مرنے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں

جہد مسلسل کا پیکرچل بسا امان اﷲ خان کی وفات پر ایک تاثراتی تحریر
یہ غالباً 1985 کی بات ہے راقم الحروف مدینہ منورہ میں زیر تعلیم تھا۔ مسجد نبوی میں ایک جانب سے کسی نے نام لے کر پکارا ، آواز کی سمت بڑھا تو دو افراد منتظر تھے ۔ ’’ میرا نام شیخ تجمل الاسلام ہے اور میں مقبوضہ کشمیر سے آیا ہوں اور یہ میرے ساتھ امان اﷲ خان ہیں جو عمرہ کی ادائیگی اور روضہ رسول ؐپر حاضری کے لیے لندن سے آئے ہیں۔ ان دو شخصیات کو اپنے سامنے پا کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی شیخ تجمل الاسلام وہ کہ جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک کانفرنس کا اعلان کر کے اور امام کعبہ کو خطاب کی دعوت دے کر بھارتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ دوسری طرف امان اﷲ وہ شخصیت کہ جو تحریک آزادی کشمیر کی ایک علامت بن چکے تھے۔ میں دونوں حضرات کودیکھتا ہی رہ گیا۔ مسجد نبوی میں عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد دونوں حضرات کو اپنے ساتھ ہوسٹل لے آیا۔ وہ رات یادگار رہے گی جب امان اﷲ خان نے کویت میں اگلے چند دنوں میں ہونے والی مسلم سربراہی کانفرنس کے لیے ایک یادداشت انگریزی زبان میں تیار کی اور راقم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ اس یادداشت کا عربی ترجمہ تیار کیا جائے ۔ وہ رات ہم نے جاگ کر گزاری اور نماز فجر کے لیے مسجد نبوی جاتے وقت یادداشت تیار تھی ۔ امان اﷲ خان وہاں سے کویت روانہ ہو گئے اور مسلم سربراہان کو کشمیری عوام کی آواز پیش کرنے کی کوشش کرنے پر بھارتی حکومت نے انہیں کویت سے نکلوا دیا۔

وہ دن اور آج کا دن امان اﷲ خان کے ساتھ ایک تعلق مسلسل قائم اور جاری و ساری رہا۔ اس عرصے میں امان اﷲ خان نے متعدد کتب لکھیں ، مقالات تیار کیے اور دنیا بھر کے سربراہوں کے نام یادداشتیں مرتب کیں۔ اپنی کتب مقالات اور یادداشتوں کے لیے وہ ہمیشہ راقم الحروف کو طلب کیا کرتے تھے اور رائے دینے کے لیے کہتے تھے۔ وہ اختلافی رائے کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے۔ ان کی سوانح عمری ’’جہد مسلسل ‘‘ جو تین جلدوں پر مشتمل ہے کا مطالعہ یہ آشکار کرتا ہے کہ مرحوم نے زندگی کے شعوری سفر میں پہلے دن جس ہدف کا تعین کیا تھا، زندگی کے آخری دن تک وہ اسی کے حصول کے لیے گامزن رہے۔ کتاب کی آخری جلد میں تو وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے شدید بیماری کی حالت میں نہایت یکسو ہو کر اپنے رب سے کچھ دن مانگ لیے تاکہ وہ تحریک آزادی کشمیر کی اس اہم دستاویز کو مکمل کر سکیں اور جوں ہی یہ جلد مکمل ہو گئی وہ داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔

تحریک آزادی کشمیر کے ضمن میں امان اﷲ خان کا ایک خاص موقف تھا جس سے بے شمار لوگ اتفاق کرتے ہیں اور کئی اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن ایک بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مسلسل محنت اور اخلاص کے اعلی رویے کی بنا پر امان اﷲ خان نے کشمیر کے تمام حصوں کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، انہیں تمام لوگ کشمیر کی مشترکہ ملکیت قرار دیتے تھے اس لیے کہ وہ 1932 میں استور گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے ، میٹرک ہائی ہامہ سے اور گریجویشن سری نگر سے کی ۔ اس کے بعد ہجرت کر کے آزاد کشمیر اور پاکستان آ گئے اور یہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کی ہر طرح سے رہنمائی کرنے لگے ۔ ایک وقت تھا کہ تحریک آزادی کشمیر 1971 کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد مکمل جمود کا شکار تھی ہر طرف مایوسی کا دور دورہ تھا، کشمیریوں نے پاکستان کے دو لخت ہونے کو اپنا سب سے بڑا المیہ قرار دے رکھا تھا ۔ اس وقت مقبول بٹ شہید اور امان اﷲ خان سامنے آئے اور انہوں نے کشمیریوں کو آزادی کی امید دلائی ، مقبول بٹ مقبوضہ کشمیر میں گرفتار ہو گئے اور 1984 میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ امان اﷲ خان نے جو اس وقت لندن میں تھے مقبول بٹ کی راہ پر سفر جاری رکھا ۔ برطانیہ میں قید ہوئے، اس کے بعد بلجیئم میں پابند سلاسل رہے ۔ وہاں سے رہا ہونے کے بعد پاکستان آئے وہ تھکنا ، رکنا اور جُھکنا نہیں جانتے تھے ۔ ان پر غیروں نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں اپنوں نے بھی کم ستم نہیں کیے لیکن وہ استقامت کا کوہ گراں بن کر میدان عمل میں رہے ۔ راقم نے امان اﷲ خان کا نہایت قریب سے مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ تحریک آزادی کشمیر میں امان اﷲ خان جیسی قد آور شخصیات بہت کم پیدا ہوئیں ۔ اس جملے سے یہ مقصد قطعا نہیں ہے کہ دیگر شخصیات کی نفی کی جائے۔ امان اﷲ خان نے زندگی بھر یہی تبلیغ کی کہ جس کا جتنا کام ہو اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شدید ترین نظریاتی مخالفین چوہدری غلام عباس مرحوم اور سردار عبدالقیوم خان مرحوم سے بھی گہرے تعلقات استوار کیے رہے ۔ سردار ابراہیم خان مرحوم اور کے ایچ خورشید مرحوم بھی امان اﷲ خان کے قریبی احباب میں شمار کیے جاتے تھے۔ شیخ محمد عبداﷲ مرحوم کہ جن کی 1947 کی ایک غلطی سے کشمیر کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا ان سے بھی امان اﷲ خان نے خط و کتابت جاری رکھی۔ امان اﷲ خان تحریک آزادی کشمیر کو روایتی جنگ سے بہت آگے یعنی سفارتی اور ابلاغی محاذدوں پر لے جانے کے بانی شمار کیے جاتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی نبض پر ہمیشہ ان کا ہاتھ رہتا تھا ۔ ان کی نظر میں کوئی کشمیری کمتر نہ تھا ۔ وہ ہر ایک کو ملت کے مقدر کا ستارہ کہتے تھے۔ سید علی گیلانی ان کے شدید ترین ناقد رہے لیکن امان اﷲ خان نے ان سے بھی شرف نیاز برقرار رکھا ۔ ان کے موجودہ وارث یٰسین ملک ان سے دور ہو گئے یا دور کر دیے گئے لیکن امان اﷲ خان نے انہیں ایک بار پھر گلے لگایا اور اب تحریک آزادی کشمیر کی قیادت ان کے ہاتھ میں ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر کے لیے انہوں نے ایک اور تاریخی قربانی یہ دی کہ اپنی اکلوتی صاحبزادی اسماء خان کی شادی مقبوضہ کشمیر کی ممتاز ترین شخصیت عبدالغنی لون کے صاحبزادے سجاد لون سے کی۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ میری بیٹی بھی میری طرح کشمیر کو متحد کرنے کا باعث بنے گی۔

دنیا بھر کے سربراہان سے مسلسل رابطہ رکھنا اور تمام ذرائع ابلاغ کو تحریک آزادی کشمیر کے لیے استعمال کرنا یہ ان کا طُرہ امتیاز تھا۔ امان اﷲ خان ایک ایسے کشمیر کے علمبردار تھے جس میں کشمیر میں بسنے والی تمام قومیتوں اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں حقوق حاصل ہوں ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ کشمیر کی وحدت کے لیے ضروری ہے تاہم کشمیر کی آبادی کے 97 فیصد مسلمان ہونے کے باعث وہ کسی طرح کی لادینیت کے روادار نہ تھے ۔ وہ اپنی عام زندگی میں ایک انتہائی دیانت دار اور سچے انسان تھے۔ 26 اپریل 2016 کو وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ مرحوم کی پہلی نماز جنازہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ادا کی گئی جس میں صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب خان ، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان، رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ اس کے بعد مرحوم کا جسد خاکی 24 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد گلگت لے جایا گیا، جہاں ان کی دوسری نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان سمیت علاقے کی نمایاں شخصیات اور عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ یاد رہے کہ سردار عتیق احمد خان مرحوم کے جسد خاکی کے ہمراہ گلگت گئے تھے۔ لیاقت باغ اور گلگت میں ان کی یاد میں تعزیتی ریفرنس بھی منعقد ہوئے جن میں ان کی خدمات کو سراہا گیا۔ اس کے علاوہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام علاقوں جن میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے اور اسی طرح دنیا بھر کے ممالک میں پھیلے ہوئے کشمیریوں نے مرحوم کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔ آمین
خورشید چھپ گیاہے، ستارے اداس ہیں
Syed Muzammil Hussain
About the Author: Syed Muzammil Hussain Read More Articles by Syed Muzammil Hussain: 41 Articles with 68739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.