پا کستا ن ایک غر یب ملک ہے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
واقعی پاکستان ایک غریب ملک کی حیثیت رکھتا ہے یا یہ محض خیال ہے۔اگر
پاکستان کی عوام کی حالت زار کو دیکھا جائے تویہ حقیقت روز روشن کی طرح
عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے افرادخط غربت سے نیچے زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں مگر وہیں اس میں بسنے والا ایک طبقہ پرتعیش ا و رعیش و
عشرت کی زندگی گزار رہا ہے ،بظاہر یہ متضاد دکھائی دینے والا عمل ہے کہ
کیسے ایک ملک کاتین تہائی حصہ تو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے اور
ایک حصہ انتہائی امراء پر مشتمل ہے ، المیہ یہ ہے کہ وجود پاکستان سے لے کر
آج تک ملکی معیشت کا اتار چڑھاؤعدم استحکام کا شکار ہے جو اصل اور بنیادی
مسئلہ ہے جس کا بڑا سبب یہ سامنے آیا کہ امیر امیر ترین اور غریب طبقہ غربت
کی دلدل میں دھنستاچلا گیا،یہی وجہ ہے کہ اس سے ملک شدید بحران کا شکار
ہے۔ماضی کے دریچوں میں اگر جھانکا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ آزادی پاکستان
کے وقت بہت کم وسائل اور سرمایہ موجود تھا اور ترقی کا عمل بہت سست
تھا۔بدقسمتی سے سیاستدان ترقی کے جدیدعا لمی نظام اور ملک کی ضروریات سے
واقف نہ تھے۔شروع سے ہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا
سامناکرناپڑا۔پالیسیوں میں مسلسل ناکامی سے ملک کے حا لات بدتر ہوتے چلے
گئے ا و ر ماضی سے حال تک کوئی خاطر خوا ہ تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے اب
موجودہ صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری ، مہنگائی
اور ناخواندگی عوامی زندگی کے سب سے بڑے مسائل بن چکے ہیں۔تحقیقات کی روشنی
میں اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس حالیہ
چند برسوں میں غربت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو ا ہے عالمی بینک کی ایک
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی
ہے،غربت اور غریبوں میں اضافہ حکومت کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں مگر وہ
اپنی پر تعیش زندگی سے کسی صورت کمپرومائز نہیں کرنا چاہتے ۔ہمارے ہاں بہت
سے ایسے افراد ہیں جو دو وقت کی روٹی کمانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تو
ایسی صورت میں جو لوگ اپنے بچوں کوزیور تعلیم سے آراستہ کر پاتے ہیں وہ کن
مشکلات کا سامنا کرتے ہیں یہ کوئی ان سے پوچھے ،جبکہ بہت بڑا طبقہ اپنے
بچوں کو تعلیم نہیں دلوا پاتا جس کی وجہ سے تعلیم کی شرح میں کمی نمایاں
نظر آتی ہے نیز گھر کے سربراہ کے لیے اہل خانہ کے لیے علاج معالجے کے حوالے
سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔اس حقیقت سے
آنکھیں نہیں چرائی جا سکتی کہ درجہ چہارم کا سرکاری ملازم جب تک اضافی کام
یا اضافی ملازمت اختیار نہ کرے تو وہ اپنے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتا جبکہ
نجی شعبہ میں کام کرنے والوں کی انتہائی کم آمدنی میں تو تصور بھی نہیں کیا
جاسکتا۔حکومت کی طرف سے جاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں غربت بڑھی
ہے اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے یہ تعداد پانچ کروڑ نوے لاکھ سے
تجاوز کرچکی ہے گویا یہ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پرمجبورہیں قبل
ازیں ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہردس میں سے ایک غریب تھا اب یہ تعداد بڑھ
کر تین ہوچکی ہے۔ غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعدادمیں ایک دم حیران
کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ملک میں غریب افراد کی تعداد دو کروڑ سے بڑھ کر
پانچ کروڑ نوے لاکھ سے تجاوز ہو چکی ہے ۔غربت کی بنیادی وجہ سماجی بے
ایمانی ،عوام اورحکمرانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ ہر شخص بے انصافی
اورغیر منصفانہ طریقے سے دولت کے حصول کے لیے سرگرم ہے،معاشرہ بے راہ روی
کا شکار ہو چکا ہے،اس بے یقینی کی کیفیت نے معاشرے میں منفی سو چ کو بڑھاوا
دیا ہے ،قوم اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہے ،حکمران طبقہ اپنی کار کاردگی کا
مظاہرہ نہیں کررہے ،یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے ، کہ
اس کا نتیجہ یہ برآمد ہو اہے کہ الیکشن کمیشن نے جن ارکان قومی اسمبلی کے
اثاثوں کی تفصیلات جاری کی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں بے یقینی
اور حیرانگی کی سی کیفیت پائی جا رہی ہے کہ یہ لوگ واقعی ایک غریب پاکستان
کے باسی ہیں جن کی دولت اور اثاثے پاکستان کی غربت کو نہ صرف مٹاسکتے ہیں
بلکہ پاکستان کو امیر ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔الیکشن
کمیشن نے 22مارچ2016کو اثاثوں کے گوشواروں کی تفصیلات جاری کیں، جو اب
کتابی شکل میں شائع کردی گئیں ہیں نیزالیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے
ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کے گوشوارے 30جون 2015تک کے ہیں۔ دوسری طرف
انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارش کے باوجود الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ
کے اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر دوبارہ جاری نہیں کیں۔ الیکشن کمیشن نے
پاناما لیکس کے بعد ارکا ن پارلیمنٹ کے اثاثے ویب سائٹ سے ہٹا دئیے تھے۔
الیکشن کمیشن کاموقف ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اثاثوں کی تفصیل ویب
سائٹ پر ڈالنے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ قانون میں اثاثوں کی تفصیل ویب
سائٹ پر ڈالنے کا بھی کوئی ذکر موجود نہیں۔انتخابی اصلاحات کمیٹی نے 18
اپریل کو ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کو سفارش کی تھی
کہ پاناما لیکس پر شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے اثاثوں کی تفصیل ویب سائٹ
پر ڈالی جائے۔ سفارش کے باوجود الیکشن کمیشن نے تفصیلا ت ویب سائٹ پر جاری
نہیں کیں۔
بحرحال ملک کی سیاسی قیادت کی جانب سے 2015کیلئے الیکشن کمیشن میں جمع
کرائے گئے اثاثوں اور گوشواروں کی تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف ایک
ارب 74 کروڑ روپے کے مالک ہیں تاہم ان کی اہلیہ کلثوم پروین کے نام اثاثوں
کی قیمت 21 کروڑ 98لاکھ روپے ہے ،دونوں میاں بیوی کی بیرون ملک کوئی
جائیداد نہیں، نوازشریف کی مری کی جائیداد کی قیمت 25 کروڑ روپے ہے ، انہیں
تحفے اور وراثت میں ایک ارب 7 کروڑ روپے کی زرعی اراضی ملی ، اسکے علاوہ
حسین نواز نے انہیں 21 کروڑ 56 لاکھ بیرون ملک سے بھجوائے ، نواز شریف کی
لاہور میں مال روڈ پر135نمبر عمارت کی قیمت25کروڑ روپے ہے۔نواز شریف لاہو ر
اور شیخوپورہ میں 219ایکڑ زرعی زمین کے بھی مالک ہیں، شیخوپورہ میں زرعی
اراضی 1کروڑ 78لاکھ روپے سے زیادہ کی ہے۔ بیگم کلثوم نواز کے مال روڈ مری
میں 3بنگلے ہیں جن کی مالیت10کروڑ روپے ہے ، ہال روڈ لاہورمیں جائیداد کی
مالیت 10 کروڑ روپے ہے ، ایبٹ آباد چھانگلہ گلی میں بنگلہ8 کروڑ 3 لاکھ سے
زائد مالیت کا ہے۔ عمران خان کے ذاتی اثاثے 1 ارب 33 کروڑ روپے ہیں جبکہ ان
کے بنی گالا کے گھرکی مالیت 75 کروڑ روپے ہے جو انہیں کسی سے تحفے میں ملا
، اس کے علاوہ ان کی بیرون ملک بھی کوئی جائیداد نہیں۔عمران خان کی بھکر
میں چھ مختلف زرعی رقبہ جات ہیں جو 141کنال،64کنال،59کنال، 60کنال، 170کنال
اور 243کنال پر محیط ہیں۔میانوالی کے گھر میں حصہ اور شیخوپورہ میں80کنال
وراثتی زمین ہے ،اسلام آباد میں دو بیڈ کا ایک فلیٹ ہے ،زمان پارک لاہور
میں گھر کی مالیت 22 کروڑ روپے ، 50 لاکھ روپے کی پراڈو گاڑی ہے ، کپتان کے
پاس 3 لاکھ کی دو گائیں اور ایک بھینس بھی ہے ، ریحام خان کے بینک اکاؤنٹس
میں بھی 52 لاکھ روپے موجود ہیں۔ کیپٹن صفدر کے اثاثوں کی مالیت 1کروڑ روپے
سے زائد ہے ،وزیر اعلیٰ زشہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف 34کروڑ
روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار
کے پاس کراچی میں ایک گھر اور ایک گاڑی ہے جبکہ اثاثوں کی مالیت 8 لاکھ
روپے ہے۔ فضل الرحمان کے پاس صرف 68 لاکھ روپے کے اثاثے ہیں، ذاتی گاڑی تک
نہیں۔عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید دستی 2653 روپے کے اثاثوں کیساتھ
غریب ترین رکن پارلیمنٹ ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے پاس9کروڑروپے کے اثاثے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کے پاس 52ایکڑوراثتی زمین
،11لاکھ روپے کی چار کنال اراضی ، دس ہزارکی حصص مارکیٹ میں سرمایہ کاری،
17لاکھ روپے کی ایک کار ،50ہزار روپے کیش اورساڑھے 8لاکھ روپے کا فرنیچر
ہے۔ وفاقی وزیر قانون وموسمیاتی تبدیلی زاہد حامد نے 39کروڑ 22 لاکھ روپے
کے کل اثاثے ظاہر کئے۔ وفاقی مملکت برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین
18کروڑ70لاکھ روپے کی پراپرٹی ، 28کروڑ روپے کے دیگر اثاثوں اور دو گاڑیوں
کے مالک ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف 20کروڑ 7لاکھ روپے کی پراپرٹی ، چالیس
لاکھ کی گاڑیوں کے مالک ہیں ، دبئی کے بینکوں میں ان کے 33ہزار900درہم پڑے
ہیں،خواجہ آصف کے ان کی بیٹی کے ساتھ مشترکہ اکاؤنٹ میں 25ہزار800ڈالر
موجود ہیں جبکہ اہلیہ کے نام 6 لاکھ 24ہزارپڑے ہیں اوروہ 59کروڑ 50لاکھ
روپے کے مقروض بھی ہیں جبکہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری بھی کر رکھی
ہے۔وزیر داخلہ چودھری نثار کے پاس 319کنا ل وراثتی ، 8کنال ذاتی اراضی ،
پیرسوہاوہ میں 1کنال کا پلاٹ، فیروزسنز میں حصص ، 15لاکھ روپے کا سونا
وراثتی،ایک کار ، 80لاکھ سے زائد بینک بیلنس ہے۔وزیر پٹرولیم شاہد خاقان
عباسی کے پاس 40کروڑ روپے کی اراضی،90کروڑ کی ائیر بلیو ایئر لائن، 20لاکھ
روپے کی گاڑیاں ، 30لاکھ روپے کیش ہے انہوں نے 9کروڑ 20لاکھ روپے کا قرض
بھی لے رکھاہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کے پاس
30تولے سونا، چھ لاکھ روپے کا فرنیچر، 3کلاشنکوف ،ایک 30بور پستول ہے اور
چچا کے نام اراضی میں حصہ دار ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کے پاس
24کروڑ 21لاکھ روپے کی پراپرٹی ، 2لاکھ 50ہزارکا کارروبار، 56لاکھ روپے کی
گاڑیاں اور68لاکھ روپے کا بینک بیلنس ہے انہوں نے 5لاکھ روپے کی انشورنس
پالیسی بھی لے رکھی ہے۔
اگر 2014اور 2015کیلئے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثوں اور گوشواروں
کی تفصیلات کے موازنہ کیا جائے تو اس کی روشنی میں تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان کے بینک بیلنس میں پانچ کروڑ سے زائدکا اضافہ ہواہے ، عمران خان
نے تفصیلات میں 10لاکھ روپے کا سو نا ظاہر کیا جو شاید ریحام خان سے انکی
شادی کے موقع پر خریدا گیا تھاگزشتہ گوشواروں کے مقابلے میں اس مرتبہ تحریک
انصاف کے بینک بیلنس میں اضافہ دیکھنے کوملاہے جبکہ وزیر اعظم میاں نواز
شریف کے اثاثوں میں 60کروڑ کے لگ بھگ کمی ہو ئی ہے وہ اس طرح کہ وزیر اعظم
نواز شریف اورانکی اہلیہ کلثوم نواز کے نام پراپرٹی چودھری شوگر ملز،
حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ ، محمد بخش ملز اور حمزہ سپننگ ملزکی
مالیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ کلثوم نواز کو
تحفے میں ملنے والی ٹیوٹا لینڈ کروزر کی مالیت میں 10لاکھ ،ٹریکٹر کی قیمت
میں ایک لاکھ روپے کی کمی ہوئی،اسی طرح 11لاکھ 74ہزار روپے کے ایک ٹریکٹر
کا اضافہ ضرور دیکھنے کو ملا ہے ،مولانا فضل الرحمان کے گوشواروں میں گزشتہ
سال کے مقابلے میں نہ تو ایک روپے کی کمی ہوئی اور نہ ہی اضافہ دیکھنے میں
آیا، سربراہ محمود اچکزئی نے گزشتہ اثاثوں کی تفصیلات میں وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی کی خصوصی اجازت سے درآمد کی گئیں دو بلٹ پروف گاڑیوں کو چھپا
لیا ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے گوشواروں میں 2014کے مقابلے میں
رواں سال جاری ہونے و الے گوشواروں کے مقابلے میں دو کروڑ روپے کا اضا فہ
ہوا ہے ، گزشتہ گوشواروں میں مال مویشیوں کا تذکر ہ نہیں تھا اس مرتبہ اس
کا بھی خصوصی طورپر ذکر کیا گیاہے۔ متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق
ستار کے اثاثوں کی مالیت میں تین لاکھ روپے کی کمی ہوئی۔ بیشتر ارکان
پارلیمنٹ کی جانب سے ایسا لگتا ہے کہ پرانے گوشواروں کی تفصیلات میں معمولی
ترمیم کے ساتھ نقل الیکشن کمیشن کوجمع کرائی گئی ہے۔بحرحال یہ تفصیلات عوام
الناس کی آنکھوں کی بندھی پٹی کھولنے کے لیے کافی ہے جن کے ووٹ سے یہ امیر
سیاست دان ایوانوں میں راج کرتے پھر رہے ہیں اور اس سے اس حقیقت سے بھی با
خوبی پردہ فاش ہوگیاکہ یہ امیر سیاستدان کیوں غریب پاکستانیوں کی تقدیرصرف
اس لیے نہیں بدل پاتے ؟کیونکہ وہ کسی طور بھی غریب عوام کے مسائل سے آگاہ
نہیں ہیں سیاستدانوں کی بیشتر یا تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر آنکھ کھولتی
ہے اور پھر اسی دولت کی پجاری بن کر اسے اکٹھا کرنے میں مگن رہتی ہے یا
اکثریت دو سے چار کے فارمولے پر عمل درآمد کرنے کے لیے سیاست کے میدان میں
قدم رکھتی ہے اور پھر وہ عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف اپنی
دولت بڑھانے والی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو جاتی ہے اور غریب عوام دو وقت کی
روٹی کے لیے بھی ترس کے رہ جاتے ہیں۔
|