت تقریباً ۰۷ کروڑ ڈالر ہے۔اب تک یہ خیال کیاجارہا
تھا اس میں سے تقریباً ۳۴ کروڑ ڈالر امریکی امدادکے تحت پاکستان کوملتے
اورتقریباً ۷۲ کروڑ ڈالرپاکستان خوداداکرتا۔تاہم اس پابندی کے نتیجے میں
پاکستان کوآٹھ ایف سولہ طیارے خریدنے کیلئے ۰۷ کروڑ ڈالرکی رقم
خوداداکرناہوگی۔امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان ندیم ہوتیانہ نے
کہا کہ ہتھیاروں کی فروخت ایک طویل عمل ہے اورہم اس وقت اس مخصوص صورتحال
پرکوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔ترجمان نے کہا کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کوایف
سولہ طیاروں کی فروخت کااعلان کرچکی ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کے خیال
میں دہشت گردنیٹ ورک سے لاحق خطرات کی وجہ سے دفاعی صلاحیت میں مسلسل اضافے
کی ضرورت ہے۔اوردونوں حکومتیں اس مقصدکیلئے ان جہازوں کی فروخت سمیت
دیگراقدامات کیلئے مل کرکام کرتی رہیں گی۔ادھروزیراعظم کے معاون خصوصی
خارجہ امورطارق فاطمی نے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کی فنڈنگ پربات چیت
ختم نہیں ہوئی۔امریکی انتظامیہ کی فوجی امدادکی پیشکش اپنی جگہ موجود
ہے۔ایک ٹی وی کے مطابق طارق فاطمی نے کہا کہ امریکی انتظامیہ میں فارن
ملٹری فنڈنگ کے خلاف جذابت پائے جاتے ہیں۔کانگریس کورضامندکرنا اوباما
انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔امریکی انتظامیہ سے اس معاملے پربات چیت جاری
ہے۔پاکستان کامقدمہ بہت مضبوط ہے پاکستان دہشت گردی کے خلاف بہت خدمات
انجام دے رہا ہے۔آپریشن کافائدہ امریکہ ، افغانستان اوردوسرے ممالک کوبھی
پہنچ رہا ہے۔گزشتہ دوسال میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں پاکستان دوارب
ڈالرخرچ کرچکا ہے۔ایک قومی اخبار میں بی بی سی کے حوالے سے رپورٹ ہے کہ
اسرائیل کے علاوہ پاکستان وہ واحدملک ہے جوایف سولہ جنگی طیاروں کواستعمال
کرنے کاتجربہ رکھتا ہے۔لیکن امریکہ سے ایف سولہ لڑاکاطیاروں کی خریداری
پاکستان کیلئے شروع سے ہی بہت مشکل اوردشوارطلب رہی ہے۔افغانستان پرسویت
یونین کے حملے کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ نے پاکستان کوایف سولہ لڑاکاطیاروں
کی فروخت پرآمادگی ظاہرکی تھی۔سال انیس سوتراسی میں پاک فضائیہ میں دوایف
سولہ لڑاکاطیارے شامل کیے گئے تھے۔اس کے بعد ۷۸۹۱ء تک پاک فضائیہ کو چالیس
ایف سولہ طیارے مل گئے تھے۔دونوں ملکوں میں ایف سولہ طیاروں کے معاہدے کے
تحت پاکستان کومجموعی طورپر۱۱۱ طیارے فراہم کیے جانے تھے۔پاک فضائیہ
مزیداکہترطیارے وصول کرنے کی امیدمیں تھی ان طیاروں کے لئے ۵۶ کروڑ ڈالرکی
رقم اداکردی گئی تھی اورباقی ماندہ ۰۷ طیاروں میں سے لاک ہیڈ مارٹن نے
اٹھائیس طیارے بنابھی لیے تھے۔لیکن امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری
پروگرام کی وجہ سے سمنگٹن ترمیم کے تحت ان طیاروں کی ترسیل پرپابندی عائد
کردی۔اس کے بعد اگلی پوری دہائی میں پاکستان کونہ رقم واپس کی گئی اورنہ ہی
امریکہ طیارے دینے پررضامند ہوا۔گیارہ ستمبرسال دوہزارایک کونیویارک
اورواشنگٹن میں دہشت گردی کے حملوں کے بعد پاکستان ایک بارپھر امریکہ کیلئے
اہمیت اختیارکرگیا ۔ امریکی حکومت نے سال دوہزارپانچ میں اعلان کیا کہ اس
نے ایف سولہ طیارے خریدنے کی پاکستان کی درخواست منظورکرلی ہے۔پاکستان نے
ابتدائی طورپرچوبیس ایف سولہ طیارے خریدنے میں دلچسپی ظاہرکی تھی۔اس بارے
میں دونوں ملکوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ستمبر ۶۰۰۲ء میں دونوں
ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔جس کے تحت اٹھارہ ایف سولہ طیارے پاکستان
کودیے جانے تھے۔اورمزیداٹھارہ بعد میں فراہم کیے جانے کی گنجائش بھی رکھی
گئی تھی۔اس معاہدے کے تحت پاکستان کوپہلے مرحلے میں بارہ ایف سولہ طیارے
حاصل ہوئے اوراس کے بعد بارہ استعمال شدہ ایف سولہ طیارے اردن سے پاکستان
کوملے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک سی ٹونز نے کہا ہے کہ ایف سولہ
طیارے پاکستان کودہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مددگارثابت ہوسکتے ہیں کچھ
اراکین کانگریس نے ان طیاروں کی فروخت کے حوالے سے فنڈنگ کے معاملے
پراعتراض اٹھایا ہے۔ہفتہ وارپریس بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان
ان دہشت گردوں سے لڑرہا ہے۔جوتمام پاکستانیوں کیلئے خطرہ ہیں۔ایف سولہ
طیاروں نے دہشت گردی کیخلاف آپریشن میں حصہ لیااورامریکہ کی فوجی
امدادپاکستان اورخطے کی کی سلامتی اوراستحکام کیلئے مددگارثابت ہوسکتی
ہے۔ان کاکہناتھا کہ ایف سولہ طیارے پاکستان کودہشت گردی کے خلاف جنگ میں
اہم ہتھیارثابت ہوسکتے ہیں۔تاہم کچھ اراکین کانگریس نے فنڈنگ کے معاملے
پراعتراض اٹھایا ہے جس کی وجہ سے اسلام آبادحکومت کی فوجی
امدادالتواکاشکارہوگئی۔یادرہے کہ بھارت کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے امریکی
سینیٹ نے پاکستا ن کوایف سولہ طیاروں کی خریداری کے ۰۷کروڑ ڈالرخوداداکرنے
کابل منظورکیا ہے۔جس کے بعدپاکستان کوامریکہ سے ملنے والے آٹھ ایف سولہ
طیاروں کی فروخت کامعاہدہ ایک بارپھرکھٹائی میں پڑگیا ہے۔پاکستان نے کہا ہے
کہ امریکہ کے ساتھ ایف سولہ طیاروں کی فروخت کامعاملہ ابھی زیربحث ہے۔ایف
سولہ طیاروں کی فراہمی سے انسداددہشت گردی کی صلاحیت میں اضافہ
ہوگا(جوامریکہ کبھی نہیں چاہتا )ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اپنے جاری
بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اورامریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے
سے تعاون کررہے ہیں ۔دہشت گردی کے ناسورکے خاتمے کی ذمہ داری کسی ایک ملک
پرعائدنہیں کی جاسکتی اس کیلئے تمام ممالک کومتحدہونے اورباہمی کوششیں کرنے
کی ضرورت ہے ۔دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کی ذمہ داری پوری بین الاقوامی
برادری پرعائدہوتی ہے۔ امریکہ کے دفترخارجہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو اس
رپورٹ کی رسمی طورپرتصدیق کردی ہے جس میں کہاگیا تھا کہ کانگریس نے پاکستان
کوایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لیے دی جانے والی امدادروک دی ہے۔امریکی
دفتر خارجہ میں پریس بریفنگ کے دوران ترجمان جان کربی کاکہناتھا کہ کانگریس
نے ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی منظوری دے دی تھی۔لیکن کچھ اہم اراکین نے
اس کیلئے امریکی مالی امدادجاری کرنے سے انکارکردیا ہے۔جان کربی کاکہناتھا
کہ کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے ہم نے پاکستان کواطلاع دے دی ہے کہ یہ
طیارے خریدنے کیلئے انہیں اپنے قومی فنڈزکااستعمال کرناہوگا۔انہوں نے کہا
کہ جس طرح کی شرائط کانگریس نے لگائی ہیں دفترخارجہ اصولاً ان کے خلاف ہے
کیونکہ اس سے صدراوروزیرخارجہ دونوں ہی کیلئے ایسی خارجہ پالیسی چلانامشکل
ہوجاتا ہے جوامریکی مفادمیں ہو۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ایف
سولہ طیاروں کی خریداری کیلئے فنڈزنہ ملے تومتبادل آپشن پرغورکریں گے۔انہوں
نے کہا کہ بھارت امریکہ سول نیوکلیئرتعاون پرتشویش ہے۔سرتاج عزیزنے ایف
سولہ طیاروں کے حصول کے لیے تمام آپشنز استعمال کرنے اعلان کیا۔انہوں نے
شکیل آفریدی کے معاملے پرامریکی دباؤمستردکردیا۔مشیرخارجہ نے میڈیا سے
گفتگومیں بتایا کہ کلبھوشن یادیوسے تحقیقات جاری ہیں۔بھارت نے ایٹمی صلاحیت
بڑھائی توپاکستان بھی اپنے پروگرام پرنظرثانی کرے گا۔
پاکستان کوایف سولہ طیاروں کی فروخت اورفراہمی کے امریکی رویہ سے ایک
اورثبوت مل جاتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے بارے میں کیاپالیسی رکھتا ہے۔
پاکستان کیلئے امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری صرف مشکل ہی نہیں
امریکی مفادات کے جال میں گھری ہوئی بھی ہے۔امریکہ جب چاہتا ہے پاکستان
کوایف سولہ طیارے دے دیتا ہے۔ جب چاہتا ہے دینے پرآمادگی ظاہرکردیتا ہے۔
آخری دفعہ پاکستان کوجوایف سولہ طیارے ملے تھے وہ استعمال شدہ تھے جبکہ
پاکستان نے قیمت نئے ایف سولہ طیاروں کی اداکی تھی۔پاکستان کواب تک ایک
سوگیارہ طیاروں میں سے ۴۶ طیارے مل چکے ہیں ۔چاردہائیاں گزرنے کے بعدبھی اب
سنتالیس طیارے ملناابھی باقی ہیں۔ پاکستان کوایف سولہ دیتے وقت یہ شرط بھی
لگائی گئی تھی کہ یہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔جبکہ بھارت
کے ساتھ معاہدے کرتے وقت اس کوامریکہ کی طرف سے نہیں کہاجاتا کہ یہ پاکستان
کے خلاف استعمال نہ ہو۔اب بھی امریکی کانگریس کی طرف سے خدشہ ظاہرکیا گیا
ہے کہ پاکستان ایف سولہ طیارے بھارت یاکسی دوسرے ملک (افغانستان) کے خلاف
استعمال کرسکتا ہے۔ اس تحریر میں شامل بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق
پاکستان کی طرف سے امریکہ کوایف سولہ طیاروں کی رقم ۵۶ کروڑ ڈالراداکردی
گئی۔اب پاکستان کے ساتھ کھیل کھیلا گیا کہ اتنی رقم امریکہ کی طرف سے
امدادملے گی اوراتنی رقم پاکستان ادا کرے گا۔ اس کھیل کوآگے بڑھاتے ہوئے
کہاگیا کہ کانگریس کے اراکین کہتے ہیں پاکستان کوایف سولہ طیاروں کی فروخت
کے معاملے میں امریکی پیسہ استعمال نہیں کیاجاسکتا اس لیے پاکستان کو۰۷
کروڑ ڈالرکی رقم خوداداکرنا ہوگی۔امریکہ نے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ پاکستان
کوانکاربھی نہ کرواورایف سولہ طیارے بھی نہ دو۔امریکہ اس وقت پاکستان
کوامدادیا ایف سولہ طیاروں سمیت دیگرسامان دیتا ہے جب اسے پاکستان کی ضرورت
ہوتی ہے۔اس وقت امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداداعلانیہ طورپراورایف سولہ
طیاروں کی فراہمی غیراعلانیہ طورپرروک دی ہے۔جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ
امریکہ اس موقع کی تلاش میں ہے جب اسے پاکستان کی ضرورت ہواوروہ فوجی امداد
اورایف سولہ طیارے دے کرپاکستان پراحسان جتا کراپنا مفادبھی حاصل
کرسکے۔پاکستان ایف سولہ طیاروں کے مقابلے میں چین کے تعاون سے جے ایف تھنڈر۷۱
تیارکرچکا ہے۔ پاکستان کے یہ جنگی طیارے امریکہ کے ایف سولہ طیاروں سے کہیں
بہتر ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کوایف سولہ طیارے اس وقت دیے
جب اسے پاکستان کی ضرورت تھی۔ ایف سولہ کے بعد امریکہ اوربھی جدیدجنگی
طیارے بناچکا ہے ۔یہ طیارے تواب ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی پرانے ہوچکے
ہیں۔حکومت پاکستان اب مطالبہ کرے ایف سولہ طیاروں کی مدمیں دی جانے والی
رقم اسے واپس کی جائے اب سے ایف سولہ طیاروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔پاکستان
امریکہ سے ایف سولہ طیارے خریدنے کی بجائے جے ایف تھنڈرکواپ گریڈ
کرے۔پاکستان یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں بھی لے جائے ۔ |