معتوب وہی،مغضوب وہی،مطلوب وہی

اس حقیقت سے انکارنہیں کہ ظالم اندھااوربہرابھی ہوتاہے اوراللہ بھی ظالم کی رسی درازکردیتاہے تاکہ وقت آنے پراس کو رہتی دنیاتک باعث عبرت بنادیاجائے ۔یہی حال ان دنوں بنگالی خونی ڈائن حسینہ واجدکاہے جس کی دیکھنے اورسننے کی صلاحیتیں میرے رب نے سلب کردی ہیں۔اس کے سرپرپاکستان کی حمائت کرنے والوں کونیست ونابود کرنے کاظالم بھوت سوارہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کونام نہادٹریبونل کے ذریعے تختۂ دارپرلٹکانے کاسلسلہ جاری ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اب جماعت اسلامی پرمکمل پابندی کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ عرب نیوز ڈاٹ کام کے ایک تجزئیے میں ایک خوفناک صورتحال کی طرف اشارہ کیاگیاہے: یقیناًبنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پرپابندی کا انتہائی شدیدردِّعمل ہوگا۔معروف دانشورتجزیہ نگارشمس الہدیٰ لکھتے ہیں:
بنگلہ دیشی حکومت ملک کی سب سے بڑی اورمنظم اسلامی پارٹی جماعت اسلامی پرپابندی لگانے پرغورکر رہی ہے ۔ حکومت کایہ اقدام اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔بہت سے وزراء اورحکومت کی حمائت یافتہ بعض سیاسی تنظیمیں جماعت اسلامی کی سرگرمیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھا رہی ہیں۔ جماعت اسلامی اس وقت شدیددباؤ میں ہے،اس کے تین رہنماؤں کو پہلے ہی پھانسی دی جاچکی ہے اور متعدددکوسزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ان کے علاوہ بھی جماعت کے متعددرہنماؤں کے خلاف۱۹۷۱ء کی جنگ میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں مقدمات زیرسماعت ہیں ۔اگرجماعت اسلامی کو ملکی سیاست سے باہر رکھاگیا یاپابندی لگائی گئی تواس بات کاغالب امکان ہے کہ جماعت کے جوشیلے اور باہمت نوجوان جن میں بیشتر کی عمریں۴۵سال سے کم ہیں،وہ زیرزمین چلے جائیں اورملک کوغیرمستحکم کرنے والی تخریبی سرگرمیوں میں شامل ہوجائیں۔

سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جماعت اسلامی کوالیکشن لڑنے کی اہمیت رکھنے والی تنظیموں کی فہرست سے نکال کرپہلے ہی اس کے گردگھیراتنگ کیاجاچکا ہے اوراب اگراس پر پابندی لگائی گئی توجماعت کے پاس اپنی بقاء کیلئے جوابی کاروائیوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ جماعت اسلامی کی افرادی قوت کودیکھ کربآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک کومعاشی اورسیاسی طورپر دہلادینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسرابوالبرکات نے۱۲دسمبر۲۰۱۵ء کواپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہاکہ اسلام پسندوں سے تعلق رکھنے والے مالیاتی اداروں کاسالانہ منافع برائے سال ۲۰۱۴ء قریباً۱۲۵۰ملین سعودی ریال تھا اورگزشتہ سال کے منافع پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ چالیس سال میں ان اداروں نے پچاس ہزارملین ریال منافع کمایاہے جوبنگلہ دیش کے معاشی استحکام میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔

جماعت اسلامی برصغیرکی قدیم جماعتوں میں ایک ہے اوراپنی ایک شاندارطویل تاریخ رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کاقیام۱۹۴۱ء میں عمل میں لایاگیا۔ پاکستان بننے کے بعداسے ہندوستان اورپاکستان میں تقسیم کردیاگیا،اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کاحصہ تھا۔ پچھلی سات دہائیوں میں جماعت اسلامی نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں اوریہ جماعت ملکی سیاست میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے جبکہ بیگم خالدہ ضیاء (بی این پی)کے ادوارحکومت میں اپنے وزراء کے ساتھ شامل رہنااس کیلئے سود مندثابت ہوا۔جماعت اسلامی نہ صرف ملک،بیرونِ ملک بھی اقتصادی اورسیاسی اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ بیرونِ ملک رہنے والے دس ملین بنگلہ دیشیوں میں سے صرف سعودی عرب میں پانچ لاکھ قیام پذیرہیں۔ بیرونِ ملک رہنے والے بنگلہ دیشیوں کی ایک بڑی تعدادجماعت اسلامی کومالی و اخلاقی مددفراہم کرتی ہے۔ یہی بات بنگلہ دیشی حکومت کیلئے انتہائی تشویش کاباعث ہے۔اس معاملے پر ڈھاکہ پہلے ہی بہت سے ممالک کے ساتھ بات کرچکاہے ۔حال ہی میں بنگلہ دیشی حکومت نے برطانوی حکومت کومطلع کیاہے کہ بہت سے برطانوی شہری اسلام پسندوں کی معاونت کررہے ہیں جس سے انتہاء پسندی میں اضافہ ہورہاہے۔

شیخ حسینہ کی حکومت نے جماعت اسلامی کوکام سے روکنے کیلئے اس کے ہزاروں کارکنوں کوپابندسلال کیاہواہے۔اس جبرکامقصد نہ صرف جماعت کوختم کرنابلکہ خالدہ ضیاء کی بی این پی کوتنہاء کرکے اپوزیشن کی قوت کوتقسیم کرنا بھی ہے۔خیال یہ کیاجارہا ہے کہ حکومت کااگلاقدم جماعت پرپابندی ہوگاجس کے نتیجے میں جماعت کے ہزاروں کارکن خالدہ ضیاء کی پارٹی بی این پی میں شامل ہوجائیں گے،اس طرح بی این پی کی قوت میں کئی گنااضافہ ہوجائے گا۔جماعت اسلامی کی افرادی قوت ،بیرونِ ملک اس کی حمائت اوراقتصادی قوت کو سامنےرکھاجائے توبہتریہی ہوگاکہ اس کامقابلہ سیاسی میدان میں کیاجائے۔ جنگی جرائم کے مقدمات بالآخرختم ہوجانے کے بعدمحسوس یہ ہوتاہے کہ۱۶۰ملین کی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اپنے اسلامی نظریات کی بنیادپرایک بڑی سیاسی قوت بن کر منظرعام پرآئے گی۔

ادھرحکومتی بھونپوامیرجماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمان نظامی کے خلاف زہرآلودپروپیگنڈے میں مصروف اورمسلسل الزام عائدکئے جارہاہے کہ مولانانظامی نے مشرقی پاکستان میں۱۹۷۱ء کے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کئے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب جنرل یحییٰ خان نے یکم مارچ۱۹۷۱ء کوڈھاکہ میں ہونے والااسمبلی کااجلاس ملتوی کیاتھاتو ڈھاکہ میں سب سے پہلے جناب مطیع الرحمان نظامی (اسلامی چھاتروشنگھو) جمعیت اسلامی طلباء نے اس پر احتجاج کیاتھاجس کی رپورٹ آج بھی یورپی،برطانیہ اورامریکا کے کئی اخبارات میں موجودہے۔ڈھاکہ یونیورسٹی میں اس روزڈیڑھ بجے دوپہرجماعت اسلامی کے زیرِاہتمام احتجاجی جلسہ منعقدکیاگیااوراسمبلی اجلاس کے التواء کوسازش قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیاکہ اقتداربغیر کسی تاخیرکے اکژیتی پارٹی عوامی لیگ کو منتقل کیاجائے۔

اس کاپس منظریہ تھاکہ مطیع الرحمان نظامی جوخودبھی ایک بنگالی طالب علم لیڈرکے طورپچھلے کئی سالوں سے مشرقی پاکستان میں سیاسی اتارچڑھاؤ کو گہری نظرتھی۔انہیں معلوم تھاکہ اسمبلی اجلاس کے التواءکانتیجہ بہت خطرناک ہوگااوروہی ہواجس کااندیشہ تھا۔اسمبلی اجلاس ملتوی ہونے کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان میں حالات ایسے بے قابوہوئے کہ فوجی آپریشن کے سواکوئی چارۂ کار باقی ہی نہیں رہاتھا۔
جماعت پرعتاب نازل کیے جانے کے حسینہ واجدکے اقدام کی موجودہ صورتحال میں یہ تاریخی پس منظر عوام تک پہنچانابےحدضروری ہے۔یکم مارچ کا اسمبلی اجلاس ملتوی کیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی ڈھاکہ میں خونریز ہنگامے شروع ہوگئے تھے ۔۲مارچ کوسینٹرل اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی دعوت پرشیخ مجیب الرحمان نے ایک احتجاجی جلسے میں شرکت کی جہاں ان کی موجودگی میں پہلی بار''بنگلہ دیش''کاپرچم لہرایاگیا۔بھارت کی پشت پناہی سے چندہی روز میں مشرقی پاکستان میں باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ان حالات میں۱۰ مارچ کوآئندہ کالائحہ عمل طے کرنے کیلئے ڈھاکہ میں جمعیت مشرقی پاکستان کی مجلس شوریٰ اورضلعی عہدیداروں کااجلاس طلب کیاگیا۔مطیع الرحمان کاکہناہے کہ اس وقت صرف تین ہی آپشن تھے۔پہلایہ کہ عوامی لیگ کاساتھ دیں اور پاکستان کواپنے سامنے ٹوٹنے دیں۔دوسرایہ کہ غیرجانبدارہوجائیں اورتیسرا یہ کہ باوجودپاکستان کی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے شدید اختلافات کے متحدہ پاکستان کوبچانے کی کوشش کریں۔ہم نے آخری راستہ اختیارکیا کیونکہ پاکستان اس وقت بطورایک پاکستانی ہم کوئی دوسراراستہ منتخب ہی نہیں کرسکتے تھے۔ہمارے سامنے مولانا مودودیؒ کاوہ مستقل حکم بھی تھا جوانہوں نے ستمبر۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران دیاتھاکہ ’’پاکستان کاہرمسلمان اس ملک کو،جواس برّاعظم میں اسلام کا قلعہ ہے اوراس کی پوری زمین ہمارے لئے ایک مسجدکا درجہ رکھتی ہے،بچانے کیلئے سردھڑکی بازی لگا دے‘‘۔جمعیت مشرقی پاکستان کے اس اصولی فیصلے کی روشنی کا۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی جمعیت طلباء کی البدر میدان میں اتری تھی۔ مکتی باہنی بھارتی فوج کی سرپرستی میں کام کررہی تھی جبکہ البدرپاک فوج سے تعاون کررہی تھی۔ نومبر۱۹۷۱ء کوبھارتی فوج مشرقی۲۲نومبر۱۹۷۱ءکوبھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی ۔۳دسمبرکوبھارت نے مغربی پاکستان کی سرحدوں پرسیالکوٹ،چھمب، جوڑیاں،لاہوراوررحیم یارخان کے محاذبھی کھول دیئے۔۱۶دسمبرکوبھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہوگئی اورپاکستان دولخت ہوگیا۔ راتوں رات محب وطن باغی اورباغی محب وطن قرارپاگئے۔شیخ مجیب نے آتے ہی جماعت اورجمعیت پرپابندی عائدکردی اوراس کے تمام اہم رہنماؤں کو زندہ یا مردہ اپنے سامنے پیش کرنے کاحکم دیا،ان میں مطیع الرحمان نظامی بھی شامل تھے۔بعد میں جب ذوالفقارعلی بھٹو نے بطوروزیراعظم پاکستان بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیاتوہم نے بھی اس کوتسلیم کرلیا اور نئے سرے سے وہاں اپنی سیاست کاآغازکیا ۔یہ انتہائی مشکل دورتھا،جماعت اورجمعیت کے کارکن تتربترہوچکے تھے لیکن یکدم حالات نے پلٹا کھایا۔شیخ مجیب الرحمان اپنے پورے خاندان سمیت اپنی ہی فوج کے ہاتھوں قتل کردیئے گئے ،خوش قسمتی سے حسینہ واجدملک سے باہر تھیں لہنداوہ بچ گئی۔

شیخ مجیب الرحمان کے بعدجنرل ضیاء الرحمان برسراقتدارآئے توانہوں نے جماعت اورجمعیت پرسے پابندی اٹھادی۔تاریخی طور پر یہ امرحیرت انگیزہے کہ مولاناغلام اعظم، مطیع الرحمان نظامی کی زیرِ قیادت جماعت اورجمعیت نے بہت تھوڑے عرصے میں بنگلہ دیش میں اپنی پوزیشن پھر سے مستحکم کرلی ۔ (پاکستان دولخت ہونے سے قبل مولانامطیع الرحمان نظامی ناظم جمعیت اسلامی مشرقی پاکستان جب ''لائلپور''اب فیصل آبادمغربی پاکستان تشریف لائے تودیرینہ رفاقت کی بناء پر خاکسارکے ہاں قیام کیااور پروفیسر غلام اعظم مرحوم کئی سال کویت میں میرے غریب خانے پرمقیم رہے جہاں ان سے بہت کچھ سیکھنے کوملا)۔۱۹۹۱ء میں مطیع الرحمان نظامی اپنے آبائی حلقے پبنہ سے عوامی لیگ کے امیدوارکو ہرا کررکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئے۔۲۰۰۱ء میں ان کوجماعت اسلامی بنگلہ دیش کاامیرمنتخب کرلیاگیا۔اسی سال انتخابات میں انہوں نے عوامی لیگ کے انتہائی مضبوط امیدوار کودوبارہ شکست دیکر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔خالدہ ضیاء حکومت میں پہلے وزیرزراعت اورپھروزیرصنعت کے طورپرانہوں نے شاندار خدمات انجام دیں ۔ وہ۲۰۰۸ء میں کامیاب نہیں ہوسکے لیکن اس کے باوجود۴۶٪ووٹ حاصل کیے۔ مطیع الرحمان نظامی کایہ غیرمعمولی انتخابی پس منظرثابت کرتاہے کہ وہ جماعت اسلامی ہی کے سربراہ نہیں بنگلہ دیش کے عوامی رہنماء اورتجربہ کار پارلیمنٹیرین بھی ہیں۔

مطیع الرحمان نظامی کوشیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجدکے بدنام زمانہ ''وارکرائمزٹریبونل''نے۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی حمائت اوراس کے ساتھ تعاون کرنے کے''جرم''میں موت کی سزاسنائی ہے۔دیکھنے والوں نے کہاکہ موت کی سزاسن کرمطیع الرحمان نظامی نے جس صبر واستقلال کامظاہرہ کیا،اس پرمولانامودویؒ کے ایمان افروزردِّعمل کی یادتازہ کردی۔ دونوں زعماء (مرشداورمرید)میں ایک یہ بھی مشابہت ہے کہ مولانا مودودیؒ کی طرح مطیع الرحمان نظامی کوبھی اس وقت موت کی سزاسنائی گئی جب وہ امیر جماعت کے منصب پرفائزہیں۔حسینہ واجدپرخون سوارہے اور وہ کسی اندرونی یا بیرونی احتجاج پرکان دھرنے کوتیارنہیں لیکن انہیں یہ یادرکھناچاہئے کہ وہ نفرت کی جس سیاست کوپروان چڑھا رہی ہیں بالآخروہ ان کی اپنی تباہی اور بربادی پر منتج ہوگی۔انہیں یہ اندازہ ہوناچاہئے کہ جماعت اسلامی اوراس کے امیر بفضلہ تعالیٰ اس خوبی اوراس خدادادقوت کی صفت سے متصف ہیں کہ ان کےپسماندگان ظلم کواس کے منطقی انجام تک پہنچادیں گے۔حسینہ واجدجونیاکھیل کھیلنے کو ہیں،وہ زیادہ خونی ثابت ہوسکتاہے۔انہیں اب بھی عقل کے ناخن لینے ہوں گے،اب جوجواب آئے گاوہ ان کی اپنی تباہی کا علمبردارہوسکتاہے۔
کیاخوب ہے کہ ہے معتوب وہی،مغضوب وہی مطلوب وہی
تاریخ بشر کو جس جس نے خون دے کے گل و گلزار کیا

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.