انہیں بے چینی سے انتظار ہے۔ اس کی کئی
وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے
پہلے جمہوری حکومتیں پارلیمنٹ میں بحث کرتی ہیں۔ کسی بھی ایشو کے ہر ایک
پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔اپوزیشن سیاسی سکورننگ کے بجائے
خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور
معاشروں میں تعمیری تنقید کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ تا ہم تنقید برائے
تنقید کے سبھی مخالف ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اپنے زاتی مفاد کے لئے یا اپنی
زاتی دشمنی دوستی نبھانے کے لئے کسی شخص یا ادارے پر تنقید کرے تو یہی
جہالت اور تعصب کی ادنیٰ مثال ہوتی ہے۔ اگر کوئی ہمارے کام کا نہیں یا ہمیں
مفاد پہنچانے میں دلچسپی نہیں رکھتا تو ہم اس کو بلا وجہ نشانے پر رکھ لیتے
ہیں۔ یہی معاملات کسی کی ذہنی بلوغت اور شعور کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں
اپوزیشن کا کام حکومت کا تختہ الٹنا یا اس کے لئے کندھا پیش کرنا ہی رہ گیا
ہے۔
بھارت اور امریکہ بھی ہمیشہ پاکستان میں مارشل لاء کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ
اپنے اہم معاملات جمہوری حکومتوں کے ساتھ نپٹانے سے گریز کرتے ہیں۔ اہم
معاہدوں یا فائلوں کو التوا میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آج
نہیں تو کل یہاں مارشل لاء لگے گا تو پھر یہ کام آسانی سے ہو جائے گا۔ یہ
عام تاثر ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی اس س اختلاف بھی کرے۔ مگر یہی ایک تلخ حقیقت
بھی ہے۔ کیوں کہ اس وقت ایک شخص تمام فیصلے کرتا ہے۔ مارشل حکومت تو ہوتی
ہی ڈسپلن کی پابند ہے۔ آرمی چیف اگر چیف ایگزیکٹو بن جائے تو ظاہر ہے کہ
اگر وہ کور کمانڈرز، فارمیشن کمانڈرز یا اپنے مشیروں سے مشورہ بھی کر لے تو
حتمی فیصلہ اسی کا ہو گا۔ یا جو اس کو پسند آئے ، وہی ہونا ہوتا ہے۔ کیوں
کہ ڈسپلن کی وجہ سے سینئر افسر کے آگے سب نے’’ یس سر ‘‘ہی کہنا ہو تا ہے۔
ناں کہنے کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جو لوگ دیگر اداروں
میں یا جمہوریت میں میرٹ کے بجائے پسند نا پسند یا فرد واحد کی وجہ سے آگے
آتے ہیں ۔ ان کا بھی یہی رویہ ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ، کابینہ ، یا کوئی بھی
ادارہ ان سولین آمروں کا سامنا کرے تو مشکل ہوتی ہے۔ اگرکسی ادارے کے سی ای
او کے رحم و کرم سے کسی افسر کی تعیناتی ہوتی ہے تو وہ عمر بھر اس کے سامنے
جی حضور ی کرتا ہے۔ اس کی ہر بات کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ اس جی حضوری
کی وجہ سے اس ادارے کے سربراہ کو زمینی حقائق کا پتہ نہیں چل سکتا ہے۔ اس
طرح ادارہ تباہی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اگر کسی ادارے کو کامیاب بنانا
ہے تو اس میں تعیناتیوں، پروموشن اور تقرریوں کا اختیار بالکل اس کے سی ای
او کو نہیں ہونا چاہیئے ۔ بلکہ اس کے لئے کوئی ایسی باڈی ہو جو اس ادارے کو
کنٹرول کرے۔
آج پاکستان میں ایسی سیاسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ امریکہ یا دیگر ملک
دشمن ممالک میں ان فائلوں سے گرد ہٹائی جا رہی ہو گی جہاں پاکستان میں
ہمیشہ مارشل لاء کا انتظار کیا جاتا ہے۔ اور فائلیں روک لی جاتی ہیں۔ وزیر
اعظم نواز شریف کے احتساب کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ پانامہ لیکس کی بنیاد
پر ان کو گھر اور جیل بھیجنے کے دعوے ہو رہے ہیں۔ عمران خان یا شیخ رشید یا
کوئی دوسرا اگر یہ سمجھتا ہو کہ نواز شریف کے جیل جانے سے وہ وزیراعظم بن
جائے گا تو یہ واقعی اس کی سادہ دلی ہو گی۔ حالات زیادہ خراب ہونے کی صورت
میں پاکستان دشمن بھی فوری حرکت میں آئیں گے۔ جنرل راحیل شریف کی بھی منت
سماجت کرنے والے میدان میں اتریں گے۔ یہی لوگ ہیں جو ہر وقت اپنے مفاد کے
لئے اہم اور معزز ترین ادارے فوج کو سیاست می اتارتے ہیں۔ فوج کے کندھے پر
بندوق رکھ کر اپنے مخالفین کو نشانہ بناتے ہیں۔ اہم اور ذمہ دار ادارے کی
ساکھ خراب کی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ انہیں جمہوریت یا فوج سے کیا لینا دینا۔
یہ بس اپنے اقتدار کی فکر میں ہوتے ہیں۔
ان دنوں پاکستان کے بعض سابق سینئر سفارتکاروں نے بھارت کے دورے پر تھے۔
بھارت کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد میں ہمایوں خان، ریاض کھوکھر، اشرف
جہانگیر قاضی، عزیز احمد خان، سلمان بشیر اور شاہد ملک شامل تھے۔ ان سے ہر
جگہ یہ سوال ہوتا رہا کہ کیا پاکستان میں مارشل لاء جلد لگنے والا ہے۔ ہر
جگہ یہ تاثر دیا گیا کہ پاک بھارت کے درمیان سول سطح پر ہی نہیں بلکہ
ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز، را ء اور آئی ایس آئی کے درمیان بات چیت
ہونی چاہیئے۔ اسے نیشنل سیکورٹی مشیروں تک ہی محدود نہ رکھا جائے۔ معلوم
نہیں بھارت اور امریکہ کو ہماری پارلیمنٹ یا جمہوری حکومتوں سے کیوں ڈر ہے۔
ہماری پارلیمنٹ یا جمہوریت فعال بھی نہیں۔ جبکہ اس کی اپنی اہمیت ہے۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کو موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لئے پارلیمنٹ سے
رجوع کرنا چاہیئے۔ ان آل پارٹیز کانفرنسوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو کچھ بھی
کرنا ہے ، پارلیمنٹ میں ہی ہونا چاہیئے۔ اس پر بحث ہو کہ احتساب کا طریقہ
کار کیا ہو۔ ٹرمز آف ریفرنس یا ٹی او آرز کیسے ہوں۔ ان میں کیا مزید شامل
کیا جائے۔ مگر اپوزیش اگر صرف یہ سمجھے کہ اب اس کی باری آگئی ہے تو یہ
شاید درست تاثر نہ ہو۔ اگر نواز شریف کا ہی احتساب مطلوب ہے تو بھی عمران
خان یا اپوزیشن میں سے کوئی وزیراعظم نہیں بن سکتے ہیں۔ عوام نے ن لیگ کو
پانچ سال کا منڈیٹ دیا ہے۔ اس کا احترام کرنا اگر کسی کو پسند نہ ہو تو اس
میں کسی کا کیا قصور۔ ایک تاثر یہ ہے کہ پاکستان دشمنوں کے اشارے پر ہی یا
ان کی ترغیب پر غیر محسوس طریقے سے پاکستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو
ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ گوادر بندرگاہ یا بجلی کے منصوبے یا پاک چین
اقتصادی راہداری سے پاکستان دشمن تکلیف میں ہیں۔ وہ ان کے بارے میں سوالات
کھڑے کر رہے ہیں۔ یا الزامات بھی عاید کئے جا سکتے ہیں کہ ان منصوبوں کے
لئے بھارے کمیشن وصول کئے گئے یا کک بیکس کو اجاگر کیا جائے گا۔ ن لیگ کے
حلقے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کے ترقیاتی منصوبے پاکستان دشمنوں
کو ہضم نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش
ملک میں مارشل لاء لانا ہے۔ جبکہ آج پاک فوج اور سول حکومت کے درمیان
تعلقات انتہائی دوستانہ ہیں۔ مشاورت ہو رہی ہے۔ تعاون بھی مثالی ہے۔ ملکی
سلامتی، خارجہ پالسیی میں پہلے اس اہم ادارے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔
لیکن آج تمام امور میں مشاورت ہو رہی ہے۔ اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ یہ
مفاہمت، دوستی، تعاون، مشاورت، معاملہ فہمی پاکستان کے عین مفاد میں ہے۔ اس
کا جاری رہنا ہی ضروری ہے۔ ملک کا مفاد اسی میں ہے۔ اگر کسی کو اپنا مفاد
عزیز ہو گا تو پھر تصادم، ٹکراؤ، سرد جنگ کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ اگر
کسی نے کرپشن کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہو۔ احتساب کے لئے کوئی پسند یا
ناپسند نہیں ہو سکتی۔ احتساب سب کا ہونا چاہیئے۔ جس کی کرپشن ثابت ہو جائے
اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ضروری ہو گی۔تا کہ کرپشن کرنے والا کوئی
بھی سابق یا موجودہ صدر، وزیراعظم،وزیر، بیوروکریٹ، جج، جرنیل اس احتساب سے
بچ نہ پائے۔ ان این جی اوز اور عوام سے چندے لینے والوں کا بھی احتساب ہو
کہ یہ رقم انھوں نے ہڑپ کر لی یا اس کا درست استعمال کیا گیا۔
03009568439پرایس ایم ایس/واٹس ایپ۔دریائے چناب کے کنارے چنیوٹ صدر پولیس
سٹیشن کے لاک اپ میں دو خواتین کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی بد سلوکی اور
زمیندار کا مزارع کی بیوی اور دو بچوں پر ٹریکٹر چڑھاکر ان کی ہڈیاں توڑنے
کا نوٹس لیا جائے۔ تینوں کی فیصل آباد الائیڈ ہسپتال میں حالت نازک ہے۔
سلیم چوھدری، چنیوٹ۔ |