میڈیا کا کھلا تضاد

پاکستان میں آج کل دھرنوں اور جلسوں اور الزامات کی سیاست عروج پر ہے۔ جہاں عوام مختلف مقاصد کے لیے ان اجتماعات میں سریک ہوتے ہیں وہاں میڈیا کو بھی ماحول گرمانے کا موقع میسر ہوجاتا ہے۔

کسی سیاسی اجتماع یا جلسے میں شرکت کرنے کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں ضلع سوات میں جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام دستار فضیلت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ چونکہ ظاہری بات ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے زیر اہتمام پروگرام تھا تو سیاسی جلسہ بھی اسے کہا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے اس موقع پر میں سوات میں موجود تھا اور تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اگرچہ اکثر بیانات ایسے تھے جو سیاسی موضوعات پر کیے گئے۔ لیکن اگر ان کے حقیقی معنوں پر غور کیا جائے تو یقینا یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ وہاں پر بولے جانے والے اکثر الفاظ وہی تھے جن کا ہمارا مذہب ہم سے تقاضا کرتا ہے۔

بہر حال اس مضمون کا مقصد سیاست دانوں کے الفاظ اور ان پر بحث نہیں ہے۔ آج میں مذہبی اور سیاسی اجتماعات، مشرقی اور مغربی تہذیب، سیکولر اور مذہبی ، لیبرل اور اسلامی معاشرے کے عکاسی کے بارے چند الفاظ بحوالہ قلم کرنا چاہتا ہوں۔ جمعیت کے اجتماع میں مولانا فضل غفور ایم پی اے نے کہا کہ ہمارا اختلاف عمران خان ، نواز شریف، الطاف حسین، بلاول سے بھٹو تک یا کسی بھی دوسرے جماعت کے شخصیات سے نہیں بلکہ ہمارا اختلاف سیکولر اور لیبرل نظریہ سے ہے۔ اسلام امن اور اعتدال کا دین ہے ۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور ہمارا ہدف یہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔

موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے عرض کرتا چلوں کہ ضلع سوات کی تاریخ میں اتنا بڑا اجتماع شائد کبھی ہوا ہو۔ مرکزی شہر کے اندر بغیر ناچ گانے، لادینی خرافات اور اختلاط سے پاک اجتماع کا انعقاد یقینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے عوام پر امن، انصاف پسند اسلامی پاکستان چاہتے ہیں۔ اسی روز شام کے وقت لاہور میں جناب عمران خان کا دھرنا ہوا۔ اگر اسے میوزیکل شو کہا جائے جو بجا ہوگا۔ سڑکوں اور میدانوں میں مرد وں اور عورتوں کا ناچ گانا، مخلوط اجتماع یقینا اسلام دشمنی کا ثبوت ہے۔ چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی جبکہ لاہور والے اجتماع میں مردوں کا عورتوں کی پنڈال میں داخل ہونے کیسے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں؟

ہمارا مذہب ہمیں کس بات کی تعلیم دے رہا ہے اور ہمارے لیڈر ، ہمارے حکمران ہمیں کس سمت میں لے جارہے ہیں۔ ایسے میوزیکل نائٹ جلسوں میں غیر عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے مرد کیا اپنے عورتوں کے ساتھ یہ سب برداشت کر سکیں گے۔ ایسی فحاشی میں شرکت کرنے والے عورتوں کے مردوں کی غیرت و ضمیر کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ اسلام آباد دھرنے کے نتیجے میں ہونے والے طلاقوں کو ہم بھول گئے ہیں؟

ملک میں فحاشی و عریانی پھیلانے میں جتنا کردار ان لیبرل و سیکولر سیاست دانوں کا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہمارے میڈیا کا ہے۔ آج ہمارا میڈیا آزادی کے نام پر سنسنی پھیلاتے ہیں۔ ریٹنگ کے چکر میں بسا اوقات ہر قسم کے حدیں پار کر جاتے ہیں۔ اسلام کو تشدد پسند ثابت کرنا ہو یا معاشرتی و سماجی برائیوں کو حقوق نسواں کا نام دینا ہوں، میڈیا کے پروپیگنڈے کے بغیر ناممکن ہے۔ اگر کوئی لیبرل اور سیکولر لیڈر پھٹے کپڑے پہن کر کیمرے کے سامنے آئے تو اس کی سادگی اور عوام دوستی بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے طرف مذہبی رہنما جب بخاری شریف کے ختم کے موقع پر نو فارغ علماء کے اعزاز میں صوفے سے اتر کر زمین پر بیٹھتا ہے تو اسے جلسے کی بد انتظامی بنا کر تشہیر کی جاتی ہے۔

آزادی کے نام پر کب تک میڈیا ملک و مذہب کو بد نام کرتا رہے گا؟ کب تک نام نہاد آزادی فحاشی پھیلانے کے لیے استعمال کی جائے گی؟ کب تک برابری کے حقوق پر گھروں کو بر باد کیا جائے گا اور خاندانوں کو تھوڑا جائے گا؟ کیا نسلی، معاشی، معاسرتی، سیاسی اور لسانی منافرت پھیلا نا فرقہ واریت نہیں؟ کیا میڈیا اس فرقہ واریت میں ملوث نہیں؟

ہم حکمران طبقہ، عسکری حکام، عدلیہ اور NAPRA سے اپیل کرتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے بے حیائی اور فرقہ واریت کو پھیلانے کا راستہ روکھا جائے اور ہمارے اسلامی تشخص اور پر امن مضبوط پاکستان کے تشکیل میں کردار ادا کیا جائے۔

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76269 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.