جنوبی پنجاب کی ترقی؟

وزیراعلیٰ نے اپنا فرض پورا کردیا، انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا، جس کے بار ے میں کئی دہائیوں سے سیاستدان اور دانشور سرکھپاتے آئے تھے، کوئی اس راز تک نہیں پہنچ سکا تھا کہ آخر جنوبی پنجاب والے ترقی سے کیوں محروم ہیں؟ وزیراعلیٰ نے بتایا کہ’’․․․ دھرنوں کے شوقین دراصل جنوبی پنجاب کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے․․․‘‘۔ انہوں نے یہ بیان جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں انڈسٹریل سٹیٹ کی تقریب کا افتتاح کیا، یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس بیان کے بعد وہاں موجود لوگوں اور اس کے بعد اخبار سے یہ خبر پڑھنے والوں نے دھرنے والوں سے حساب مانگا یا اسے کچھ عرصہ کے لئے موخر کردیا۔ وزیراعلیٰ نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ دھرنے والوں کو تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کہ وہ میدان میں سرگرم ہو کر آئے ہیں، اس سے قبل تو عرصہ دراز سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ہی حکومت رہی ہے، تو دھرنوں سے قبل جنوبی پنجاب میں یہ کارِ خیر کیوں روبہ عمل نہیں ہوا۔ دھرنے والوں سے پہلے جنوبی پنجاب میں کونسی ترقی ہوئی ہے جو دھرنے والوں یا اسی قسم کے اور ملک دشمن عناصرکی وجہ سے رک گئی ہے۔

پنجا ب کے حکمرانوں کے پاس جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے بہت سے دلائل ہیں، دیکھیں ہر سال سیلاب کے دنوں میں لاکھوں (شاید کروڑوں) روپے کا فنڈ باہر سے آتا ہے، متاثرین کی مدد کی جاتی ہے، ان کے لئے گھر بنائے جاتے ہیں، ان کو ضرورت کی اشیاء مہیا کی جاتی ہیں، ان کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے فنڈز دیئے جاتے ہیں، ہسپتال اور سکولوں کا اہتمام ہوتا ہے، سڑکوں کی تعمیر ہوتی ہے، وزیراعلیٰ اور بعض اوقات وزیراعظم بھی دورے کرتے ہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ ایسے مواقع پر اکثر کیمپ جعلی ہوتے ہیں اور صاحب کے جاتے ہی بندوبست اکھاڑ لیا جاتا ہے)۔ ترکی اور دیگر ممالک کی مدد سے بہت سے کام کروائے جاتے ہیں۔ حکمران صرف یہی نہیں کرتے، جب کسی اہم مہم کا آغاز کرنا ہوتا ہے تو وہ عموماً جنوبی پنجاب کا انتخاب ہی کرتے ہیں، مثلاً میاں شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دور میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف ’’کیمپ آفس‘‘ (عرف عام میں جنہیں ٹینٹ آفس کہا جاتا ہے، قائم کئے تھے) ان کا افتتاح بھی جنوبی پنجاب کے اہم ضلع بہاول پور سے کیا تھا۔ انہوں نے سب سے زیادہ دانش سکول جنوبی پنجاب میں بنائے۔ ایک دانش سکول پر تقریباً ستر کروڑ سے زائد روپے خرچ ہوئے، اور وہاں داخل ہونے والے تمام بچے غریب الغربا ء ہیں۔ ان پر کروڑوں روپے ماہانہ خرچہ آرہا ہے۔ مگر ان غریبوں کی تعدا د آؤٹ آف سکول کُل بچوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ نہ ہی اس تناسب سے کُل شرح خواندگی میں معمولی اضافے کے امکانات ہیں۔

جنوبی پنجاب کے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا حا ل دیکھ لیں، کہنے کو یہاں یونیورسٹی اور میڈیکل کالج اور بھی نہ جانے کون کونسے تعلیمی ادارے قائم ہیں، مگر عملی طور پر حالت افسوسناک ہے، نہ شہر کی حالت، نہ ترقی کے اثرات، نہ عوامی سہولتیں۔ پورے خطے میں صحت کا عالم یہ ہے کہ مظفر گڑھ میں جب ترکی کے قائم کردہ ہسپتال کا افتتاح میاں شہباز شریف نے کیا تو ساتھ ہی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ لودھراں ہسپتال میں ہم نے نئی مشینری بھیجی، وہ استعمال نہیں ہوئی، اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پرانی تھی، ہمیں ڈوب مرنا چاہیے۔ جنوبی پنجاب کے ایک شہر ملتان میں میٹرو بس سروس کا آغاز بھی ہورہا ہے۔ یہی جنوبی پنجاب ہے جہاں کے عوام کے دلوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ’’اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘۔ اسی جنوبی پنجاب میں چھوٹو گینگ بھی ہوتی ہے۔ اسی جنوبی پنجاب میں نہری پانی کی بھی بے حد کمی ہے، یہاں کے لوگوں کو صرف تقریروں سے دلاسے دیئے جاتے ہیں، یہاں کے لوگوں کو جذباتی نعروں سے متاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکمران کچھ غلط بھی نہیں کرتے، جب یہ لوگ محرومیوں اور مسلسل نظر انداز کرنے کی پالیسی کے باوجود حکمرانوں کے ساتھ ہیں تو انہیں یہاں کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس میں جہاں حکمرانوں کے مظالم شامل ہیں، وہاں خطے کے عوام کی بے حسی اور غلامانہ ذہنیت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نے راجن پور کا دورہ بھی کیا اور چھوٹو گینگ کے ہاتھوں شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھر گئے، بچوں کو گود اٹھایا، تصاویر بنوائیں اور تقریر کی ’’یہاں ہسپتال میں غریب کا علاج نہیں ہوتا، امیر تو باہر علاج کروانے چلا جاتا ہے، مگر غریب ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے، ہم ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز کی کیفیت پیدا کر دیں گے ․․‘‘۔ خدایا ! یہ کس دنیا کی بات ہے، اور کون کر رہا ہے؟؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472309 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.